دنیا کا آخری کنارا


اوسلو سے تین گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد ہم تقریباً بارہ بجے Tjome نامی گاؤں کے قریب واقع ساحل سمندر پر پہنچے جسے دنیا کا آخری کنارا قرار دیا گیا ہے۔ کار سے باہر نکلتے ہی یخ بستہ سمندری ہواؤں نے استقبال کیا۔ ایک کھلے میدان میں گاڑی پارک کر کے ہم ’پانچ نوجوان‘ ہنستے کھیلتے سمندر کی کھاڑی کے کنارے پہنچ گئے۔ ایک بورڈ پر اس مقام کی تاریخی اور جغرافیائی حیثیت درج تھی۔ سمندر کے کنارے پتھریلے پہاڑ کی چوٹی پر لائٹ ہاؤس ہے جو بحری جہازوں کی رہنمائی کی غرض سے بنایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ایک پنڈولم کے ساتھ لالٹین بندھی ہے۔ پنڈولم کا لالٹین والا سرا بلند ہوتا ہے تو لالٹین بلند ہوتی ہے۔ دوسرا سرا اونچا ہوتا ہے تو لالٹین نیچے چلی جاتی ہے یہ جہازوں سے پیغام رسانی کا قدیم طریقہ ہے۔

اس لائٹ ہاؤس کے علاوہ اس پورے ساحل پر صرف ایک کیفے ہے جو چوٹی پر بنا ہے۔ اس کے علاوہ بس پتھر اور پانی ہے۔ ہم پانی میں ابھرے قدرتی تراشیدہ گول پتھروں پر چلتے سمندر کے اندر دور تک چلتے گئے۔ ہمارے قدموں تلے کی پتھریلی چٹانیں سخت، دھلی دھلائی، قدیم اور دلکش ہیں۔ سمندر کا پانی ان سے ٹکرا کر جھاگ اڑاتا رہتا ہے مگر یہ صدیوں سے اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ یہ ایک عظیم سمندری کھاڑی ہے جس کا سرا بحیرہ بالٹک سے ملتا ہے۔

ہم پانچوں کے علاوہ وہاں دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ یہ ہمارے نجی ساحل ہیں۔ میں یہاں کے سکوت، خاموشی اور حسن سے سحر زدہ تھا۔ یہ انتہائی خوبصورت اور پرسکون جگہ تھی۔ دور تک پھیلا نیلا سمندر، ایک جانب سبزے کی چادر اوڑھے پہاڑی، تیسری جانب سرسبز و رنگین وادی، جہاں کافی فاصلے پر اکا دکا مکانات ہیں۔ یوں ایک مقام سے تین مختلف قسم کے دلکش و حسین نظارے تھے۔ ہم سمندر کے عین اندر بڑے بڑے پتھروں کے اوپر کھڑے تھے۔

سمندر کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ چشموں سے پھوٹنے والا نتھرا ہوا، صاف اور شفاف پانی ہے۔ حتیٰ کہ تہ میں بیٹھے سفید گول پتھر بھی نظر آتے تھے۔ ہلکی سمندری ہوا میں باد نسیم کی سی نکہت و تازگی محسوس ہوتی تھی۔ سنہری دھوپ میں نیلا پانی یوں فروزاں تھا جیسے ہیرے دمک رہے ہوں۔ پانی کا ایک ایک قطرہ شبنم کے موتیوں کی طرح نکھرا نکھرا اور آئینے کی طرح شفاف تھا۔ لگتا نہیں تھا کہ یہ سمندر ہے بلکہ ایسا رواں چشمہ ہے جس کے شفاف پانیوں کو چھو کر باد صبا تازگی حاصل کرتی ہے۔ باد بہاری ان میں خوشبوئیں عام کرتی ہے۔ چاند ان پانیوں کو حسرت سے دیکھتا ہے۔ سورج بھی انہیں جھک کر سلام کرتا ہے۔ چاندنی ان سے نور اور ٹھنڈک مستعار لیتی ہے۔ یہ سمندر کا پانی نہیں، آب حیات لگتا ہے۔ آنکھوں کی ٹھنڈک اور روح پرور محسوس ہوتا ہے۔

میں سمندر کے اندر صدیوں سے استادہ دھلے ہوئے قدرتی گول پتھروں پہ چلتا آخر تک چلا گیا۔ اس کے آگے دور تک نیلا، انتہائی نیلا، انتہائی شفاف پانی تھا۔ اس کی سطح اتنی پرسکون تھی جیسے کوئی جھیل ہو۔ یہاں کھڑے ہو کر دیر تک میں ان پانیوں کو آنکھوں اور دل میں اتارتا رہا۔ اس کی شفافیت، اس کی ٹھنڈک، اس کی روشنی، اس کی خوشبو، اس کے رنگ سے مشام جاں معطر کرتا رہا۔ ایسے لگتا تھا کہ یہ یخ بستگی، یہ خوشبو اور یہ رنگ میرے اندر منتقل ہو رہے ہیں۔ ان رنگوں، روشنیوں اور خوشبوؤں سے میرا دامن بھرتا جا رہا تھا۔ حتیٰ کہ میں خود کو اس رنگ و بو کا حصہ سمجھنے لگا۔

میرے ساتھی اردگرد پھیلے تصاویر اور ویڈیو بنانے میں منہمک تھے۔ میرے کانوں میں ان کی آوازیں آ رہی تھیں مگر کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیونکہ میں اس وقت شفاف نیلے پانیوں سے ہم کلام تھا۔ یہ محویت اتنی گہری تھی کہ ان سب کے بلانے کا بھی مجھ پر اثر نہیں ہوا۔ ایک ساتھی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا تو جیسے میں پانیوں کے سحر سے نکل آیا۔ ہم ان پتھروں کے درمیان بنے لوہے کے ایک سال خوردہ پل پر سے گزر کر دوسری جانب چلے گئے تو وہاں بھی ویسی ہی پتھریلی چٹانوں سے دنیا کے اس آخری کنارے کا شفاف سمندری پانی اٹکھیلیاں کر رہا تھا۔ پتھروں اور پل کے ستونوں سے لپٹتا، انہیں چومتا، باد بہاری میں جھومتا اور درخشانی آفتاب میں چمکتا پانی دعوت نظارہ دے رہا تھا۔

اس مقام پر فطرت اپنے تمام تر رنگ و جمال کے ساتھ جلوہ افروز تھی۔ ہمارے عقب میں پہاڑوں میں گھری سرسبز وادی، ایک جانب بلند پہاڑی، روشن مینار، شیشوں کی دیواروں والا کیفے اس اس حسین منظر کا حصہ تھے۔ میں نے چٹان پر بیٹھ کر اس موتیوں جیسے پانی کو چھوا تو شدید یخ بستگی کے باوجود اس کا رنگ و بو ہاتھوں پر محسوس ہوا۔ میں کافی دیر تک ان پانیوں کو اپنی ہتھیلی پر رکھ کر ان سے ہم کلام رہا۔ نکہت باد بہاری میں محو رقص سمندر کی لہروں سے مجھے ایک نغمہ، ایک لے اور ایک سر سا ابھرتا محسوس ہوتا تھا۔ ایک روشنی سی پھوٹتی اور آنکھوں سے ہوتی بدن کے انگ انگ میں سماتی محسوس ہوتی تھی۔ میں ایک مرتبہ پھر ان رنگوں، روشنیوں اور نغموں میں کھو گیا۔ ایک دفعہ پھر ایک دوست نے مجھے اس ٹرانس سے نکالا۔

یہ آج کی بات نہیں۔ پانی چاہے وہ سمندر کا ہویا دریا، چشمہ، آبشار، ندی یا جھیل کا، ہمیشہ سے مجھے ہانٹ کرتا ہے۔ پانی کے کنارے بیٹھ کر اکثر میں کھو سا جاتا ہوں۔ گھنٹوں اس پر نظر جما کر بیٹھا رہتا ہوں۔ ان سے باتیں کرتا ہوں اور ان کی باتیں سنتا ہوں۔ خوش قسمتی سے پہلے کراچی اور اب سڈنی میں سمندر کی رفاقت حاصل ہے۔ جتنا عرصہ میں کراچی میں رہا سمندر سے روز کا سامنا رہا۔ سڈنی تو ہے ہی خوبصورت ساحلوں والا شہر۔ سمندر کے علاوہ شہر کے اندر سے دریا بھی گزرتے ہیں۔ یوں پانیوں سے میرا تعلق قائم رہتا ہے۔

تاہم ناروے کے اس دور افتادہ ساحل کے شفاف پانیوں نے جیسے مجھے جکڑ سا لیا تھا۔ اپنے سحر میں گرفتار کر لیا تھا۔ میں ان سے نظریں نہیں ہٹا سکتا تھا۔ ادھر سمندر کنارے خنکی بہت زیادہ تھی جو رفتہ رفتہ جسم و جاں پر اثر انداز ہونے لگی۔ مرزا ذوالفقار صاحب بتا رہے تھے۔ جب موسم قدرے گرم ہوتا ہے تو یہاں لوگ تیراکی کے لیے بھی آتے ہیں۔ مگر آج تیراکی تو درکنار اسے دیکھنے والا بھی ہمارے علاوہ کوئی نہیں تھا کیونکہ خنکی بہت زیادہ تھی اور پانی میں برف گھلی محسوس ہوتی تھی۔

اس میں نہانے کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بلکہ تمازت آفتاب کے باوجود اس زمستانی ہوا میں رکنا دوبھر تھا۔ نظارے ہمیں روکتے تھے اور موسم اس کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ اس دوران ہم نے بہت سی تصاویر اور ویڈیوز بنائیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی کیمرہ اور کوئی قلم ان مناظر، ان محسوسات اور تاثرات کو نہ دکھا سکتا ہے اور نہ قلمبند کر سکتا

ہے جو انسان دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے۔ یوں بھی محسوسات کی ایک الگ دنیا ہے اور اس کا احاطہ ناممکن ہے۔

؂ دل دریاؤں سمندروں ڈونگے، کون دلاں دیاں جانیں ہو (سلطان باہوؒ)

ہم سمندر کے نظاروں میں ایسے گم ہوئے کہ وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ خواہش کے باوجود پہاڑی کی چوٹی پر بنے کیفے میں بیٹھ کر کافی سے لطف اندوز ہونے کا وقت نہیں تھا۔ لہٰذا تھوڑی دیر میں ہماری کار واپسی کے سفر پر گامزن تھی۔ میں جو آسٹریلیا جیسے دنیا کے ایک کنارے سے چلا تھا اس کے دوسرے سرے کو دیکھ کر اطمینان و مسرت محسوس کر رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments