نیرہ نور: عکس تیرا ہی مگر تیرے مقابل آۓ


ایسی شخصیت کا ذکر کرنا، جو اپنی ذات کے اندر ایک انجمن ہو، کسی نو آموز اور کارزار حیات کے رموز سے بے بہرہ شخص کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس پہ مستزاد یہ کہ اس شخص کا آپ سے تعلق فقط آواز کا ہو۔ موسیقی کے سر تال اور راگ راگنیاں جن لوگوں کو ازبر ہوتی تھیں اب ان کا وجود تو قریباً ناپید ہے۔ لیکن ہم ایسے قدامت پسندوں کو ہر چند مختلف النوع موسیقی میں سے اصل روح کی غذا کی شناسائی تو بہر کیف ہے۔

آہ! لوگو! آج کیا موسیقی اور کیا سر راگ! دل سینے میں کانپ رہا ہے کہ نیرہ نور سے منسلک جذبات کو کس طرح نطق کے حوالے کیا جائے۔ ”اپنی ذات میں ایک انجمن“ تو بہت ہی حقیر جملہ ہے۔ نیرہ نور دنیائے موسیقی میں آفتاب تھیں۔ جس سے پہلے تارے روشنی کی بھیک مانگا کرتے تھے۔ اور جس کی نمود سے شہاب ثاقب بھی دوبارہ حیات جاوداں سے نوازے گئے۔ کئی چاند سر آسماں ہاتھ پیر ڈالے اندھیر نگری میں دفن ہونے کو تھے کہ یہ سورج اپنی ضو فشاں کرنوں سے انہیں دوبارہ روشن کرتا رہا۔ فلک سفلہ بے محابا تو ازل سے تھا ہی مگر یہ کڑا ستم بھی ہم نے سہنا تھا کہ نیرہ صاحبہ کو بھی چھین لیا۔

اب کے بار اگر پگڈنڈی عبور کرتے ہوئے ”کہاں ہو تم چلے آؤ“ کے ساتھ یہ خیال بھی لاشعور میں جاگا کہ نیرہ انتقال کر گئیں تو کیا معلوم تا ابد روح کو غذا میسر نہ آ سکے۔ یہ کان تا آخر خلا میں سے نیرہ نور کی آواز ڈھونڈتے پھریں۔

بچپن میں کبھی ( حالانکہ ابھی تک وہ سرحد پار نہیں کی) پی ٹی وی پر ”اے جذبۂ دل گر میں چاہوں“ نشر ہوتا تھا تو آنکھیں چمک اٹھتی تھیں کہ ابھی کچھ کر گزریں گے۔ پھر رفتہ رفتہ گردش ایام نے کاری وار کیے تو اس گیت کا مفہوم بھی سمجھ آنے لگا۔ لیکن وہ آواز! آہ! وہ کیسی سیرت رکھتی ہوں گی جن کے گلے میں قدرت کے فن کی تکمیل نظر آتی ہو۔ وہ سوز! آہ وہ درد اب اگر اس غم کی آمیزش سے ابھر آیا کہ نیرہ اب نہیں گائیں گی، خدا جانے کیا قیامت ہو۔ اب ہم کس طرح ”آج بازار میں پابجولاں چلو“ گنگنا گنگنا کر دل کو دلاسا دیا کریں گے۔ کس طرح اب لکھتے وقت ”یہ ہاتھ سلامت ہیں جب تک، اس نطق میں طاقت ہے جب تک“ سنا کریں گے۔ اب اگر رات تنہائی میں ”کہوں کس سے قصۂ درد و غم“ کے ساتھ نیرہ نور کی جدائی کا خیال آ گیا تو کون آنسو صاف کرنے کا حوصلہ رکھے گا۔

چاہے انہیں کوئی کسی لقب سے نوازے، محترمہ نیرہ نور وہی سادی سی، دھان پان سی، کم گو، شرمیلی، اور اپنے آپ کے ساتھ پر خلوص گلوکارہ ہی رہیں گی۔ حیران ہوں کہ اس جہان ہاؤ ہو میں، جس میں ہر صغیر و کبیر شہرت اور مقبولیت کی تگ و داؤ میں ہے، نیرہ نور واقعی اسی دنیا میں بستی تھیں! انہی کے بقول ابتدا میں لوگ انہیں معذور سمجھتے تھے۔ لیکن گلوکار کا موسیقی کے ساتھ خلوص سامعین کی کیفیات کو بھی جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کی آواز تنہائی میں بھی اس دل کا ساتھ نبھاتی تھی۔ ابھی بھی جب خوابوں کے آبگینوں کے ٹکڑے سمیٹنے کی باری آتی ہے تو وہی آواز ہاتھوں میں رعشہ کو کم کرتی ہے۔ اور دوبارہ نیرہ پکارتی ہیں،

” نہ یہ چاند ہو گا، نہ تارے رہیں گے
مگر ہم ہمیشہ تمہارے رہیں گے ”

اس روح کو اب تا ابد اسی شیریں زباں کی تلاش رہے گی جس سے حوران خلد اب محظوظ ہو رہی ہیں۔ آنکھیں مزید اس دکھ کا بار گراں اٹھانے سے قاصر ہیں کہ اب:

”دل کے ٹکڑے بھی کئی خون کے شامل آئے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments