پاکستانی مثبت تشخص کی جنگ


پاکستان کے علمی و فکری حلقوں میں ایک بنیادی نقطہ قومی سیاسی، سماجی، اخلاقی، معاشی، قانونی یا معاشرتی تشخص کا ہے۔ کیونکہ عمومی طور پر ہم لوگ خود پر حد سے زیادہ تنقید کرنے اور چیزوں کا جائزہ، تجزیہ یا موازنہ کرتے ہوئے بہت زیادہ منفی انداز میں سوچتے ہیں۔ بلاشبہ معاشرتی سطح پر ہمیں مختلف نوعیت کے چیلنجز اور اور منفی پہلو نمایاں ہیں۔ لیکن ہر ریاست کو مختلف چیلنجز اور منفی عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور ان کی داخلی یا خارجی تصویر پر سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ معاشرے میں سب کچھ غلط ہوتا ہے۔ غلطیوں کے ساتھ ساتھ کچھ اچھے اور مثبت پہلو بھی نمایاں ہوتے ہیں مگر ہم ان کو نظرانداز کر کے منفی مہم کو زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ یہ صورتحال پاکستان کو بھی درپیش ہے کہ ہم بہت زیادہ منفی ہو گئے ہیں اور مثبت پہلووں کو یا تو دیکھنے سے محروم ہیں یا ہم دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ ریٹنگ کی بنیاد پر میڈیا میں بھی ہمیں منفی خبروں کی تشہیر زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں سب کچھ برا ہے اور یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ نجی مجالس میں اپ پڑھے لکھے لوگوں کی باتوں کو سنیں یا ان سے بحث کریں یا پڑھے لکھے لوگوں کی تحریروں کو پڑھیں تو لگتا ہے کہ ہم بس تباہ ہونے والے ہیں اور ہم دنیا کی عملاً ایک ناکام سطح کی ریاست ہیں۔ اگر معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ ہی خود بہت زیادہ مایوس ہو اور اس کو معاشرے میں روشنی کے پہلو کم نظر آتے ہوں تو پھر ان کا علم بھی معاشرے میں مجموعی طور پر مایوسی یا اندھیرے کو پھیلانے کا سبب بنے گا۔

حالانکہ معاشرے کے پڑھے لکھے طبقہ کا کمال یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ اندھیرے میں روشنی کے امکانات کو پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ اس طبقہ کا کام لوگوں میں مایوسی نہیں بانٹنا ہوتا بلکہ ان میں امید کے پہلو کو بھی پیدا کرتا ہوتا ہے۔ وہ ضرور موجود چیلنجز کی نشاندہی کرتا ہے لیکن ان چیلنجز کی موجودگی میں وہ حالات سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو بھی پیدا کرتا ہے اور لوگوں کو یقین دلاتا ہے کہ ہم حالات کو بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

پچھلے دنوں قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن جو علمی و فکری محاذ پر مختلف سرگرمیوں کی مدد سے اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ قاسم علی شاہ کی سربراہی میں اسی اہم موضوع پر ایک علمی و فکری مکالمہ تعلیم اور میڈیا سے جڑے ماہرین کے ساتھ کیا گیا۔ اس میں اہم لوگوں کی شمولیت اور موضوع پر سیر حاصل بحث اور تجاویز کی مدد سے موضوع کا احاطہ کیا گیا۔ اسی فکری بحث میں ایسے کئی پہلووں کی نشاندہی کی گئی جو پاکستان کے مثبت تصویر دکھانے میں اہمیت رکھتے ہیں۔

یعنی تمام شعبوں میں ایسی ایسی شاندار کامیابیاں جو ہم نے انفرادی یا اجتماعی سطح پر حاصل کیں جو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، سماجی علوم، کھیل، سیرو سیاحت، آرٹ اینڈ کلچر، فن و تعمیر، صحت، تعلیم میں مشتمل ہیں ہم ان کو نمایاں نہیں کرسکے۔ اصل چیلنجز یہ ہے کہ ہم کوئی ایسی پالیسی اختیار نہیں کرسکے جہاں مثبت پہلووں کی نشاندہی کرنے کو ہم اپنی قومی ترجیحات کے طور پر پیش نہیں کرسکے۔ بقول ماہرین کے یہاں میڈیا میں منفی خبروں کی تشہیر بہت زیادہ ہے اور ان کے مقابلے میں مثبت تصویر کو منفی ریٹنگ کے طور پر لیا جاتا ہے جو مثبت خبروں کی کوئی بڑی پذیرائی نہیں بن پاتی۔ ان کے بقول لگتا ایسا ہے کہ جیسے بحرانوں کو پیدا کرنا یا تو ہمارا محبوب مشغلہ ہے اور اگر بحران نہیں بھی ہے تو اس کو بلاوجہ پیدا کر کے ہم صورتحال کو اور زیادہ بگاڑ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

ایک عمومی خیال تھا کہ سوشل میڈیا کی شکل میں جو ایک نیا متبادل میڈیا دنیا میں جنم لے رہا ہے وہ واقعی ایک مثبت میڈیا کے طور پر اپنی اہمیت کو منوا سکے گا۔ لیکن جو کچھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے اور جو ویڈیوز یا ٹویٹ کو وائرل کرنا ہے اس میں بھی بحران کو پیدا کرنا یا نفرت انگیز مواد کی تشہیر کرنا یا قابل نفرت سمیت اداروں کی خود مختاری اور سلامتی کو داؤ پر لگانا اور خاص طور پر چیزوں پر منفی آنکھ کا زیادہ استعمال بڑا چیلنج ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ نوجوان جو اس ملک کی سب سے بڑی طاقت ہیں ہم نے اس کو بہتر طور پر معاشرتی ترقی کے عمل میں شامل کرنے کی بجائے ان کو عملاً مخالفانہ مہم میں حصہ دار بنا دیا ہے۔ حالانکہ نوجوانوں کو خود جو بڑے بڑے چیلنجز درپیش ہیں ان کی عکاسی بھی مجموعی طور پر میڈیا میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں مجموعی میڈیا میں سیاست کی بالادستی، حد سے زیادہ سیاسی ٹاک شوز اور شخصیات کی بنیاد پر سیاست یا محاذ آرائی کے ایجنڈے کی وجہ سے حقیقی سیاسی، سماجی، معاشی مسائل پس پشت چلے گئے ہیں۔ ہم نوجوانوں کو اس ملک کے لیے ایک مثبت سفیر کے طور پر لے کر چلنے کی بجائے ان کو پیچھے کی طرف دھکیل دیا ہے۔

اسی علمی و فکری مجلس میں اس نقطہ پر زور دیا گیا کہ ہمیں ایک خاص حکمت عملی کے تحت معاشرے میں ہونے والے مسائل اور جو ہماری اہم کامیابی یا طاقت ہیں کے درمیان توازن قائم کرنا ہو گا۔ مثبت پہلووں کی نشاندہی کا مقصد یہ نہیں کہ ہم حقائق کو چھپا کر آگے بڑھیں بلکہ اگر ہم مسائل دکھا رہے ہیں تو تصویر کا دوسرا رخ جو مثبت ہے اس کو بھی نمایاں طور پر پیش کیا جائے۔ پاکستان میں جہاں ترقی کے بہت سے اہم چیلنجز ہیں وہیں ہم نے ماضی کے مقابلے میں کافی ترقی بھی کی ہے۔

ہمارا انتظامی ڈھانچہ، روڈ کا نظام، سیر و سیاحت میں ہونے والی مثبت تبدیلیاں، کھیل کے میدان سمیت بہت سے میدان ہیں جہاں بہت سے لوگ انفرادی یا اجتماعی سطح پر ملک کی نیک نامی کا حصہ بن رہے ہیں مگر ان کو نمایاں نہیں کیا جا رہا ۔ ہمیں واقعی اپنا دشمن خود بننے کی بجائے ایسی پالیسی کی ضرورت ہے کہ ہم قوم کے سفیر بھی بن سکیں اور بالخصوص ماتم کی دنیا سے باہر نکلیں اور ان مثبت پہلووں کو بھی اہمیت دیں جو ہمارے پاس موجود ہے۔

بنیادی طور پر قومی تشخص کی جنگ میں مثبت پہلووں کو نمایاں کرنے میں یہاں پر رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد یا اداروں کی اہمیت ہی ہوتی ہے۔ وہی قومی بیانیہ کی جنگ میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں دہشت گردی، انتہا پسندی کی جس بڑی جنگ کا ہم نے بہت طور پر مقابلہ کیا وہ خود قابل تعریف ہے۔ ہم نے کرونا میں ریاستی ناکامی کا بہت رونا رویا جبکہ ڈبلیو ایچ او کے بقول دنیا کو کرونا کے تجربات سے کچھ سیکھنا ہے تو پاکستان کے تجربے سے سیکھے کہ اس نے کیسے شاندار حکمت عملی سے کرونا کا مقابلہ کیا۔

اسی طرح دنیا میں ہم واقعی وہ قوم ہیں جس نے ریاست اور حکومت کے ساتھ عوامی سطح پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کی جنگ میں جو کردار ادا کیا اور جو قربانیاں دی ہیں ان کو فراموش نہیں کیا جا سکتا جن میں سیکورٹی اداروں کی بڑی قربانیاں بھی شامل ہیں۔ سیرو سیاحت کے میدان میں نمایاں ترقی اور بالخصوص انتظامی ڈھانچہ یا روڈ اسٹرکچر میں جو کام کیا ہے وہ واقعی قابل تعریف ہے۔ نوجوان پاکستان کی بڑی طاقت ہے اور اس میں بہت کچھ بدلنے کی صلاحیت بھی ہے اس کو کیسے آگے لایا جائے وہ واقعی چیلنج ہے۔ یہاں پاکستانی جن نامساعد حالات میں حالات کا مقابلہ کر کے خود کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ واقعی قابل تعریف ہے۔ حالیہ دنوں میں جو ارشد ندیم نے پاکستان کے لیے جو گولڈ میڈل حاصل کیا ہے وہ بغیر کسی سہولیات کے اس مقام تک پہنچتا ہے کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔

اصل میں ہمارا جو سیاسی بحران ہے اس میں جو محاذ آرائی کی سیاست کو نمایاں حیثیت حاصل وہ خود قومی تشخص کی مثبت عکاسی میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ کیونکہ حکومت اور حزب اختلاف کی سیاست نہ صرف قوم کو تقسیم کر رہی ہے بلکہ ان کی محاذ آرائی کا بڑا ایجنڈا ایک منفی سیاست سے جڑا ہوا ہے جو ہماری مثبت عکاسی میں خود بڑی رکاوٹ ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے ہم مایوسی کا کاروبار کرتے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ ہمارا یہ طرز عمل قومی خدمت کا سبب بن رہا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ایک مشہور قول ہے کہ اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ہم معاملات کو مثبت یا منفی میں سے کس آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے ہمیں قومی سطح پر ایک ایسی مثبت اور ٹھوس حکمت عملی درکار ہے کہ کیسے ہم اپنا قومی تشخص منفی سے مثبت طور پر پیش کر سکتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں اپنی سوچ اور فکر کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments