صدر مملکت متحرک کیوں ہیں؟


صدر عارف علوی نے چند دن پہلے سینیئر صحافیوں کے ساتھ بات چیت کی ایک نشست رکھی۔ اور مختلف قومی معاملات پر اپنے خیالات کا اظہار کہا۔ ان کی باتوں کا لب لباب یہ تھا۔ کہ چونکہ ملک اس وقت شدید سیاسی اور معاشی تنزلی کا شکار ہے۔ لہذا سیاستدان ڈائیلاگ کے ذریعے بحران ٹالنے کی تدبیر سوچیں۔ وہ وفاق اور صوبوں کے درمیان جاری حالیہ کشمکش پر بھی متفکر نظر آئے۔ ان کا فرمانا تھا۔ بحیثیت صدر مملکت وہ اپنا آئینی رول ادا کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ڈاکٹر عارف علوی مفاہمت کو بروئے کار لاکر جلد انتخابات کے لیے ماحول سازگار بنانا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ عمران خان تواتر کے ساتھ کرتے آ رہے ہیں۔ جب کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنا چاہتی ہے۔

صدر کی پریس ٹاک یہ ظاہر کرتی ہے کہ موصوف اپنے پارٹی لیڈر کی ہدایت پر ہی مفاہمتی بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ رجیم چینج سے پہلے جب اپوزیشن کو نیب کے ذریعے انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ تب صدر صاحب کیوں چپ سادھ کر بیٹھے رہے۔ بطور صدر مملکت ان کی قومی ذمہ داری تھی۔ کہ وہ عمران خان کو انتقام کی سیاست سے باز رہنے کا مشورہ دیتے۔ ماضی میں پارلیمان عضو معطل اور ایوان صدر آرڈیننس فیکٹری بنا رہا۔ کیا صدر صاحب یہ بات نہیں جانتے تھے۔ کہ قانون سازی کے لیے حکومت کو کمک کہاں سے فراہم ہوتی تھی۔

اس وقت چونکہ سابق وزیراعظم عمران خان غیر معمولی قانونی مسائل کا شکار ہیں۔ ان کو جو غیبی مدد گزشتہ دس سال سے حاصل تھی۔ وہ بھی چھن چکی ہے۔ اس کے علاوہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ اور توشہ خانہ کے معاملات ان کو بند گلی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ لہذا انہی مسائل کے پیش نظر صدر صاحب عمران خان کے لیے ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدر علوی نے پریس کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیاستدان ایک میز پر بیٹھنے کے روادار نہیں ہیں۔ لہذا انہیں مذاکرات کے لیے قائل کرنا پڑے گا۔ کیا صدر صاحب یہ نہیں جانتے کہ عمران خان اپنے دور اقتدار میں شہباز شریف کے ساتھ مذاکرات سے ہمیشہ انکار کرتے رہے۔ وہ انہیں چور اور ڈاکو کے لقب سے پکارا کرتے۔ کبھی شوباز کہہ کر مخاطب کرتے۔

ماضی میں سیکورٹی معاملات پر ہونے والی میٹنگز میں عمران خان کا شرکت سے گریز کیا معنی رکھتا تھا۔ کیا صدر صاحب انہیں ان اہم ترین میٹنگز میں شریک ہونے کا مشورہ نہیں دے سکتے تھے؟

اب جب کہ عمران خان سیاسی تنہائی کا شکار ہوچکے ہیں۔ صدر علوی کا عمران خان اور وزیراعظم شہباز شریف کو ایک میز پر بٹھانے کی خواہش بڑی حیران کن ہے۔

دراصل جتنی برق رفتاری کے ساتھ وقت آگے بڑھ رہا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ بھی اتنی ہی شدت کے ساتھ بے چینی کا شکار ہو رہے ہیں۔

کیوں کہ اگر شہباز شریف نومبر کے مہینے تک اپنی حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ تو وہی پاکستان آرمی کا نیا سربراہ تعینات کریں گے۔ اس تعیناتی کے بعد عمران خان سیاسی طور پر بڑے کمزور ہوسکتے ہیں۔ لہذا وہ ایک بار پھر عام جلسوں کے ذریعے حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی موصوف کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کو اپنی غلطی درست کرنے کی استدعا کی جا رہی ہے۔ مبصرین کے مطابق ستمبر کا مہینہ سیاسی لحاظ سے بڑی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ نون لیگ کے قائد نواز شریف اور اسحاق ڈار کی آمد بھی ستمبر میں متوقع ہے۔

آئین کے مطابق صدر مملکت مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کے ساتھ ساتھ وفاق کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ انہیں سیاست اور پارٹی وابستگی سے بالا تر ہو کر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا پڑتی ہیں۔ مگر پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے صدور نے کبھی اپنا آئینی رول نیک نیتی سے ادا نہیں کیا۔ اس کی بنیادی وجہ صدر مملکت کا برسر اقتدار سیاسی جماعت سے تعلق کا ہونا ہے۔

جناب عارف علوی نے اپنی دور صدارت میں پارٹی پالیسی اور عمران خان کی ہدایت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جانبدارانہ کردار ادا کیا۔ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے اپنے آئینی رول سے انحراف کی پالیسی اختیار کی۔ جیسے کہ وزیراعظم شہباز شریف سے حلف لینے سے گریز اور صوبوں میں گورنروں کی منظوری میں تاخیر جیسے اہم امور سرفہرست ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کرتے وقت انہوں نے ربڑ سٹیمپ کا رول ادا کیا۔ اگر وہ چاہتے تو عمران خان کو اس ریفرنس کے مضمرات سے آگاہ کر سکتے تھے۔ مگر اس اہم ترین معاملے پر صدر نے اپنا mind apply نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے بھی قاضی صاحب کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کو کوڑے دان میں پھینکتے ہوئے ان کے خلاف منفی ریمارکس دیے تھے۔

پاکستان میں دراصل ایگزیکٹو کو باوجود اس کے آئین نے طاقت کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔ لیکن گراؤنڈ ریالٹیز کو اگر مدنظر رکھا جائے تو مقننہ اور اسٹیبلشمنٹ ایگزیکٹو پر پوری طرح حاوی دکھائی دیتے ہیں۔ وزیراعظم کا آفس اس وقت اہم نوعیت کی فیصلہ سازی میں بے بس ہو چکا ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے مقبول بیانیے ”ووٹ کو عزت دو“ کا مفہوم ہی دراصل وزیراعظم پاکستان کے آئینی اختیارات کی بحالی تھا۔ تحریک انصاف کے سربراہ بھی اس نازک معاملے پر نواز شریف کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ بقول عمران خان اگر وزیراعظم کو تمام معاملات کا جواب دہ سمجھا جاتا ہے۔ تو اسے اختیارات کا منبع بھی ہونا چاہیے نہ کہ فیصلے کہیں اور فورم سے ہوں۔ اور نا اہلی کا طوق وزیراعظم کے گلے میں پڑے۔ بقول عمران خان ان کی حکومت کی ناکامی کی بنیادی وجہ بعض اہم نوعیت کے امور میں اداروں کا ٹانگ اڑانا تھا۔

چونکہ صدر عارف علوی کی مفاہمت کی کوشش کا بنیادی مقصد عمران خان کی خواہش کے مطابق جلد انتخابات کا انعقاد ہے۔ لہذا شہباز حکومت شاید اس پیش رفت پر صاد نہیں کرے گی۔ کیوں کہ مشکل فیصلوں کے ذریعے ملک ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر نکل چکا ہے۔ لہذا اس بات کے قوی امکانات پیدا ہوچکے ہیں۔ کہ انتخابات 2023 میں ہی ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments