لِسے دا کیہ زور محمد


منیر نیازی سخن گو تو تھے ہی لیکن ان کی آنکھ وہ منظر بھی قلمبند کر لیتی تھی جو کینوس سے بہت پرے فلمایا جا رہا ہوتا تھا مگر اس کے رنگ کینوس پر ابھرتی تصویر میں چپ کے سے جذب ہو جایا کرتے تھے۔ کہہ گئے تھے کہ ”منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے“ ۔ شاید اسی کارن مملکت خداداد میں جب بھی ترقی کی بیل ڈالی گئی وہ کبھی توڑ نہیں چڑھ سکی۔ یہاں کی مٹی میں وہ زہر شامل تھا کہ جو بھی فصل بوئی گئی وہ بہار نہیں دیکھ سکی۔ بٹوارے کے بعد کا سیاسی منظرنامے میں بائیں ہاتھ کی جماعتوں کا بھی دور دورہ تھا۔

”ہم دیکھیں گے“ کی نوید لیے یہ ملک کو ایک ڈگر پہ ڈالنے کا خواہاں تھا تو دوسری طرف وہ دھاک لگائے بیٹھے تھے جن کے بقول ”پینے کا سلیقہ کچھ بھی نہیں اس پر یہ خواہش رندوں کی“ کے تناظر میں یہ زمین پارلیمانی جمہوریت کے لئے زرخیز نہ ہے۔ اسی دوران 1958 میں نئی بساط بچھائی گئی تو عوامی حکمرانی کا ڈول بجانے والے پانچویں کالم میں پھینک دیے گئے۔ حسن ناصر فسادی قرار پائے اور لاہور کے شاہی قلعے کے زنداں میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنے جو تب رکا جب ملک الموت نحیف جسم سے روح کھینچ کر پرواز بھر چکا۔

سیاسی گرفتاریاں اس ملک کی تاریخ میں سیاہ باب کو رقم کرتی ہیں۔ ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ یہاں ”ریاست“ کا ایبسٹریکٹ آئیڈیا ایک ادارے کی شکل میں تجسیم قرار پایا اور یہی ادارہ (ریاست) ملک کے سیاہ و سپید کا مالک ٹھہرا۔ جس کسی نے ”نمبردار کے نیلے“ کے خلاف آواز اٹھائی اسے یا تو بستی چھوڑنا پڑی یا گستاخی کا مرتکب قرار پا کر زنداں میں تڑپنا پڑا۔ عدم برداشت کے اس رویے میں وہی بے بسی ہے جو بقول میاں محمد بخش کے ”ڈاڈھے دے ہتھ گلما محمد تے وس نئیوں کجھ چلدا“ ۔

ساگر سندھ کا مرزا ہو تو جنج راول جا چڑھتی ہے اور دختر مشرق ہو تو سسرال رنگ پور کے کھیڑوں کے قریب اڈیالہ جیل ترتیب پاتا ہے۔

اختلاف رائے جمہوریت کا گہنا ہے اور وہاں سیاسی عمل تقویت پاتا ہے جہاں قانون کی بلاتعطل حکمرانی ہو ’جہاں متفرق آراء کو پنپنے کا موقع دیا جاتا ہے لیکن ایک ایسا گروہ ہے جو سیاسی عمل میں مداخلت کو نہ صرف اخلاقی فریضہ گردانتا ہے بلکہ اسے نظریہ ضرورت کے تحت سیاسی عمل میں ایک ”کنوینشن“ کا درجہ مل گیا چکا ہے۔ حالیہ برسوں میں براہ راست مداخلت کی سرنگوں کو تو بند کیا جا چکا ہے لیکن دہائیوں سے پڑے ان شگافوں سے کہیں نہ کہیں عدم توازن کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ اور یہی دراڑیں سیاسی جوڑ توڑ سے لے کر عدم استحکام اور سویلین اداروں کی ڈوریاں ہلانے تک کا عمل کو جگہ فراہم کرتے ہیں۔ ”شاہ عنایت کنڈیاں پائیاں لک چھپ کھچدا ڈور۔ میری بکل دے وچ چور نی۔ میری بکل دے وچ چور“ ۔

اپنے ہی گھر پر کمند ڈالنے والے کو جس نے بھی پکارا ہے وہ بقول احمد فرہاد کے ”اسے اٹھا لو“ کے حکم تلے روندا جاتا ہے۔ سابق وزیراعظم کی 2018 کے چناؤ میں عسکری مداخلت سے کامیابی اور تین سال سے زائد عرصے کی حکمرانی کسی سے ڈھکی چھپی نہ ہے بلکہ اب تو وہ خود برملا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ کیسے بیرونی کرداروں کے تعاون سے پارلیمانی نظام کی ڈوریاں ہلائی جاتی تھیں۔ ”ایک ورق“ تھا ملک کی کتاب کا اور پھر وہ ورق اکھاڑ دیا گیا۔

شہباز گل نے جو بھی ٹیلی ویژن پر کہا اس سے اختلاف کیا سکتا ہے لیکن جس نوعیت کے تشدد کا اسے سامنا ہے اس کی ہر فورم پر ببانگ دہل مذمت کرنی چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ موصوف ماضی میں مخالفین کو دشنام طرازی سے ہی تعبیر کرتے تھے لیکن ان کے ساتھ یہ سلوک ہرگز روا نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ نہ صرف تفتیش کے قوانین کے خلاف ہے بلکہ عزت نفس کو مجروح کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ پشتون تحفظ تحریک کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر بھی دو برس سے جیل میں موجود ہیں

بے بس دا کی وس چلدا کی اوس کھونا
لسے دا کیہ زور محمد نس جانا یا رونا

بقول راندہ درگاہ صحافی سرل المیڈا ”خاکی النسل افراد کو صرف ایک چیز سے خوف آتا ہے اور وہ ہے بیلٹ (ووٹ) کی طاقت۔“ پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات میں تاریخی کامیابی نے مندروں کی گھنٹیاں بجا دی تھیں اور یہ منادی کرا دی گئی تھی کہ اب (شاید) ارض خدا کے کعبے سے سب بت اٹھوائے جائیں گے۔ موجود حکمران اتحاد اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ ماضی قریب اور ماضی بعید میں انہیں بھی اس نوعیت کی انتقامی کارروائیوں کا سامنا رہا ہے۔ اس کا ادراک ہونے کے باوجود بدلے کے اس کھیل میں سہولت کار کا کردار ادا کرنا ان کے اپنے اوپر سوالیہ نشان ہے۔ (حاضر وقت وزیر اعظم کے اپنے برادر بزرگ تر جرم بغاوت کی سزا ضعیفی میں جلا وطنی کاٹ رہے ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).