وزیراعظم شہباز کا دورہ سکھر: 15 ارب کی گرانٹ متاثرین کو مل سکے گی؟


ملک میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث اس وقت ہم مشکلات، قدرتی آفات سیلاب اور شدید بارشوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ سندھ سمیت ملک بھر کچھ عرصہ قبل شدید گرمی تھی۔ گرمی ٹمپریچر 52 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا جا تا رہا اور خشک سالی اتنی کہ پانی کا شدید بحران ہو گیا۔ صرف دو ماہ قبل سکھر بیراج میں ایک لاکھ کیوسکس تک پانی نہی تھا۔ جبکہ پانی کی قلت کی وجہ سے فصلیں تباہ ہو کر رہ گئی اور چاول کی کاشت کی ہو سکی۔ جبکہ دوسری جانب دو ماہ کے دوران ہی شدید بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اب تک سندھ سمیت کے پی کے اور بلوچستان پنجاب میں شدید بارشوں سے زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔

جہاں پانی کی قلت تھی اب وہی پر سیلاب آ گیا ہے۔ بدقسمتی سے صرف صوبہ سندھ میں 25 لاکھ سے زائد ایکڑ زمینوں پر جنگلات، درخت، کاٹے گئے۔ کئی نالوں، شاخوں اور شہروں سے درختوں کا صفایا کیا گیا۔ سمندر میں تمر کے درخت کاٹے گئے جس کی وجہ سے آلودگی نے جنم لیا ہے۔ شہروں میں صفائی نہ ہونے کی وجہ سے بدبو گندگی نے جگہ لے لی ہے۔ شہروں فیکٹریوں کا زہریلا پانی دریاؤں سمندر میں چھوڑنے کی وجہ سے مزید آلودگی بڑھ گئی ہے۔

ہم سندھ پاکستانی عوام ماحولیات دشمن ہیں۔ اس وقت سکھر بیراج، گڈو بیراج اور تونسہ کوٹڑی بیراج پر فلڈ والی صورتحال ہے۔ سوات ڈی آئی خان۔ ٹانک، ڈی جی خان، کوہ سلیمان، راجن پور میں بھی سیلابی صورتحال ہے۔ سندھ میں برسات کا سلسلہ کم ہونا شروع ہو گیا تو وزیراعظم شہباز شریف کابینہ کے ہمراہ سندھ کے دورے پر سکھر پہنچ گئے۔

وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف سندھ میں حالیہ بارشوں سے ہونے والی تباہیوں کے دورہ قطر مکمل کرنے کے بعد سکھر پہنچ گئے۔ شہباز شریف کا سکھر ائرپورٹ پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، سید خورشید شاہ، وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ، جے یو آئی رہنما راشد محمود سومرو نے ان کا استقبال کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ کے کچھ وزرا اور رہنماؤں کے ساتھ سکھر بیراج کا دورہ کیا اور سیلاب کی صورتحال کا جائزہ لیا اور متاثرین کی کی ایک کیمپ میں گئے جہاں پر ان سے ملاقات کی اور ہونے والی تباہی پر ہمدردی کا اظہار کیا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے اس موقع پر سندھ کے لئے الگ سے 15 ارب روپے کی گرانٹ کا اعلان کیا اور بسپ پروگرام کے تحت 28 ارب روپے متاثرین کو 25 پچیس ہزار روپے دینے کا اعلان بھی کیا۔ فوت ہونے والے متاثرین میں 10 دس لاکھ روپے امداد دینے کا بہی اعلان کیا گیا۔ بارش متاثرین کو 50 لاکھ سے مچھر دانیاں فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیر اعظم وزیراعظم شہباز شریف نے بجٹ کا اعلان کرتے وقت کہا کہ بلاول بھٹو زرداری اور سندھ سرکار پر ہے کہ وہ متاثرین کی مدد کریں گے اور دین و دنیا بھی کمائیں گے۔

وزیراعظم کو جے یو آئی سندھ کے سیکرٹری جنرل مولانا راشد محمود سومرو  نے سکھر ائرپورٹ پر ملاقات کرتے ہوئے سندھ میں متاثرین کی بحالی اور ریلیف میں مشکلات اور شکایات سے آگاہ کیا۔ راشد محمود سومرو نے وزیراعظم شہباز شریف سے سندھ میں امداد کی تقسیم پر تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا۔ کہا کہ شہباز شریف کو کہا کہ سندھ حکومت/ پیپلز پارٹی اجتماعی اور انتظامی بنیادوں کے بجائے سیاسی بنیادوں پر سامان تقسیم کر رہی ہے، سیاسی لوگ اپنے لوگوں کو سامان دے رہے ہیں، ڈپٹی کمشنرز بھی لاپرواہی کر رہے ہیں، اس موقع پر گفتگو کے دوران وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، سید مراد علی شاہ ایک دوسرے کے چہرے کی طرف دیکھتے رہ گئے، پی پی قیادت کی جانب سے وزیر اعظم کو شفاف طریقے سے رلیف کا کام کرنے کے متعلق صفائی پیش کی گئی، شکایت ملنے پر وزیراعظم نے اجتماعی طور پر رلیف کام کرنے کے لئے صوبائی سطح پر کمیٹی تشکیل دے دی۔

اور کہا کہ رلیف کا کام اب سیاسی بنیادوں پر نہیں ڈپٹی کمشنرز کی نگرانی میں کیا جائے گا، وزیر اعظم شہباز شریف خود مانیٹرنگ کریں گے، اور غیر ذمہ داری میں ملوث ڈی سیز کے خلاف کمیٹی کی سفارش پر کارروائی کی جائے گی ذرائع کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے پریس کانفرنس کے دوران 15 ارب روپے کی گرانٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب بلاول بھٹو زرداری کے کاندھوں پر ہے، سندھ حکومت پر ہے کہ وہ احسن طریقے سے متاثرین تک امداد پہنچائیں گے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے سکھر بیراج کا دورہ کیا اور سکھر، روہڑی، خیرپور، فیض گنج، کوٹ ڈیجی اور ٹھری میرواہ کا فضائی جائزہ لیا۔ وزیراعظم نے سکھر بیراج پر متاثرین میں امدادی چیک تقسیم کیے اور ہیلی کاپٹر سے کچھ سامان بھی متاثرین کو دیا۔ وزیراعظم نے 15 ارب روپے کی گرانٹ کا اعلان تو کر لیا لیکن سوال یہ بنتا ہے کہ متاثرین تک یہ امداد پہنچے گی کیسے؟ سندھ میں اتنی کرپشن بدعنوانی ہے کہ قدرتی آفات، سیلاب اور شدید بارشوں کے باوجود کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی ہے۔

کوئی کمیشن سے اپنا حصہ نہیں چھوڑتا اور کوئی مال ہڑپ کرنے سے توبہ نہی کرتا۔ اس وقت بھی سندھ میں سکھر سمیت تمام اضلاع میں گوداموں اور سیاسی بنگلوں پر سامان پڑا ہے۔ این ڈی ایم اے کا سامان ہول سیل میں فروخت ہو رہا ہے۔ وہ ڈپٹی کمشنر جس کے شہر میں 40 روپے کلو والی پلاسٹک 800 روپے فروخت ہو رہی ہے وہ اس کاروبار کو روکنے میں ناکام رہا ہے آگے اس سے کیا امید کی جا سکتی ہے۔ متاثرین کو جان بوجھ کر ڈبویا گیا تا کہ عالمی اداروں اور دنیا سے امداد اور بھیگ مانگی جا سکے!

وزیراعظم، بلاول بھٹو زرداری، نے عالمی دنیا سے اپیل کی ہے کہ ہماری مدد کی جائے ہمیں تنہا کچھ نہیں کر سکتے۔ اتنے سال اقتدار میں رہنے کے باوجود ہم میں بارشوں اور سیلاب سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رہی ہے۔ ہم اتنے بے بس ہو چکے ہیں کہ عوام کو مشکل وقت میں ریسکیو کر سکیں۔ سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ میں دو الگ الگ درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سندھ میں لاکھوں افراد کی زندگی خطرے میں ہے لیکن کوئی ریلیف اور ریسکیو کا کام نہی ہو رہا ہے۔

عدالت نے سندھ سرکار سے جواب طلب کر لیا ہے۔ حقیقت کو دیکھا جائے تو محکمہ آبپاشی سندھ حکومت دریائے سندھ کے کناروں کو پشت پر مضبوطی کا کام کرنے کے بجائے ساری بجٹ کرپشن کر جاتے ہیں۔ مسلسل بارشوں کے باعث بندوں کی پشت کمزور ہو گئے ہیں۔ اگر شمالی علاقہ جات میں بارشوں کا سلسلہ جاری رہا اور سندھ میں بارشوں سے ایک مرتبہ دریا ٹوٹنے کا خطرہ ہے اور سندھ ڈوبنے کا امکان ہے۔ سوات میں سیلاب کی وجہ سے تباہ کاریاں ہوئی ہے۔ بحرین میں گھر اور ہوٹل گر گئے ہیں۔ اس وقت بیراجز کنٹرول روم کے مطابق تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد مزید بڑھ گئی۔ تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد چار لاکھ کیوسک تک پہنچ گئی۔ تربیلا ڈیم بھر جانے سے چار لاکھ کیوسک پانی دریائے سندھ میں چھوڑا گیا۔

دریائے کابل میں بھی بڑا سیلاب ہے، بہاؤ بڑھ کر 1 لاکھ 62 ہزار کیوسک ہو گیا، بہاؤ مزید بڑھ جائے گا۔ تربیلا ڈیم سے پانی چھوڑنے کے باعث آئندہ 48 گھنٹوں میں دریائے سندھ میں کالا باغ بیراج سے چشمہ بیراج تک پانی کے بڑے سے بہت بڑے بہاؤ کا امکان ہے۔ کے پی کے حکومت نے دریائے سوات میں خوازہ خیلہ کے مقام پر پانی کی سطح 2 لاکھ 27 ہزار کیوسک تک پہنچنے کے بعد علاقے کے لوگوں کو انخلاء کا الرٹ جاری کر دیا ہے۔ دوسری جانب تحریر لکھتے وقت سکھر بیراج، گڈو بیراج، کوٹڑی بیراج پر شدید دباؤ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments