دور جدید کے بت!


یہ ٹھیک ہے کہ ہم مسلمان جاہلیت کو بت پرستی اور بتوں سمیت اپنے پیچھے چھوڑ کر علم و معرفت کے زمانے میں داخل ہوچکے ہیں، چنانچہ اب نہ تو کوئی لات، عزیٰ اور ہبل کی پرستش کرنے والا ہے اور نہ ہی بعل کو پوجنے والا۔ لیکن کیا یہ بھی ٹھیک نہیں کہ ذوق پرستش میں صنم آج بھی لوگوں نے کئی تراش رکھے ہیں، جن کی وہ ہر وقت تعریف کرتے ہیں، خوشامد کرتے ہیں، ان کی ہر بات پر واہ واہ کرتے ہیں اور انہی کی بات کو حرف آخر سمجھتے ہیں؟ یہ الگ بات ہے کہ جس طرح دور ڈیجیٹل اور الیکٹرانک ہے اور لوگ چاند کی خاک پر جا پہنچے ہیں اسی طرح بت بھی ترقی کرتے ہوئے مختلف نئی شکلوں اور نئے ناموں کے ساتھ وجود میں آ گئے ہیں۔

یہ بت ویسے ہیں بہت، کہیں قومیت کے بت دل و دماغ پر سوار ہیں تو کہیں عصبیت اور لسانیت کے بتوں کو پوجا جا رہا ہے، لیکن دو قسم کے بت عوام میں بہت خطرناک حد تک مقبولیت حاصل کرتے جا رہے ہیں اور لوگ زیادہ دلچسپی بھی انہی کی پرستش میں لے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک سیاسی بت ہے اور دوسرا مذہبی بت۔ پہلے عرض کردوں کہ یہاں کسی فرد کو بت کہنے کی جسارت نہیں کی جا رہی بلکہ اس مرتبے اور مقام کی بات ہو رہی ہے جو عوام نے کسی کو دے رکھا ہے۔

اگر کسی سیاست دان کے بارے میں اس زعم میں مبتلا ہوا جائے کہ حق کا راستہ صرف اسی کا ہے، حق صرف وہی جانتا ہے اور ہر وہ شخص جو اس کے نظریے کو قبول نہیں کرتا یا اس کی آواز میں آواز نہیں ملاتا اور اس کی اطاعت کا نعرہ بلند نہیں کرتا وہ غدار ہے۔ پھر اسی کی خاطر بدتہذیبی کی جائے، دوسروں پر الزامات لگائے جائیں، انہیں گالیاں دی جائیں، ان کی شکلوں کو بگاڑا جائے، اس کی اطاعت میں دسیوں جرائم کا ارتکاب کیا جائے، دوسروں کی عزت، وقار اور احترام کو اس کی خوشنودی کی بھینٹ چڑھایا جائے اور صرف اسی کے کہنے پر دوسری ساری سیاسی جماعتوں کو گمراہ، کرپٹ، چور اور غدار قرار دیا جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ سیاستدان اب لوگو کے لیے لیڈر نہیں رہے بلکہ دور جدید کے سیاسی بت کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کی ایک طرح سے پرستش کی جا رہی۔

یہ اس کے لیے وہ مقام بلند ہوتا ہے کہ جس میں اس کے جنونی چیلے کمزور فکر اور تجریدی نظریہ کے ساتھ اس کے سامنے عقل و دانش کو ایک طرف رکھ کر گھٹنے ٹیک دیتے ہیں اور پھر ان پر اپنے صنم اکبر کی سحر کاری ایسی چل جاتی ہے کہ وہ سچ اور حق اسی کو سمجھنے لگتے ہیں ہے جو وہ ارشاد فرما دے۔ اگر وہ پورے ملک کو بند کرنے کا آرڈر جاری کر دے تو فرمانبردار شاگرد حکم کی تعمیل میں ذرا بھی دیر نہیں کرتے، چاہے ملکی املاک اور وسائل تباہ کیوں نہ ہو جائے اور خلق خدا کو ناقابل برداشت تکلیف کیوں نہ سہنا پڑے۔

کسی سیاست دان کا ملک میں کسی بھی وقت حشر نشر بپا کرنا تو شاید اب عام سی بات ہو گئی ہے لیکن اگر وہ یہ ارشاد فرما دے کہ فلاں غدار ہے جو زندہ جلائے جانے کا مستحق ہے تو یہ دہکتا ہوا کوئلہ لانے میں بھی کسی تامل سے کام نہیں لیں گے۔ یہ کوئی جذباتی باتیں نہیں بلکہ موجودہ اور ماضی قریب کے سیاسی منظرنامے کو سامنے رکھ کر یہ بات مخفی نہ رہتی کہ بعض سیاسی جماعتوں کے ورکرز اپنے لیڈر کے حوالے سے ایسے ہی جنون میں مبتلا ہیں۔

لگ بھگ یہی صورتحال اس وقت بھی ہوتی ہے جب کوئی مذہبی لیڈر اس طرح کے مقام بلند پر فائز ہو کر پہنچی ہوئی شخصیت بن جاتا ہے۔ چنانچہ اس کے پیروکاروں کو بھی دین کا محافظ صرف وہی نظر آتا ہے۔ وہ اس کی ہر بات کو بغیر دلیل کے مان لیتے ہیں۔ دینی احکامات کا ترجمان وہ صرف اسی کو سمجھتے ہیں۔ شرعی نصوص کی تشریح و تعبیر صرف اسی کی معتبر مانتے ہیں۔ دوسروں کی تکفیر، تضلیل یا تفسیق بھی وہ صرف اسی کے کہنے پر کرتے ہیں اور یوں وہ ان تمام تعلیمات اور ہدایات کو جو وہ طے کرتا ہے بغیر تحقیق کے خدائی احکامات کے طور پر قبول کرلیتے ہیں، بلکہ اس کے تو خواب کو بھی وہ وحی سے کم نہیں سمجھتے۔

اب سوال یہ ہے کہ نوبت بایں جا رسید کیوں؟
تو جواب یہ ہے کہ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں،

لیکن بنیادی وجوہات تین ہیں۔ ایک اعتدال کو ترک کرنا جو ہمارے دین کی خصوصیت اور اس کا حسن ہے۔ دوسرا غلو کو اختیار کرنا جس کو ہمارے دین نے منع کر دیا ہے اور جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

کہ دین میں غلو ( حد سے بڑھنے ) سے پرہیز کرو۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو ہی نے تباہ کیا ہے۔

اور تیسرا شخصیت پرستی میں مبتلا ہونا، اور یہی وہ بنیادی سب ہے جس کی وجہ سے انسان اعتدال کے راستے کو چھوڑ کر غلو کی گہری اور تاریک کھائی میں جا گرتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ اعتدال کی حد تک کسی شخصیت سے متاثر ہونا فطری بھی ہے اور کوئی بری بات بھی نہیں ہے، کیونکہ سارے انسان ایک جیسی صلاحیتوں کے مالک نہیں ہوتے۔ ہر دور اور ہر شعبہ میں با صلاحیت لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود رہی ہے، اور ان میں سر فہرست انبیاء کرام علیہم السلام ہیں جو اللہ کے برگزیدہ اور منتخب کردہ بندے ہیں۔ لیکن اگر شخصیت پرستی کوئی مثبت رویہ ہوتا تو اللہ تعالی ان کے مقام و مرتبے کے حوالے سے غلو یعنی حد سے تجاوز کرنے سے منع نہ فرماتے۔

شخصیت پرستی یہ ہے کہ کسی مذہبی پیشوا یا سیاسی لیڈر کا طلسم حواس پر اس طرح سوار ہو جائے کہ پھر اس کے کردار کو شریعت کی کسوٹی پر پرکھے بغیر اس کی اطاعت کی جائے اور اس کے قول و فعل کو اس کے پیروکاروں کے ہاں عقیدے کا درجہ مل جائے۔

شخصیت پرستی کی ایک علامت یہ ہے کہ اس میں مبتلا شخص عموماً غیر ارادی طور اپنے لیڈر کو معصوم عن الخطا اور اس کے مخالفین کو راندہ درگاہ سمجھنے لگتا ہے۔ اور پھر یہی سلسلہ جب طول پکڑتا ہے تو شخصیت پیروکاروں کے دل و دماغ میں ایسی رچ بس جاتی ہے کہ پھر اس کا نظریہ ان سے کہیں گم ہو جاتا ہے اور وہ شخصیت ہی ان کے لیے مقصود بالذات ٹھہرتی ہے۔

ادھر لیڈر کو بھی جب یقین ہو جاتا ہے کہ اب اسے اپنے پیروکاروں میں صنم اکبر کی حیثیت مل چکی ہے تو پھر وہ بھی اپنے کسی ورکر کی طرف سے علمی یا انتظامی نوعیت کے اختلاف کی جسارت پر اسے غیر مخلص اور منافق کہہ کر دھتکار دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔

اگر پاکستانی عوام ان بتوں کو گرانے میں کامیاب ہو گئے تو ملک کے بہت سارے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments