انگریزوں کی گود میں انڈین کانگریس کی پیدائش


وی پی مینن جو قائداعظم کو نئی نسل کا ہیرو قرار دے رہے تھے، دراصل اس کے پیچھے منفی رجحانات کارفرما تھے۔ ایک طرف کانگریس کے نفس ناطقہ اور دوسری طرف وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے سب سے زیادہ قابل اعتماد آئینی مشیر تھے۔ ان کی آزادی سے مراد یہ تھی کہ پورے ہندوستان کو ہندوؤں کے حوالے کر دیا جائے اور مسلمانوں کے ہاتھ پیر باندھ کر ان کی غلامی میں دے دیے جائیں۔ سرسید احمد خاں نے کانگریس کا یہ گھناؤنا کھیل بہت پہلے بھانپ لیا تھا اور اپنے ہم وطن مسلمانوں کو کانگریس سے کسی قسم کا تعلق پیدا کرنے کے خوفناک نتائج سے بروقت آگاہ کر دیا تھا۔

کانگریس کی سیاسی قیادت انگریزوں کے ہاتھوں تیار کی گئی تھی اور اس کا قیام بھی ایک برطانوی عہدے دار مسٹر ہیوم کے ذریعے عمل میں آیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کے سالانہ اجلاسوں میں برطانیہ کے اعلیٰ عہدے دار بلائے جاتے جو کانگریس کی قراردادوں کو عملی جامہ پہناتے تھے۔ وہ ہندو لیڈر جو اجلاس کی صدارت کرتے، وہ انگریزوں سے مکمل وفاداری کا دم بھرتے نہیں تھکتے تھے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ انگریزوں کے بوٹ پالش کرنے والے کانگریس کے یہ صدور یہ ثابت کرنے میں خون پسینہ ایک کر دیتے کہ کانگریس ملک کی آزادی کے لیے برطانوی استعمار سے نبردآزما ہے جبکہ مسلمان اس کے حاشیہ بردار بنے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ ہر پہلو سے تاریخ سے متصادم تھا، کیونکہ مارشل لا کے تحت انگریزوں نے مسلمانوں کو جنگ آزادی کے بعد بڑے پیمانے پر پھانسیوں پر لٹکایا تھا اور ان کے بہادر قائدین کالا پانی بھیج دیے گئے تھے۔

سید حسن ریاض نے ”پاکستان ناگزیر تھا“ میں کانگریس کو ہر موقع پر کس قدر سرکاری حمایت حاصل رہی، ان درپردہ کوششوں کا حال تفصیل سے بیان کر کے ہندو قیادت کی لاف زنی اور کذب بیانی کا سارا پول کھول دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی جابرانہ حکومت کے خاتمے کے باوجود ملکی حالات کلی طور پر اطمینان بخش نہیں تھے، کیونکہ عوام افلاس کا شکار تھے اور ان کے اندر نفرت اور غصہ بھرا ہوا تھا۔ مسٹر ہیوم ایک برطانوی عہدے دار تھے۔

انہیں جب یہ محسوس ہوا کہ ملک میں سخت سیاسی بے چینی ہے اور خفیہ سازشیں ہو رہی ہیں جنہیں ہندوؤں کے مذہبی گرو اور ان کے چیلے چانٹے آگے بڑھا رہے ہیں، تو ان کے ذہن میں خیال پیدا ہوا کہ ایک ایسا نظام ہونا چاہیے جو ہندوستانیوں کے دلوں کا غبار نکالتا رہے۔ ہندوؤں کے پاس پہلے ہی کئی تنظیمیں تھیں جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ سرگرم تھے، مگر ان کے ہاں ایک متحد ہندوستان کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اس پر مسٹر ہیوم نے آل انڈیا انجمن کا خاکہ ترتیب دیا۔

یہ بھی سفارش کی کہ سالانہ اجلاس کے صدر صوبوں کے گورنر ہوں۔ وہ وائسرائے سے مشورہ کرنے شملہ گئے، مگر لارڈ ڈفرن نے اس اسکیم کو بہت زیادہ مفید خیال نہیں کیا اور مشورہ دیا کہ صوبائی گورنروں کو سالانہ اجلاسوں کی صدارت نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ ان کی موجودگی میں لوگ دل کی بات نہیں کر سکیں گے۔ کلکتہ، مدراس اور بمبئی کے تجربے کار اہل سیاست نے بھی لارڈ ڈفرن کا مشورہ پسند کیا۔ وائسرائے نے مسٹر ہیوم سے یہ عہد لیا کہ یہ ظاہر نہ ہونے پائے کہ یہ ان کی تیارکردہ اسکیم ہے۔

وائسرائے کی منظوری حاصل کرنے کے بعد مسٹر ہیوم انگلستان گئے۔ وہاں انہوں نے متعدد زیرک شخصیتوں سے مشورہ کیا اور ان کی رائے سے انگلستان میں انڈین پارلیمانی کمیٹی قائم ہوئی جو انتخابات میں کھڑے ہونے والے امیدواروں سے یہ عہد لے گی کہ وہ ہندوستان کے معاملات میں پوری دلچسپی لیں گے۔

منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے انڈین ٹیلی گراف یونین کے قیام کا خاص اہتمام کیا گیا۔ اس کا مقصد ہندوستان کے اہم معاملات کے بارے میں انگلستان کے بڑے اخبارات کے لیے مواد فراہم کرنے کے لیے فنڈز کا انتظام کرنا تھا۔ انڈین کانگریس کا پہلا اجلاس 28 دسمبر 1885 کو ٹھیک دوپہر کے بارہ بجے بمبئی میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں کانگریس کے جو مبہم اغراض و مقاصد منظور ہوئے اور جن خیالات کا اظہار ہوتا رہا، ان کا خلاصہ کانگریس کے بانیوں کی طرف سے پیش کیے گئے سپاس نامے میں برملا اعتراف موجود ہے کہ وہ لارڈ رپن کے عہد حکومت کے شکرگزار ہیں کہ اس سے پہلے ہندوؤں میں قومی وحدت کا کوئی تصور تھا نہ کوئی جذبہ۔ اس سپاس نامے میں ان انگریزوں کی خدمات کا تفصیل سے ذکر کیا گیا تھا جنہوں نے کانگریس کی ترقی کے لیے اسباب اور مواقع فراہم کیے۔ ایک ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ کانگریس انگریزوں نے پیدا کی، اس کی پرورش کی اور عرصۂ دراز تک اس کی قیادت بھی وہی فراہم کرتے رہے۔

مسٹر ہیوم اسکیم کا منصوبہ بناتے اور انگریزوں میں کانگریس کے لیے حمایت حاصل کرنا، ان کا مستقل وظیفہ تھا۔ مسٹر ولیم ویڈر برن دو مرتبہ کانگریس کے سالانہ اجلاس کے صدر بنے جو برطانوی کانگریس کمیشن کے مہتم تھے۔ ان کے اخراجات کے لیے کانگریس دس ہزار سے پچاس ہزار سالانہ منظور کرتی تھی۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک معمول تھا کہ کانگریس کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کے لیے انگلستان سے اکثر انگریز آتے جو عموماً پارلیمنٹ کے ممبر ہوتے۔ ان میں سے مسٹر بریڈلو کا کانگریس نے ایسا زبردست استقبال کیا کہ کانگریس کے مؤرخ مسٹر سیتا رامیا نے اسے ”شاندار استقبال“ لکھا ہے۔

ہندو یہ چاپلوسیاں اس لیے کر رہے تھے کہ انگریز ہندوستان میں برطانوی طرز کی پارلیمانی حکومت قائم کر دیں، مرکز اور صوبوں کی کونسلوں کے باقاعدہ انتخابات ہوتے رہیں، بڑی ملازمتوں کے لیے مقابلے کے امتحانات جاری رہیں۔ بادی النظر میں یہ بڑی روشن خیالی کی باتیں تھیں، مگر ایسے ملک کے لیے جس میں دوسری اقوام کے علاوہ مسلمان بھی تھے جو انگریزوں کے تسلط سے پہلے ہندوستان کے حکمران تھے اور اپنی اس امتیازی حیثیت کو بھولنے کو ہرگز تیار نہیں تھے۔ ان کے لیے یہ ایک عظیم فتنہ تھا اور ایک ہولناک صورت حال کی تمہید تھی۔ اپنی سلطنت کے استحکام کے لیے انگریزوں کو اس کی ضرورت تھی۔ اس دام فریب سے محفوظ رکھنے کے لیے سرسید احمد خاں نے کیا کیا جتن کیے اور کیسے کیسے خطرات مول لیے، وہ آنکھیں کھول دینے والی ایک چشم کشا داستان ہے۔ (جاری ہے )

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments