زیر حراست ملزمان پر جنسی تشدد کیوں کیا جاتا ہے؟ پولیس افسران کا موقف


دینا بھر میں زیر حراست ملزمان خصوصاً مرد ملزمان پر جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تشدد کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ رہا ہونے کے بعد ایسے لوگ اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک سے ایک طویل عرصہ مختلف قسم کے ٹروما، صدمے، جسمانی، ذہنی یا نفسیاتی مسائل سے دوچار رہتے ہیں۔ ایسا تشدد عموماً عادی یا ہارڈ کور ملزمان کے ساتھ ساتھ بعض اوقات چھوٹے موٹے ملزمان کے خلاف بھی کیا جاتا ہے۔ جو عام تشدد سے اعتراف جرم نہیں کرتے۔

پولیس یا قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی جانب سے حوالات یا ان کے زیر استعمال پرائیویٹ جگہوں پر ملزمان کو ننگا کر کے ان کی تصاویر اور وڈیوز بھی بنائی جاتی ہیں۔ ان پر گالی گلوچ کے ساتھ کئی قسم کا تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ سب غیر قانونی ہوتا ہے، لہذا احتیاط کی جاتی ہے کہ ملزم کے جسم پر کوئی ظاہری نشان یا ضرب دکھائی نہ دے۔ کیونکہ ملزم کے ورثاء کی جانب سے عدالت کے ذریعے بیلف کے چھاپے یا اس کا میڈیکل کروائے جانے کی صورت میں اگر ظاہری تشدد ثابت ہو جائے تو ایسی صورت میں متعلقہ حکام کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔

حال ہی میں سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اپنے چیف آف سٹاف شہباز گل پر جنسی تشدد کیے جانے کے الزامات لگائے جانے سے اس کے پیروکاروں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جبکہ دوسری جانب عدلیہ کی جانب سے میڈیکل کرانے احکامات دیے گئے۔ تاہم پولیس کے مطابق شہباز گل کی میڈیکل رپورٹ میں یہ بات سامنے نہیں آئی کہ ان کے ساتھ کسی قسم کا جسمانی یا جنسی تشدد کیا گیا ہے۔ جبکہ شہباز گل کا بیان بھی سامنے آیا ہے کہ دوران حراست ان کے ساتھ جنس تشدد ہوا ہے۔

جب پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کسی عام یا سنگین واردات میں ملوث ملزم پر عام جسمانی تشدد ناکام ہو جائے اور پولیس کو شبہ ہو کہ وہ گنہگار تو ہے، مگر اپنے اعتراف جرم سے انکاری ہے، تو ایسی صورت میں بعض اوقات تشدد کے غیر روایتی طریقے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ جس میں جنسی تشدد یا ملزمان کے نازک اور حساس مقامات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آئیے چند ایک حقیقی واقعات سے دیکھتے ہیں کہ یہ جنسی تشدد کب اور کیسے کیا جاتا ہے؟

سنہ 90 ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں، جب میں جنوبی پنجاب کی ایک یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کا طالب علم تھا، تو یونیورسٹی میں ان دنوں دو طلباء تنظیموں، انجمن طلباء اسلام (اے ٹی آئی) اور اسلامی جمعیت طلبہ کے درمیان سخت محاذ آرائی پائی جاتی تھی۔ یونیورسٹی کیمپس اور ہاسٹلوں میں ایک لحاظ سے اجارہ داری تو اے ٹی آئی کی تھی۔ مگر اسلامی جمعیت طلبہ یونیورسٹی میں اقلیت میں ہونے کی وجہ سے لاہور کی ایک یونیورسٹی سے کبھی کبھی افرادی کمک اور جدید اسلحہ منگوا کر ہاسٹلوں پر وقتی قبضہ حاصل کر لیتی۔ مگر تھوڑے عرصے بعد ہی اے ٹی آئی انہیں مار کر بھگا دیتی۔ اور پھر وقفے وقفے سے یہ آنکھ مچولی ایسے ہی چلتی رہتی۔

ایک دفعہ جمیعت کے ساتھ اے ٹی آئی کی جانب سے کچھ زیادہ ہی زیادتی ہو گئی۔ تو انہوں نے دوسری تنظیم کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی۔ رات کو اچانک چھاپہ مار کر پولیس نے جمیعت کی نشاندہی پر اے ٹی آئی کے چند لڑکوں کو پکڑ لیا۔ تاہم انہوں نے اپنے پاس موجود اسلحہ برآمد نہ ہونے دیا۔ ان سے اسلحہ برآمد کرانے کے لیے پولیس نے پورا زور لگایا مگر اسلحہ برآمد نہ کرا سکی۔ پھر پولیس نے ایک ایسا حربہ آزمایا کہ اسلحہ بھی برآمد ہو گیا، اور لڑکوں نے اعتراف جرم بھی کر لیا۔

انہی دنوں یونیورسٹی کی حدود میں آنے والے تھانے کے ایس ایچ او نے مجھے ایک حوالے سے بتایا تھا کہ انہیں جس تنومند لڑکے پر شبہ تھا کہ اس کے پاس اسلحہ تو ہے مگر اس نے اسے کہاں چھپا رکھا ہے وہ یہ نہیں بتا رہا تھا۔

پولیس انسپکٹر کے بقول انہوں نے اپنا غیر روایتی فارمولا اپنایا اور کام فوراً بن گیا۔ انہوں نے تازہ گھوٹی ہوئی سرخ مرچیں منگوا کر اس لڑکے کو ننگا کر اس کی مقعد میں وہ تازہ گیلی مرچیں گھسیڑ دیں۔ نازک مقام پر پہنچنے کے بعد مرچوں نے اپنا کام فوراً دکھایا۔ تکلیف کی شدت سے وہ بلبلانے لگا۔ معافیاں مانگ مانگ وہ کہے جاتا تھا کہ ”میری توبہ، سیاست سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لوں گا، اور ابھی بتاتا ہوں کہ اسلحہ کہاں چھپایا ہوا ہے۔“ اور پھر ایسا ہی ہوا تھا۔

انسپکٹر صاحب کا فخریہ کہنا تھا کہ ان کے اس ”کارآمد نسخے“ کی بدولت پانچ منٹ تو دور کی بات، ہمارا کام تو مرچیں جانے کے پہلے دو تین منٹ کے اندر ہی ہو گیا تھا۔ اسلحہ برآمد کر کے اور اس کا اقبالی بیان لے کر ہم نے چالان عدالت کے حوالے کر دیا تھا۔

اس مضمون کی تیاری کے دوران میں نے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں مختلف حیثیتوں میں کام کرنے والے ایک ریٹائرڈ ایس پی سے جنسی تشدد کے متعلق پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ”ہر پولیس افسر کے پاس ملزمان سے تفتیش کرنے، ان سے راز اگلوانے اور اعتراف جرم کے اپنے بعض مخصوص طریقے ہوتے ہیں۔ وہ بھی بعض ایسے طریقے استعمال کرتے رہے ہیں۔ جن کو وہ ایک بڑے مقصد کے لیے ضروری خیال کرتے تھے۔ البتہ وہ دوران تفتیش یہ خیال ضرور رکھتے تھے کہ کسی بے گناہ کے ساتھ زیادتی نہ ہو، اور گنہگار سزا سے بچ نہ پائے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملزمان کو تھانے میں لتر وغیرہ مارنا تو نارمل سی بات ہے۔ انہوں نے اپنی کم و بیش 40 سالہ پولیس سروس کے دوران کسی ملزم کو منجی یا ٹکٹکی پر کبھی نہیں چڑھایا یا رولر پھیرنا وغیرہ کا کبھی استعمال نہیں کیا۔ ویسے ان کا ہاتھ کافی بھاری تھا۔ چھوٹے موٹے ملزمان تو ایک دو تھپڑوں سے ان سے اعتراف جرم کر لیتے تھے۔ بعض عادی ملزمان، رسہ گیر اور مویشی چور بڑے سخت جان ہوتے تھے۔ ان پر دوران تفتیش ضرور محنت کرنی پڑتی تھی۔

ریٹائرڈ ایس پی کا کہنا تھا کہ جن دنوں وہ سپیشل برانچ کے مرکز شاہی قلعہ لاہور میں بطور انسپکٹر تفتیش کار تعینات تھے، تو اس دوران انہیں بعض سخت جان ملزمان، خصوصاً بھارتی جاسوسوں سے اعتراف جرم کروانے کے لیے انہیں دوران تفتیش بعض اوقات غیر روایتی انداز بھی اختیار کرنا پڑتا تھا۔ وہ ڈرپ میں استعمال ہونے والی نیڈل (سوئی) اور موم بتی کا استعمال کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اچھے اور ذہین تفتیش کار کو نارمل تفتیش کے دوران ہی پتہ چل جانا چاہیے کہ ملزم بے گناہ ہے یا کہ گنہگار۔ البتہ کچھ ملزم واقعی بڑے گہرے اور سخت جان ہوتے ہیں جو آخری وقت تک ظاہر نہیں ہونے دیتے۔

پنجاب میں جو بھارتی جاسوس پکڑے جاتے وہ زیادہ تر تفتیش کے لیے سپیشل برانچ کے مرکز شاہی قلعہ لاہور میں لائے جاتے تھے۔ ان میں سے اکثر جاسوس بڑے سخت جان ہوتے تھے۔ وہ دوران تفتیش انہیں ڈرانے کے لیے پہلے ان کے سامنے سرخ رنگ کے پانی سے بھری ہوئی ڈرپ یا عرف عام میں جسے گلوکوز کی بوتل کہا جاتا تھا، لٹکا دیتے۔ ملزمان کو ڈرانے دھمکانے اور خوفزدہ کرنے کے لیے یہی بتایا جاتا کہ انہیں زہر ملے گلوکوز کی بوتل لگانے لگے ہیں۔ ملزم کو الٹا لٹا کر اس کے چوکنے (ہیپ) میں سوئی چھبو دی جاتی۔ سوئی چھبتے ہی وہ یہی سمجھتے کہ انہیں واقعی زہر کا ٹیکہ لگایا جا رہا ہے۔ اکثر اوقات ملزمان اس دوران اعتراف جرم کر لیتے تھے۔ جو اس سے بچ جاتے، یعنی یہ حربہ ان پر ناکام ہو جاتا۔ تو دوسرا طریقہ موم بتی کا استعمال تھا۔

موم بتی کا استعمال ایسے کیا جاتا تھا کہ ملزم کو ننگا کر کے اس کے جسم کے نازک حصے پر پگھلتی ہوئی موم بتی کے قطرے ڈالے جاتے۔ حساس حصوں پر موم بتی کے پگھلتے ہوئے قطرے گرنے سے انتہا کی تکلیف ہوتی تھی۔ دو چار قطرے پڑنے ہی سے ملزم بلبلانے لگتا تھا۔ اس عمل کے بعد ملزم کے پاس سوائے اعتراف جرم اور کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا۔ یہ بڑا کامیاب طریقہ تھا۔ اس کا ہمیں فائدہ یہ بھی تھا کہ اس سے ملزم کو وقتی تکلیف تو ہوتی تھی۔ مگر موم بتی کے پگھلے ہوئے قطروں کے نشان نہیں پڑتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی جاسوسوں پر انہوں نے یہ حربہ کئی بار آزمایا تھا۔ جس کے نتائج ہمیشہ مثبت آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments