آزادی اور مولوی


ہمارے محلے میں ایک کن کٹا رہتا ہے جس کی ساری زندگی بے راہ روی اور بے دینی میں گزری تھی، اس سال اچانک اس کے ذہن میں خیال آیا کہ جشن آزادی کا آغاز صبح کی نماز سے کرے گا، وضو کرنے کے دوران اسے بھول گیا کہ کانوں کا مسح اوپر سے شروع کرنا ہے یا نیچے سے، اس کے خیال میں یہ مسئلہ انتہائی نازک نوعیت کا تھا لہذا اس نے وضو چھوڑا اور ایک مشہور مولوی کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں اسے ایک دوست ٹکر گیا، کن کٹے نے اسے اپنے خیالات اور وضو سے متعلقہ اپنے خدشات سے آگاہ کیا دوست بھی مسئلے کی حساسیت کا قائل ہو گیا، کن کٹا دل ہی دل میں احساس تفاخر سے پھولنے لگا اور مسئلہ پوچھنے کے لیے بڑے عالم کے پاس جا پہنچا۔

بڑے عالم صاحب اتفاقاً بالکل اندھے تھے۔ کن کٹے نے دل پر جبر کرتے ہوئے انھیں اپنے مسئلے سے آگاہ کیا تو انھوں نے جواب دیا:پہلے کان کے اندر انگلی گھما کر نیچے کی طرف انگلی لائیں پھر کان کے باہر کی جانب جاکر نیچے سے اوپر کی طرف جائیں۔ یہ سن کر کن کٹے نے کہا: میری معلومات کے مطابق پہلے اوپر سے نیچے کی طرف جانا چاہیے۔ مولوی صاحب نے اس معاملے میں دیگر فقہی اختلافات کا ذکر کیا اور آدھے گھنٹے کی افہام و تفہیم کے بعد نتیجہ نکالتے ہوئے کہا:ہمارے فقے میں ایسے ہی کیا جاتا ہے اور یہی سب سے درست اور سنت پر مبنی طریقہ ہے اور اگر آپ کسی اور فقہ کے پیروکار ہیں تو اپنے کسی عالم سے رجوع کریں یہ سن کر کن کٹے نے کہا: مولوی صاحب!

کاش آپ مولانا کاغذی صاحب کو سنتے۔ وہ اس بارے میں صحیح رائے دیتے ہیں کہ کان کی لو پر پہلے ڈراپر کے ذریعے پانی کے چند قطرے ڈالیں پھر اسے اچھی مسل کر مسح کا آغاز کریں، میں نے ان کے ایک پروگرام میں سنا تھا، مجھے تو بہت لوجیکل لگا۔ مولوی صاحب نے غصے سے آنکھیں پھراتے ہوئے کہا: ایسا کرنا بالکل بدعت ہے۔ کن کٹے نے جو اباً کہا: مولانا صاحب برا نہ مانیے گا، آپ جیسے قدیم لوگ دین کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، زمانہ بدل گیا ہے، نوجوان نسل ہر چیز کی لوجیکل وجہ مانگتی ہے، آپ لوگ تو اختلاف پسند ہی نہیں کرتے، ذرا ذرا سی بات پر کفر کے فتویٰ لگانا آپ کا من پسند مشغلہ ہے۔

مولوی صاحب نے دل پر جبر کر کے اٹھنا ہی بہتر سمجھا۔ کن کٹا دل ہی دل میں اندھے مولوی کو لاجواب کرنے اور اس پر علمی فتح حاصل کرنے پر جی میں خوش ہوتے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ اس دوران اس کا جی ایک بار پھر پرانی روش کی طرف مائل ہو چکا تھا وہ سوچ رہا تھا کہ جس دین میں اتنے فرقہ وارانہ اختلافات ہوں اس دین پر کیسے عمل کیا جاسکتا ہے؟ اس سوچ نے کئی دن کن کٹے کی روح کو گھائل کیے رکھا آخر کار اس نے ایک اور مولوی کے پاس جانے کا فیصلہ کیا اور اسے اپنے خدشات سے آگاہ کیا۔

مولوی صاحب نے اسے بتایا کہ دین اور مذہب دو الگ الگ چیزیں ہیں اور اختلافات مذہبی یعنی قانونی ہیں جبکہ دین جو کہ اسلام ہے، میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس کی تسلی کے لیے مولوی صاحب نے اسے بتایا کہ اس طرح تو سائنسی علوم کی تھیوریز میں بھی اختلافات موجود ہیں لیکن کن کٹے نے ملحد ہونے کا فیصلہ کیا لیکن پھر بھی وہ مذہب کو ایک چانس دینا چاہتا تھا۔ پس اس نے فیس بک پر ملحدین کے جوابات دینے والا ایک گروپ جوائن کر لیا وہاں اس کی ملاقات اپنے جیسے بہت سے سوال اٹھانے والے لوگوں سے ہوئی جن کے سوالوں کو مولوی طبقہ کچل ڈالنا چاہتا تھا۔

یہاں ہی اس کی ملاقات ایک کلر بلائنڈ سے ہوئی جو مولویوں سے پوچھنا چاہتا تھا اس کو دیے گئے قرآن کا کور بلیک کیوں ہے جبکہ وہ سرخ قرآن چاہتا تھا؟ ایک فارغ نکٹا وضو کے دوران ناک میں پانی کی مقدار گراموں میں جاننا چاہتا تھا۔ اسی گروپ میں ایک پروفیسر بھی موجود تھا جو اصحاب کہف کے کتے کی عمر، اس کا رنگ اور اس کی نسل جاننا چاہتا تھا لیکن جاہل مولوی ان ضروری سوالوں کے جواب نہیں دے پائے تھے اور تنگ آ کر وہ سب ملحد بن گئے تھے۔

وہیں اس کی ملاقات ایک ایسے انسان سے بھی ہوئی جو صرف اس وجہ سے مولویوں سے متنفر ہو کر ملحد بنا تھا کیونکہ مولوی جشن آزادی کی صبح بھی جشن منانے کی بجائے تلاوت، اذکار اور وطن عزیز کی سلامتی کے لیے دعاؤں کی ایک محفل سجا کر مساجد میں بیٹھ جاتے تھے اور ان نوجوانوں پر تنقید کرتے تھے جو بائیک کا سائیلنسر نکال کر ، منہ پر پاکستانی جھنڈے بنا کر کاروں کی چھتوں پر ڈیک فٹ کر کے زوردار ترانے اور انڈین پنجابی گانے لگا کر بھنگڑا ڈالتے ہیں اور ون ویلنگ کرتے ہیں۔ گروپ کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ترقی نہ ہونے کی واحد وجہ مولوی تھا۔

پس نوشت: اس سال محرم اور یوم آزادی ایک ہی انگریزی ماہ میں آئے۔ لہذا آخر میں امام عالی مقام کی شان اپنی ایک منقبت پیش خدمت ہے۔

جب سے حسین مولا کربل میں آ گئے ہیں
صحرا کا ذرہ ذرہ سونا بنا گئے ہیں
عظمت پہ ان کی قرباں دے کر گھرانا سارا
ہم جیسے عاصیوں کا ایماں بچا گئے ہیں
باطل کے سامنے سر جھکنے نہ پائے ہر گز
نیزے پہ پڑھ کے قرآں مولا بتا گئے ہیں
اللہ کی رضا ہی پیش نظر تھی ان کے
من یشری نفسہ کے جلوے دکھا گئے ہیں
سجدہ ہے خود پہ نازاں جب سے حسین، کوثر
سجدے میں جا کے اپنے سر کو کٹا گئے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments