آزاد کشمیر کے وزیر خواجہ فاروق احمد سے چار اہم سوالات


گزشتہ روز آزاد کشمیر کے ضلع میرپور کی تحصیل ڈڈیال سے تعلق رکھنے والے لندن میں مقیم معروف صحافی واحد کاشر نے ”جے کے ٹی وی ’‘ کی طرف سے ٹویٹر سپیس میں دو اہم شخصیات کے ساتھ پروگرام کیا گیا۔ ان میں ایک اقوام متحدہ میں خصوصی مشاورتی حیثیت کی حامل ’این جی او‘ ’جموں کشمیر کونسل فار ہیومن رائٹسJKCHRکے صدر ڈاکٹر سید نزیر گیلانی اور آزاد کشمیر کے ایک سینئر سیاستدان، آزاد کشمیر حکومت کے وزیر بلدیات و دیہی ترقی خواجہ فاروق احمد نے شرکت کی۔

ڈاکٹر سید نزیر گیلانی اور خواجہ فاروق احمد نے تقریباً تین گھنٹے جاری رہنے والی اس ٹویٹر سپیس میں شرکاء کے سوالات کے جواب دیے۔ ڈاکٹر سید نزیر گیلانی نے مسئلہ کشمیر کے مختلف پہلوؤں، مسئلہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور دیگر متعلقہ امور پر اظہار خیال پیش کیا اور متعدد سوالات کے جواب دیے۔ خواجہ فاروق احمد نے مسئلہ کشمیر، خصوصاً آزاد کشمیر حکومت کے امور و کردار سے متعلق سوالات کے جواب دیے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

سپیس کے میزبان واحد کاشر کے اس سوال کہ آزاد کشمیر میں خود مختار کشمیر کے حامیوں کو الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی اجازت تو ہے لیکن الیکشن میں امیدوار کے طور پر شامل ہونے کی نہیں، کے جواب میں خواجہ فاروق احمد نے کہا کہ گزشتہ الیکشن میں عدلیہ سے رابطہ کرنے پر آزاد کشمیر ہائیکورٹ نے خود مختار کشمیر کے چند حامیوں کو الیکشن میں امیدوار کے طور پر شرکت کی اجازت دی تھی۔ آزاد کشمیر بنک کو شیڈول بنک کا درجہ دیے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں خواجہ فاروق احمد نے کہا کہ آزاد کشمیر حکومت آزاد کشمیر بنک کو شیڈول بنک کا درجہ دلانے کے لئے مطلوبہ رقم کا انتظام کر رہی ہے اور توقع ہے کہ ایک دو ماہ تک آزاد کشمیر بنک کو شیڈول بنک کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔

سپیس کے آخر میں، میں نے آزاد کشمیر حکومت کے وزیر بلدیات و دیہی ترقی خواجہ فاروق احمد سے چار سوالات کیے ۔ پہلا سوال یہ تھا کہ آزاد کشمیر حکومت کے مشیر رائے شماری کا تقرر کیوں نہیں کیا جاتا جو آزاد کشمیر حکومت کی آئینی ذمہ داری بھی ہے؟ اس میں رکاوٹ کیا ہے؟ اور یہ کہ آزاد کشمیر حکومت حکومت پاکستان سے کیوں نہیں پوچھتی کہ آپ نے معاہدہ کراچی کے ذریعے دفاع، خارجہ امور ہم سے لئے ہیں، ان شعبوں میں کشمیر کے حوالے سے آپ نے کیا کیا ہے اور کیا کرنے کا ارادہ ہے؟

دوسرا سوال یہ تھا کہ آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے حکومتی درخواست پہ بلدیاتی الیکشن، جو ستمبر کے آخر میں ہونے تھے، میں دو مہینے کی مدت کا اضافہ کیا ہے یعنی اب بلدیاتی الیکشن نومبر کے آخر میں ہونے ہیں، کیا حکومت نے حلقہ بندیوں، ووٹر کے اندراج سے متعلق سیاسی جماعتوں کے اعتراضات اور بلدیاتی نظام کی قانون سازی سے متعلق کوئی کارروائی شروع کی ہے یا نہیں؟

تیسرا سوال سابق وزرائے اعظم و سابق صدور کو سرکاری گاڑیاں اور مراعات دینے سے متعلق تھا کہ آزاد کشمیر کے سابق وزرائے اعظم اور سابق صدور کو مہنگی گاڑیاں، ہر چند سال کے بعد پھر نئے ماڈل کی گاڑیاں، گراں مراعات دینا کس طرح جائز بات ہو سکتی ہے؟

چوتھا سوال یہ رہا کہ آزاد کشمیر کی تحریک انصاف حکومت نے ’پی ٹی آئی‘ کے ارکان اسمبلی کو نئی لگژریKIAگاڑیاں خلاف ضابطہ کیوں دی ہیں اور وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کے فرزند کی طرف سے ان کی سرکاری گاڑی کے استعمال، جس پہ سرکاری جھنڈا بھی لگا ہوا تھا، پروٹوکول کے ساتھ اسلام آباد میں سفر کرنا، اس بارے میں حکومت کی طرف سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آ سکی۔

آزاد کشمیر کے سینیئر سیاستدان، آزاد کشمیر حکومت کے وزیر بلدیات و دیہی ترقی نے میرے ان سوالات کے جواب میں کہا کہ جو گاڑیاں دی گئی ہیں وہ پارلیمانی سیکرٹریوں، جو اسمبلی کی کمیٹیوں کے چیئرمین ہیں، ان کو دی گئی ہیں، ان میں ساری جماعتوں کے کمیٹیوں کے چیئرمین شامل ہیں، ہمارے آئین میں ہے کہ اسمبلی کی کمیٹیوں کے چیئرمین کو ایک گاڑی دی جائے گی۔ ان کو KIA، چھوٹی گاڑیاں دی گئی ہیں۔ دوسری بات جو سابق وزرائے اعظم، سابق صدور، اس میں ایک ترمیم ہوئی تھی کہ سابق چیف سیکرٹری، سابق آئی جی پولیس، چاہے وہ دس دن کے لئے آیا، ان کے لئے بھی مراعات دی گئی تھیں، وہ ہم نے ختم کر دی ہیں، ان کی ساری تاحیات مراعات ختم کر دی گئی ہیں۔

ہمارے آئین میں سابق وزرائے اعظم اور سابق صدر کو ایک گاڑی دی جاتی ہے، وہ ہم سے پہلے کی ہے، میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ میں کہوں کہ میں کل ہی واپس لے لوں گا، یہ ایسی بات ہے کہ جس کے لئے consensus اتفاق رائے کی ضرورت ہے، اس میں ساری پارٹیوں کے، اس میں ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ ’پی ٹی آئی‘ پہ یہ الزام آئے کہ انہوں نے انتقامی کارروائی کی ہے، اس میں ہائیکورٹ، سپریم کورٹ کے جج صاحبان بھی ہیں صرف سابق وزیر اعظم سابق صدر ہی شامل نہیں ہیں۔

خواجہ فاروق احمد نے کہا کہ جہاں تک بلدیاتی الیکشن میں دو ماہ سے متعلق بات ہے، سپریم کورٹ نے تاریخ طے کر دی ہے، ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایکpreambleتیار کیا تھا، اگر اس پہ عملدرآمد ہو جاتا تو الیکشن کی حلقہ بندیاں، ریوینیو ولج، ووٹر لسٹیں، اس میں بہت سی خرابیاں تھیں، پھر ہائیکورٹ نے ایک فیصلہ دیا ہے کہ 43 یونین کونسلوں کو dissolve، تحلیل کیا گیا ہے، اگر وہ dissolve ہو گئی ہیں تووہ پھر نئی بنیں گی، میرے خیال میں اتنا وقت نہیں ہے کہ ہم اس میں سارا کام کر سکیں گے، یہ ہمارے الیکشن کمیشن کو ان باتوں کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا، میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اس حوالے سے اپنی ذمہ داری اس حوالے سے پوری نہیں کی ہے لیکن ہم حکومت میں ہوتے ہوئے اپنے اوپر یہ الزام نہیں لینا چاہتے کہ حکومت والے یا ایم ایل اے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہے، کہ ہم بلدیاتی الیکشن سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں، جس طرح سے آئیڈیا ڈویلپ کیا جا رہا ہے۔

حکومت بلدیاتی الیکشن کرانے کو تیا ر ہے، ہم نے تیس کروڑ روپیہ ان کو واگزار کر دیا، ستانوے کروڑ روپیہ ان کی ڈیمانڈ ہے، ہم معاشی بحران سے بھی دوچار ہیں لیکن اس کے باوجود ہم یہ پیسے ان کو دیں گے، ہم سمجھتے ہیں کہ اکتیس سال الیکشن نہیں ہوئے تھے تو دو، چار، پانچ ماہ اگر delayہو جاتے تو اس میں یہ ساری خرابیاں، ووٹر لسٹوں میں خرابیاں، ریوینیو ولج میں جو بریک ہوا ہے، ٹاؤن کمیٹیوں کی حلقہ بندیاں، یہ سب ٹھیک ہو جاتیں تو زیادہ موثر اور بہتر الیکشن ہو سکتے تھے لیکن چونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے تو عدالت کے احترام میں ہم مزید بات نہیں کر سکتے۔

آزاد کشمیر حکومت کے وزیر خواجہ فاروق احمد نے کہا کہ جہاں تک مشیر رائے شماری کا تعلق ہے، آزاد کشمیر حکومت نے 1990 میں، جب ممتاز راٹھور صاحب وزیر اعظم تھے، تو قائد حزب اختلاف چودھری سلطان علی کو مشیر رائے شماری بنایا گیا تھا، یہ پوسٹ آج بھی ہمارے آئین میں موجود ہے، اور میں آپ کی رائے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ جہاں ہم اتنے مشیر، وزیر بھرتی کرتے ہیں، تو مشیر رائے شماری، جس کا تعلق ہماری تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ ہے، تو وہ جب جائے گا کسی کو ملنے مشیر رائے شماری وزیر اعظم کے طور پر تو اگلا بھی سوچے گا کہ یہ کوئی خاص بندہ ہے، اس کی بات وہ توجہ سے سنے گا، انشاء اللہ یہ میں اپنی پارلیمانی پارٹی میں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے میں یہ بات کروں گا کہ ہم مل جل کر مشیر رائے شماری کا تقرر بھی کر سکیں تا کہ ایک نئی چیز دنیا کے سامنے آئے، سفارت خانے میں، یا ہائی کمیشن میں جب وہ جائے گا، یا کسی بیرونی وفد سے، جو مظفر آباد بھی آتے رہتے ہیں، سے جب وزیر اعظم کو مشیر رائے شماری ملے گا تو اس کی بات کو زیادہ اہمیت دی جائے گی، اطہر مسعود وانی صاحب آپ کی بات گریٹ ہے اور ہم کوشش کریں گے کہ اس میں ہم یہاں پہ دوسرے بندے بھرتی کرتے ہیں، میں لفظ بھرتی کا استعمال کروں گا کہ میں بھی ایک وزیر کے طور پر بھرتی ہوا ہوں، تو مشیر رائے شماری کا تقرر ضرور ہونا چاہیے۔

خواجہ فاروق احمد صاحب کی طرف سے جواب مکمل ہونے پر میں نے دوبارہ گوش گزار کیا کہ اگر عالمی سطح کی کسی شخصیت کو مشیر رائے شماری مقرر کیا جائے تو اس کا عالمی سطح پہ بھیimpact ہو گا۔ یہ بات رہ گئی کہ آزاد کشمیر حکومت پاکستان حکومت سے کیوں نہیں پوچھتی کہ آپ نے معاہدہ کراچی کے تحت ہم سے دفاع اور خارجہ امور لئے ہیں، اس میں آپ نے کیا کیا ہے؟ آزاد کشمیر حکومت یہ شعبے پاکستان کے حوالے کر کے بری الذمہ نہیں تو گئی، آپ پوچھ تو سکتے ہیں کہ آپ نے کشمیر کے حوالے سے دفاع اور خارجہ امور میں کیا کیا ہے اور کیا کرنے کا ارادہ ہے۔ خواجہ فاروق احمد صاحب نے وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کے فرزند کی طرف سے وزیر اعظم آزاد کشمیر کی سرکاری گاڑی، پروٹوکول کے ساتھ استعمال کے جواب میں کچھ نہیں کہا اور میں نے بھی ان کی طرف سے اس بات کا جواب نہ دینے پر اس سوال پہ اصرار نہیں کیا۔

خواجہ فاروق احمد نے کہا کہ آج میرے سامنے چھ صفحات ہو گئے ہیں جو میں نے آج کی گفتگو میں نوٹ کیے ہیں، میں آپ کے یہ سوالات لکھوں گا، انشاء اللہ یہ ساری رپورٹ بناؤں گا، میں نے آج بہت کچھ سیکھا ہے، اور آج ساری توپوں کا رخ میری طرف ہی تھا، لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ انشاء اللہ بہتر ہو گا، میری اپنی کافی ایجوکیشن ہوئی ہے، اپنے بھائیوں کی سوچ کے حوالے سے، اور کشمیری کیسے سوچتے ہیں، ہمارے پاکستانی بھائی کیسے سوچتے ہیں، مجھے اس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے، یہ جو آخر میں آپ نے چار سوال پوچھے ہیں، اس کو بھی میں اپنی رپورٹ کا حصہ ضرور بناؤں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments