مائنس عمران ہوا تو مسلم لیگ نون بھی پلس نہیں ہو گی


ترکی کے ادیب اورحان پاموک سے کسی نے پوچھا کہ آپ کیوں لکھتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ’میرے اندر ایک دھن سی پیدا ہوتی ہے جو مجھ سے لکھواتی ہے یا جیسے غالبؔ نے ”آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں“ کہا ہے۔ کارل مارکس نے کہا تھا کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے، پہلے سانحے اور پھر تماشے کی صورت میں۔

آج پاکستان میں تاریخ خود کو دہرا رہی ہے، بس منظرنامہ بدل چکا ہے مگر کردار وہی ہیں۔ عمران خان آٹھ سال قبل جہاں کھڑے تھے، آج بھی وہیں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ 2014 میں اگست کے یہی دن تھے اور عمران خان اسلام آباد کی شاہراہوں پر کھڑے ہو کر دارالحکومت کی انتظامیہ کو للکار رہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ 20 اگست 2014 کو عمران خان کے جارحانہ بیانات کے بعد آئی ایس پی آر نے ایک پریس ریلیز جاری کی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ”ریڈ زون میں قائم عمارتوں کی حفاظت فوج کر رہی ہے“ ۔

آج 22 اگست 2022 ہے۔ عمران خان وہیں کھڑے ہیں، وہ آٹھ سال قبل بھی آئی جی اسلام آباد کو نہ چھوڑنے کی دھمکی دے رہے تھے اور آج بھی آئی جی اسلام آباد کو وارننگ دے رہے ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ ساڑھے تین سال تک وزیراعظم رہنے والے عمران خان صاحب آئی جی اسلام آباد سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ انہوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ آج ایک بار پھر اسلام آباد کی سڑکوں پر عمران خان اور اقتدار کے ایوان میں مسلم لیگ نون ہے۔ آج سے آٹھ سال پہلے اگست کے مہینے میں بھی یہی صورت حال تھی۔ تب بھی عمران خان کسی ”مداخلت“ کے منتظر تھے اور آج بھی ”مداخلت“ کی آس لگائے ہوئے ہیں۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ 2014 کے دھرنے کی وجہ سے ملک میں شدید سیاسی عدم استحکام تھا۔ معیشت بھی ہچکولے کھا رہی تھی مگر اسحاق ڈار کے باعث معیشت ڈوبنے سے بچی ہوئی تھی۔ عمران خان مگر یہ توقع لگائے ہوئے تھے کہ اداروں کے ذریعے ان کی مدد کی جائے گی اور ملک میں عام انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اس وقت بتایا جاتا تھا کہ آرمی چیف حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں مگر چند سینئر افسروں کا شدید دباؤ ہے۔ اس لئے جنرل (ر) راحیل شریف ان کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور پھر یہ ثابت بھی ہوا کہ ان افسروں کی ریٹائر منٹ کے بعد خان صاحب کی امید و آس ایسی ٹوٹی کہ انہیں دسمبر میں دھرنے کو خیر باد کہنا پڑا۔

اس دھرنے کے ماسٹر مائنڈ کون تھے؟ مشاہد اللہ خان مرحوم سمیت دیگر دوستوں نے تفصیل سے اس معاملے پر روشنی ڈالی ہے۔ کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے، قارئین سب جانتے ہیں۔ آج بھی صورت حال جوں کی توں ہے۔ دارالحکومت میں عمومی تاثر یہ ہے کہ کچھ دن بعد خان صاحب کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ بہرحال اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا کہ معاملات ٹھیک ہوجائیں گے یا پھر مسلم لیگ نون کی آزمائشیں برقرار رہیں گی۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ عمران خان کے حوالے سے فیصلہ کر لیا گیا ہے کیوں کہ سابق وزیراعظم کی وجہ سے قومی سیاست میں اس قدر تلخی پیدا ہو چکی ہے کہ عمران خان خود بھی چاہیں تو کم نہیں ہو سکتی۔ سیاسی اختلاف رائے رکھنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے معلوم ہوتے ہیں۔

شاید عمران خان کو مائنس کیے بغیر یہ تلخی کبھی ختم نہ ہو سکے کیوں کہ پاکستان میں موجود تمام سیاسی جماعتیں اگر کسی ایک نقطے پر متفق ہیں تو وہ ”مائنس عمران خان“ ہے۔ اور اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ خان صاحب کی زبان ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ انسان کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے ہوتی ہے۔

بہرحال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عمران خان آج جس بیانیے پر چل رہے ہیں، چند ماہ پہلے تک مسلم لیگ نون خود کو اس بیانیے کا وارث تصور کرتی تھی۔ عمران خان کے اس بیانیے کو اپنانے کے پیچھے مقاصد جو بھی ہوں، مگر آج وہ مسلم لیگ نون کے مقبول بیانیے پر اپنا مکمل کنٹرول جمائے ہوئے ہے۔ چند ماہ قبل عمران خان جن کی لڑائی لڑ رہے تھے، آج مسلم لیگ نون عمران خان کی جگہ پر کھڑی ہے اور ان کی لڑائی لڑ رہی ہے۔

صاحب الرائے لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان بھی مسلم لیگ نون کے خلاف کسی کی جنگ میں کودا تھا اور آج مسلم لیگ نون او ر اس کی اتحادی جماعتیں بھی وہی کر رہی ہیں۔ تب بھی سیاستدان ہارے تھے اور آج بھی سیاستدان ہی ہاریں گے۔ بس روپ بدل چکے ہیں مگر مرکزی کردار وہی ہیں۔ سیاستدان ہمیشہ سے کسی کی لڑائی ہی لڑتے رہے ہیں اور ان سیاستدانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان سے بہتر سہولت کاری بھی کوئی اور نہیں کر سکتا۔ سہولت کاری بھی کسی تیسرے فریق کے خلاف نہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف ہی کرتے ہیں جس کی سزا مسلم لیگ نون کو پنجاب میں حالیہ ضمنی انتخابات میں شکست کی صورت میں ملی ہے کیوں کہ منزلیں ہمیشہ بہادروں کا استقبال کرتی ہیں، بزدلوں کو تو راستے کا خوف مار دیتا ہے۔

مسلم لیگ نون کو غالباً راستے میں آنے والے مستقبل کے خوف نے یہاں تک پہنچایا ہے۔ عمران خان آج جو کچھ کر رہے ہیں، اس کی وجہ صرف مسلم لیگ نون کی پاکستان میں موجود قیادت کے غلط فیصلے ہیں۔ بہادر قومیں بزدل دوست تو کجا بزدل دشمن کو بھی پسند نہیں کرتیں۔ نواز شریف کے ساتھ بھی یہی مسئلہ رہا کہ وہ تھے تو بہادر مگر کمزوروں کے لشکر میں تھے۔ آج اگر مسلم لیگ نون آئندہ انتخابات میں کامیاب ہونا چاہتی ہے تو اسے اپنی حکمت عملی پر ازسر نو غور کرنا ہو گا، وگرنہ مائنس عمران ہوا تو مسلم لیگ نون بھی پلس نہیں ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments