اقبال کا تصور مردِ مومن (نطشے سے تقابل)


علامہ اقبال کے ہاں انسان کامل کے حوالے سے جابجا اشارے ملتے ہیں۔ اسلام نے انسانی کمال اور فضیلت کو تسلیم کیا۔ اور اس کی

ذات کو تخلیق اقدار کا سر چشمہ ٹھہرایا۔ چونکہ انسان کائنات ہستی کا بلند ترین نمونہ ہے اس لیے اسے زمین پر نیابت الٰہی کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اقبال کا مرد مومن کا تصور بھی اسی اسلامی تصور پر مبنی ہے۔

انسان خود ایک عالم ہے۔ اور ذات مطلق اور کائنات فطرت کے درمیان اتصالی کڑی کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان کے علاوہ اور کسی مخلوق میں یہ صفت موجود نہیں ہے۔ حضور نبی کریم نے انسان کامل کا اعلیٰ ترین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ نبی کریم کی سیرت پاک انسان کے لیے مشعل ہدایت ہے۔ جس کی روشنی میں چل کر وہ حیات کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہو جاتا ہے۔ انسان کامل اور مرد مومن کی زندگی جو آئین الٰہی کے مطابق ہوتی ہے تو اشیا کا راز اس پر منکشف ہو جاتا ہے۔ اس کی آنکھ خدا کی آنکھ اور اس کا کلام خدا کا کلام بن جاتا ہے۔

اس خیال کو اقبال نے ”بال جبرئیل“ میں یوں پیش کیا ہے :۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکشا، کارساز
خاکی و نوری نہاد بندۂ مولیٰ صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
اسی خیال کی مزید وضاحت یوں کرتے ہیں :۔
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

اقبال کا مرد مومن اپنی فطرت کے اعتبار سے رجائی اور جفاکش ہے۔ عاشق رسول ہے اور تسخیر فطرت کا قائل ہے۔ زندگی کی تمام فرسودہ قدروں کا انہدام اس کے لیے ضروری ہے تاکہ حیات نو کی تعمیر کی جا سکے۔ اسے اپنی ذات اور کائنات کا بھر پور احساس ہے۔ وہ پہلے اپنے آپ کو پہچانتا ہے پھر ساری دنیا سے متعارف ہوتا ہے۔ وہ صرف اپنے حقیقی آقا کے سامنے جھکتا ہے۔ وہ اپنی آرزوؤں کی آگ میں جلتا ہے اور باطل کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔ وہ خواہشات سے دور رہتا ہے اس لیے فقر کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔

اقبال کا مرد مومن ایک مرد بے نیاز ہے اس لیے زمین پرست یا زن پرست نہیں ہے۔ اپنی شان قلندری کی وجہ سے وہ غالب ہے۔ محکوم اور بے عمل نہیں ہے۔ اقبال کے انسان کامل کے تصور کو اکثر لوگوں نے غلط سمجھا اور اس کو نطشے کے فوق البشر کے مماثل قرار دیا۔ درحقیقت ان دونوں کے تصورات میں فرق ہے۔ اقبال کا انسان کامل اخلاق فاضلہ کا نمونہ ہے۔ جو اپنی زندگی میں اعلیٰ قدروں کی تخلیق کرتا ہے۔ اس کے برعکس نطشے کا فوق البشر کسی اخلاق کا قائل نہیں۔ اس کے خیال میں رزم حیات میں نیکی نہیں بلکہ قوت درکار ہے تاکہ کمزوری پر غلبہ حاصل کیا جا سکے۔ اقبال کا انسان کامل سخت کوشی اور مقاصد آفرینی سے اپنی خودی کو مکمل کرتا ہے۔ اور اس طرح عناصر فطرت پر قابو حاصل کرتا ہے۔

اس کے برعکس نطشے کا فوق فوق البشر اخلاقی خوبیوں کو کمزوری پر محمول کرتا ہے۔ اور خیر و شر کو محض اضافی حیثیت دیتا ہے۔ اس کے نزدیک قوی شخص نیکیوں کا اعلیٰ نمونہ پیش کر سکتا ہے۔ نطشے خدا کا منکر تھا اس کے نزدیک انسان کی غلامانہ ذہنیت اس وقت تک دور نہیں ہو سکتی جب تک کہ خدا کے تصور کو دلوں سے مٹا نہ دیا جائے۔

نطشے کے مذہب و اخلاق کے تصور کے خلاف اقبال کا انسان کامل ایمان و یقین کی زندگی کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ اسی ایمان کی بدولت وہ کامرانی حاصل کرتا ہے۔ اس کی جد و جہد اخلاقی اقدار کی پابند ہے۔ اقبال انسان کی جسمانی قوت کی بجائے اس کی اخلاقی قوت کو سراہتا ہے۔ اقبال کے انسان کامل کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ زندگی کے خواب پریشاں کی نئی تعبیر پیش کرتا ہے۔ پرانی اصطلاحوں کو نئے معنی پہناتا ہے اور حقائق کی نئی توجہ پیش کرتا ہے۔ وہ تاریخ کو اپنی منشا سے جدھر چاہتا ہے موڑ لیتا ہے۔ اپنی نظم ”قلندر کی پہچان“ میں اقبال نے انسان کامل کو مرد قلندر کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ جو زمانے کی باگ ڈور کو جدھر چاہتا ہے موڑ دیتا ہے :۔

کہتا ہے زمانے سے یہ درویش جواں مرد
جاتا ہے جدھر بندۂ حق تو بھی ادھر جا
ہنگامے ہیں میرے تری طاقت سے زیادہ
بچتا ہوا بہ نگاہ قلندر سے گزر جا
میں کشتی و ملاح کا محتاج نہ ہوں گا
چڑھتا ہوا دریا ہے اگر تو، تو اتر جا
(قلندر کی پہچان)

نطشے کو نیکی اور خدا ترسی سے کوئی واسطہ نہیں۔ کیونکہ اس کے نزدیک یہ سب تصورات غلامانہ ہیں۔ اسے کمزور انسانوں سے نفرت ہے۔ وہ فوق البشر کو خدائی کا بار سونپ دیتا ہے۔ لیکن اس کے فوق البشر کے سامنے حیات کا کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ وہ ملوکیت کا درس دیتا ہے۔ لہذا وہ زندگی کی صرف ایک ہی منزل طے کر پاتا ہے اور یہ کہ ”قدروں کو مٹا دو“ لیکن آئندہ کے لیے کوئی خاکہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ نطشے ایک عظیم انسان کا خواب ضرور دیکھتا ہے لیکن فرد کے ساتھ معاشرے کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اور فرد اور معاشرے کے رشتے پر بھی بہت ہی دھندلی روشنی ڈالتا ہے۔ اس کا قلب نفرت کی آماجگاہ ہے اور اس کا ذہن جنون سے بھرا ہوا ہے۔ اور یہ سب کچھ بے مقصد ہے۔

اس کے برعکس اقبال کا مرد مومن اسلامی تصور حیات سے وابستہ ہے۔ وہ روحانی اور اخلاقی اعتبار سے بہت بلند ہے۔ اور اللہ کا بندہ ہے۔ بقول اقبال:۔

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

اس ساری بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کا مرد مومن نطشے کے ”فوق البشر“ سے مختلف ہے۔ اور وہ صرف خدا کے سامنے جھکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments