کوہ سلیمان، سیلابی اژدہے، سندھ اور بلوچستان


پانی عذاب ہے کہ ثواب، فی الحال یہ سیلاب ہے۔ اتنا بڑا سیلاب جو کسی دو صد سالہ عورت نے بھی اپنی آنکھوں سے نہ کبھی دیکھا ہو گا اور نہ کانوں سے سنا ہو گا۔ محتاط سرکاری اعداد و شمار سلسلہ کوہ سلیمان، سرائیکی وسیب اور سندھ میں ہونے والی بارشوں کو اوسط سالانہ آب رسانی کے مقابلے میں کوئی 600 گنا زیادہ بتا رہے ہیں، غرقابی اچھالوں سے تینوں صوبوں میں اب تک تقریباً 10 لاکھ لوگ براہ راست یا بالراست متاثرہ ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق کوئی 937 معصوم لوگ لقمۂ جل بن چکے ہیں، سینکڑوں دیہات بشمول 67000 گھروں کے تہہ و بالا ہو چکے ہیں۔

8 لاکھ کے قریب چھوٹے بڑے مال مویشی پانی کی موت مر چکے ہی۔ لاکھوں ایکڑ فصلاتی زمین تہہ آب منجمد ہو چکی ہے۔ فی الحال اموات اور نقص املاک زیادہ تر بلوچستان اور سرائیکی دمانی ضلعوں میں ہی واقع ہوا ہے۔ پچھلے ہفتے صادق آباد میں ایک ہی کشتی الٹنے سے پچاس سے زیادہ افراد (زیادہ تر عورتیں اور بچے ) دریا برد ہو گئے۔ دریائے سوات میں پانچ دوست تین گھنٹے تک آبی ریلوں کے بیچوں بیچ کھڑے رہے مگر کوئی ہیلی ان کو بچانے کو نہ پہنچا۔

تازہ ترین صورت حال مطابق دریائے سوات، دریائے کنہار اور دریائے کابل طغیانی کی زد میں ہیں جبکہ دریائے چناب اور سندھ سے پانی کی غیر معمولی مقدار گزر رہی ہے۔ افراتفری کے اس عالم میں فی الوقت نقصانات کا درست ترین اندازہ لگانا کافی مشکل ہے۔ لیکن متفرق رپورٹوں، تصاویر اور ویڈیو کلپس سے بربادی کا سکیل دل دہلا دینے والا دکھائی دیتا ہے۔ ریسکیو اور ریلیف کا کام کافی تاخیر کے بعد گزشتہ دو چار دنوں میں ہی شروع ہوا ہے۔

گزشتہ سے پیوستہ روز تونسہ بیراج سے کم بیش 5 لاکھ 57 ہزار، گڈو سے 3 لاکھ 45 ہزار 70، سکھر بیراج سے 3 لاکھ 44 ہزار کیوسک اور کوٹری سے 19 لاکھ 8 ہزار 8 سو کیوسک اور بعض صورتوں میں میں اس سے بھی ذیادہ پانی گزراء، جس نے گزشتہ برسوں کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ ڈیرہ اسمعیل خان سے رحیم یار خان کے درمیان اس وقت، درابن، وھووا، منگروٹھہ، مانکا، تونسہ شریف، وڈور، اور خان گڑھ سے لے کر فاضل پور، راجن پور، روجھان اور شمالی سندھ یعنی کشمور تک پچادھ، سندھ کے شمال مشرقی اور کوہ سلیمان کے دامان میں آباد تمام کے تمام دیہی اور جزوی یا کلی طور پر شہری علاقے، پانی برساتے آسمان، دریا انڈیلتے بادلوں اور کوہستان سلیمان کے پھینکے اور پھیلائے ہوئے جل، چھل اور اجل کے عتاب میں گرفتار ہیں۔

زیادہ تر علاقوں سے بجلی غائب ہے، لاؤڈ سپیکر خاموش ہیں اور موبائل فون مردہ ہو چکے ہیں۔ اگلے دو تین روز میں مشرقی بلوچستان، جنوب مغربی سرائیکی ریجن اور شمالی سندھ میں ابھی شاید مزید بارشوں اور نتیجتہ ”مزید آفات کا خطرہ ہے۔ تین چار ہفتوں سے یہ سلسلہ جاری ہونے کے باوجود این ڈی ایم اے، میونسپلٹی، پبلک ہیلتھ، اور محکمہ آبپاشی و آب رسانی کی طرف سے خاطر خواہ تیاری نہیں کی گئی اور تازہ ترین صورت حال بے یقینی کے گرداب میں پھنس چکی ہے۔ اور اب یہ صورت حال ہے کہ بلائے سیلاب اداروں کی صلاحیت، مہارت اور وسائل سے بڑھ گئی ہے اور جو کچھ اب، مگر بہت تاخیر کے بعد ، کیا جا رہا ہے وہ بہت تھوڑا اور بہت ناکافی ہے۔

زیادہ عرصے کی بات نہیں ہے کہ رود کوہی کے پانیوں سے نامیاتی اور غذا بخش فصلیں، سبزیاں، کماد، کپاس، چاول اور دالوں کی فصلیں وافر مقدار میں اگا کھلا کرتی تھیں۔ کیونکہ رود کوہی کا پانی معدنی اجزاء اور قدرتی ذرخیزی سے مالا مال ہوتا ہے۔ سبزیوں اور اجناس کے علاوہ یہاں کھمبی کی ایک قسم وائٹ ٹرفل، جسے مقامی زبان میں بھوئیں ڈٹا کہتے ہیں، بھی عام اگا کرتی تھی۔ آج بھی یورپی دنیا میں یہ مہنگے داموں فروخت ہوتی ہے۔

لیکن اب اسی رود کوہی کی شرشراتی آوازیں جو کبھی کسانوں کی مسرت اور خوش امیدی کا باعث ہوا کرتی تھیں اب گڑگڑاہٹ، خوف و ہراس اور ”بچو بھاگو“ کا استعارہ بن چکی ہے۔ بشمول دوسری وجوہات کے اس کے فطری اور آبائی راستے مسدود کرنا بھی ایک بڑا سبب ہے۔ ”پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے“ کے مصداق پھر لہریں گھروں، مکانوں، فصلوں اور باغات پر نہیں چڑھ دوڑیں گی تو اور کہاں جائیں گی؟

دیکھا جائے تو کئی حوالوں سے مہا سیلاب زلزلے سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو رہا ہے، کیونکہ جب زلزلہ عرضی گہرائیوں میں پلیٹیں سرکاتا ہے تو چند ثانیوں کے چند جھٹکوں اور شورو غوغا کے بعد ایک نوع کی خاموشی چھا جاتی ہے۔ یقیناً یہ عالم ہولناک ہوتا ہے۔ مگر جتنا جانی اور مالی نقصان ہونا ہوتا ہے وہ ایک کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ اور پھر چھوٹے بڑے آفٹر شاکس کے علاوہ مزید نقصانات یا ہلاکتوں کا خوف بہت کم ہوتا ہے اور فوری طور پر امداد اور بحالی کا کام شروع ہو جاتا ہے۔

مگر سیلاب کئی دن تو کیا کئی ہفتوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ اور پھر منظر یوں ہوتا ہے کہ رہنے کو در و دیوار نہیں، سونے کو چارپائی نہیں، روزگار کاروبار کے لئے زمین اور منڈی بازار نہیں، پینے کا پانی ندارد، مال مویشی ہلاک، دودھ ناپید، کھانا بنانے کو ایندھن نہیں، خوراک نہیں، گاڑیاں کیچر بوس۔ چلنے، سفر کرنے کو پاؤں دھرنے کی جگہ نہیں۔ اور تو اور اپنے مرحوم عزیزو اقارب کو دفنانے کے لئے دو گز خشک زمین تک میسر نہیں۔

اور بیشتر انفراء سٹرکچر عملداری، خدمات گزاری سے معذور ہو جاتا ہے ”گویا: نے بھاگنے کی گوں، نہ اقامت کئی تاب ہے“ ۔ اور پھر جلد ہی حیوانات کی ہلاکت، فصلوں، سبزیوں اور پھلوں کے گلنے سڑنے سے سڑاند اور فضلہ زدہ پانی میں آدمیوں کی سانس اور حلق تک جا پہنچتے، ملیریا، اسہال، خارش اور دوسری وبائی بیماریاں اپنے زہریلے دست و بازو پھیلاتی چلی جاتی ہیں۔ یعنی سیلاب کی اثر ناکیاں اور تباہ زدگیاں کئی مہینوں بلکہ سالوں تک بھی جاری رہ سکتی ہیں اور بحالی کا کام پیچیدہ اور کئی پہلوی۔

ابھی دو روز قبل ہی چاروں صوبوں کے متاثرہ ضلعوں کو آفت زدہ قرار دے کر ہنگامی امداد شروع کی گئی ہے مگر پانی کے مارے ہوئے لوگوں اور مقامات تک پہنچنے میں بہت وقت اور دقت پیش آ رہی ہے۔ متاثرہ افراد اور علاقوں تک تیزی تک پہنچنے کے لئے نام نہاد جنوبی پنجاب سیکرٹیریٹ کے پاس نہ وسائل ہیں اور نہ ہی اختیارات۔ جبکہ وہاں راشن، پینے کا پانی، ادویات اور ریلیف کیمپ وغیرہ کی انتہائی اور فوری ضرورت ہے۔ زیادہ تر سیاستدان اپنے بنگلوں میں دبکے بیٹھے ہیں یا ریاستی غلام گردشوں کے چکر لگا رہے ہیں۔

اور جو مدد کو نکلے ہیں ان کو بمشکل دوچار روز ہی ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے حواس سے شہباز گل کی مٹی ہی نہیں اتر رہی کہ وہ اپنے دو صوبوں کو متحرک کرے۔ متبادل کے طور پر مقامی افراد، سماجی اور فلاحی تنظیمیں اور کچھ مخیر حضرات ممکنہ دوڑ دھوپ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک، یورپی یونین نے جو 50 کروڑ منظور اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے زرتلافی اور تعمیر نو کے جو اعلانات کیے ہیں ان کو جلد از جلد عملی جامہ پہنایا جائے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ سیاست دانوں میں رسہ کشی اب بھی جاری ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ وفاقی اور صوبائی پی ڈی ایم اے کے پاس درکار تعداد میں کشتیاں، خیمے، ادویات اور غذا کا سٹاک ہونا دکھائی نہیں دیتا۔ اعلان شدہ سرکاری امداد اگر مل بھی جائے تو یہ سابقہ چند دہائیوں سے سیاست کاروں کے ووٹ آور علا قائی نمبر داری کا آلہ کار بن چکی ہے۔ حالانکہ یہ پیسے بھی (بیرونی امداد کو چھوڑ کر ) متاثرہ لوگوں کے ٹیکسوں سے ادا کیا جاتا ہے۔

حد یہ ہے موجودہ وزیر اعلی کے خلاف جب غفلت شعاری کے کارن ڈیرہ غازیخان میں لوگوں نے احتجاج کیا تو ان کے خلاف مقدمات درج کرا دیے گئے۔ وہاں تو جا دھمکے مگر صوبائی اسمبلی میں موصوف کو ڈوبتے تیرتے سرائیکی وسیب پر بات کرنے کی پیاس محسوس نہ ہوئی۔ جبکہ سابق وزیر اعلیٰ تصاویر کشی کے لئے یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں آ جا رہے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ اقتدار کی چاپلوس ہوس سے تل وطنی، جاگیردار سیاستدانوں کی آنکھوں کا پانی عرصہ ہوا مر چکا ہے۔ ضلعی انتظامیہ مشینری، ریسکیو ٹیکنالوجی عملہ اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بے بس نظر آتی ہے۔

ہولناک سیلاب زدگیوں کو دیکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سلیمانی کوہ و دمن سے بہنے والی وہی رودکوہیاں جو محض تین دہائیاں پہلے خوشحالی کی نوید ہوا کرتی تھیں یکایک سونامی اوصاف طوفان نوح کا باعث کیسے بن گئیں؟ وہی حیات بخش دریا، ندی نالے اور ٹوبے ٹیلے جو کھیتوں کے لئے چاندی سونا تھے۔ منہ کھولے اپنے ہی ارباب کشت و کاشت کو ہڑپ کرنے کے درپئے کیوں ہو گئے؟ یہ سب اگر اپنی منصوبہ سازیوں یا کج فہمیوں پر نظر ثانی کا اشارہ نہیں کرتے تو کوئی نسطورداموس یا جمشید و نوشیروان آ کر ہمیں نہیں سمجھائے گا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔

نتیجتاً ہم ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور کثیر قومی کمپنیوں کی ڈالرائی آنکھوں سے ہی اپنے دریاؤں، ندی نہروں، بند بیراجوں ہیڈ ورکس اور کوہستانوں کو دیکھتے اور استعمال کرتے رہیں گے اور پھر کسی غیر معمولی صورت حال میں ایک بار پھر، خدانخواستہ، انہی پانیوں میں چھپاکے مار رہے ہوں گے جن میں آج مار رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ کچھی کینال، چشمہ رائٹ بینک کینال، انڈس ہائی وے، سیمنٹ فیکٹریاں، ذاتی اثاثے، رود کوہی کو راہ دیے بغیر سڑکیں، ریلوے لائنیں، کرش مشینیں، ڈمپر، پہاڑ خوردگی، زمین بردگی، بے ہنگم آباد کاری، دریا کنارے یا عین اوپر بے وضع غیر قانونی ہوٹلوں کی تعمیر، غیر دانشمندانہ ترقیاتی سکیمیں، آباد کاری اور سب سے بڑھ کر رود کوہی کے قدرتی نظام کو شعوری یا لاشعوری طور پر سمجھے بغیر نہریں نکالنا ایسی سابقہ، موجودہ اور آئندہ آنے والی برساتی بربادیوں کا پیش خیمہ بنتے رہیں گے۔

پانی کے راستے، موگے، کھالے، نالے اور نکاسیاں بند کرنے سے اگر پھیلتے اور سکڑتے ہوئے رود کوہی کے دریا بپھریں اور گرجیں گے نہیں تو اور کیا کریں گے۔ زمینی حقائق سے بالا تر، لوکائی تجربے سے ماوراء اور فطری بہاؤ مخالف ندیاں بنانا اور دستاویزی کارروائیاں کرنا جو کہ زمین پر آ کر فقط کارروائی ہی ثابت ہوتی ہیں۔ سندھ اور سرائیکی وسیب میں انفراء سٹرکچر غیر دور ازکارانہ اور کمزور ہے، بہت پانی پلوں کے نیچے سے اور اب اوپر سے بھی بہی چکا ہے، اب بھی وقت ہے کہ ریاستی ادارے اپنا ترقیاتی ذہن اور زاویہ درست سمت میں رکھیں۔ ناممکن العمل نہریں یا ہاتھیوں کی مانند چنگھاڑتے ہوئے پانیوں کو مٹی پتھر سے باندھنے کی بجائے سلیمانی اور رخشانی دریاؤں کے لئے راستے ہموار کریں اور منصفانہ طریقے سے پانی تقسیم کریں تاکہ لوگوں کے لئے وہ زحمت کی بجائے رحمت کی موج اور پیداواری نوید بن سکیں۔ جیسا کہ ماضی میں تھا۔

مثال کے طور پر سنگھڑ، وھووا، وڈور اور مٹھاون جیسی تاریخی اور طوفانی رودکوہیوں کے کیچمنٹ ایریاز کی پرواہ کیے بغیر چشمہ کینال یا فیکٹریاں، بلڈنگیں اور مکانات بنا کر واٹر ویز کو روکنا یا کسی ایک ڈرین میں لا ڈالنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ دو دہائیاں قبل جب چشمہ رائٹ بینک کینال بنائی گئی تو اس کی منصوبہ سازی اور پیش بینی دونوں میں ٹیکنیکل مسائل تھے۔ رود ک ہیوں کے لئے جو کراس ویز، سپر پاس اور انڈر پاس بنائے گئے وہ یا تو بہت تنگ تھے، یا بہت اونچے یا پھر ایسے مقامات پر جہاں رود کوہی عرصہ ہوا اپنا راستہ بدل گئی تھی۔

پھر یہی غلطی یا دانستاً انجمن باہمی افادہ گیری یعنی واپڈا بیوروکریسی اور حکومت پنجاب نے کچھی کینال میں دہرایا۔ چشمہ رائٹ بینک کینال تو کسی حد تک تونسہ سے بالائی شمالی علاقہ جات کی زراعت اور مال مویشی کے لئے سود مند تھی مگر کچھی کینال کے ہیڈ ورکس اپنے آغاز اور افتتاح سے پہلے ہی مٹی کے تودوں سے بھر چکے ہیں۔ تونسہ بیراج سے شروع ہو کر 500 کلو میٹر کی طویل مسافت کے بعد یہ نہر کس طرح بلوچستان کو فائدہ پہنچا سکتی ہے؟

ہیڈ ورکس اور دامن میں بندش کی حد تک سلٹیشن عام فہم بات تھی مگر متعلقہ انجینئرز کو یہ بات کیوں سمجھ نہ آئی ”بلکہ شاید آئی ہی تو تھی کیونکہ مقصد عوامی افادہ نہیں بلکہ! ۔ 30 ارب کی خطیر رقم سے شروع ہونے والا یہ منصوبہ 100 ارب روپے کے تخمینے تک پہنچ چکا ہے پھر بھی اس میں صرف 400۔ 500 کیوسک سے زیادہ پانی گزرنے کے امکانات نہیں ہیں۔ اور اس چلو بھر پانی سے کتنے ہزار ایکڑ زمیں سیراب ہو گی، یہ بذات خود ایک سوال ہے؟ لیکن فی الحال درج بالا دونوں منصوبوں نے بارشوں اور رود کوہیوں سے ساز باز کر کے تمام دمانی شہروں کو کھڑے اور بہتے پانی میں ڈبو دیا ہے۔

مراد یہ ہے کہ تونسہ شریف سے لے کر روجھاں تک گویا 300۔ 350 کلو میٹر کی ایک سے زیادہ دیواریں (جنہیں بند، نہروں، صنعتوں اور سڑکوں کا نام دیا جا تا ہے ) کوہ سلیمان اور رود کوہی کے راستے میں کھڑی کر دی گئی ہیں اور وہ بھی متوقع برسات کی نکاسی کا نظام بنائے بغیر۔ مٹی کی دیواریں چاہے جتنی بھی اونچی اور مضبوط ہوں پانی کے منہ زور بھوت اسے پلک جھپکتے میں زمین پر پٹخ سکتے ہیں اور مقامی خدشات کے مطابق پچھلے ہفتوں میں ایسا ہی ہوا ہے۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ رود کوہی منوں ٹنوں مٹی اور پتھروں کے بہاؤ، لگاؤ اور کٹاؤ کی وجہ سے اپنا راستہ ہر آنے والے سیلاب میں بناتی بدلتی رہتی ہے اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ درج بالا میکانزم کو سمجھے بغیر کینال بندی کو اگر نادان انجنیئرنگ نہ کہا جائے تو اور کون سا نام دیا جائے۔ جبیں بوس پانی اگر نہروں، سڑکوں، عمارتوں، پٹڑیوں، بندوں اور پشتوں کو پھلانگ کر بھی دریا سے بغل گیر نہ ہو سکے۔ جو اس کا آبائی راستہ ہے تو وہ بستیوں قصبوں میں جل تھل ایک نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا؟ درج ذیل اسباب کو آفاقی کم اور ماہرین ساختہ تباہی زیادہ قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔

ٹاؤن پلاننگ اور کنسٹرکشن کی ریگولیشن نام کو نہیں ہے۔ جہاں دل چاہے، جس راہ اور جس سطح پر دل چاہے ایک انگریزی نام سوچ کر ماڈل کالونی بنا ڈالئے۔ آخر قدرتی بہاؤ موافق چھوٹے آبی ذخیرے کیوں نہیں بنائے جاتے جن کا بندوبست اور صفائی دونوں آسان ہیں اور اگر کوئی سوال اٹھائے تو وہ ترقی دشمن قرار دیا جاتا ہے؟ لازمی ہے کہ ایسا کوئی منصوبہ تشکیل دیتے سمے کوہ سلیمان کے قدموں اور دمان کی وادیوں کا فاصلہ مد نظر رکھا جانا چاہیے کیونکہ رود کوہیوں کی قوت اور رفتار سامنے بیس تیس میل کا فاصلہ چند ساعتوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

دراصل کم علمی کا کم اور ریاستی بیوروکریسی، کمشن مافیاء اور کرپشن کے منافع بخش کک بیکس فراہم کرنے والے پراجیکٹس کا عمل دخل زیادہ ہے۔ اور یہ جو دو بارا رود کوہیوں پر ڈیم ویم کی باتیں ہو رہی ہیں یہ ایک بار پھر اسی میگا انجنیؑرنگ کا ماڈل ہے جس کی اتھل پتھل ہم پہلے ہی دیکھ رہے ہیں۔ ایسا ڈیم رود کوہی کی مٹیوں اور ہزاروں من سنگریز دھاروں کی مار ہے اور پھر تباہ کاریاں پہلے سے بھی کئی چند۔ اگر خلوص نیت ہے تو پانی کی پسپائی کے بعد پہلا کام رود کوہیوں کے اسلافی راستوں کی بحالی اور تعمیر ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو کچھ ہی سالوں بعد کوئی اور دل بادل ایک بار پھر پانی کے گرز لے کر معصوم لوگوں پر آن حملہ آور ہو گا۔

بلا شبہ کچھ اسباب موسمی تغیرات کے بھی ہیں۔ پاکستان کا ماحولیاتی تبدیلی میں حصہ 0، 7 فیصد بھی نہیں ہے لیکن اندازوں مطابق آب و ہوا کے تغیر سے زیادہ متا اثر ہونے والے ملکوں میں پاکسان بھی شامل ہے۔ مثال کے طور پر 1976 میں سنگھڑ رود کوہی میں 125، 000 کیوسک پانی بڑا سیلاب تصور کیا گیا تھا جبکہ گزشتہ ہفتے لگ بھگ 150، 000 کیوسک پانی سنگھڑ سے گزرا۔ اسی طرح وھووا رود کوہی میں 1977 میں 90، 000 کیوسک پانی کا ریلا بڑا سیلاب سمجھا گیا تھا جبکہ حال ہی میں 260، 000 کیوسک کا ریلا گزر چکا ہے۔

روایتی طور پر ماہرین موسمیات سپر فلڈز کا اوسط دورانیہ چالیس سے پچاس سال تک رکھتے ہیں۔ تازہ ریکارڈز کے مطابق اس کا دورانیہ مسلسل کم ہو رہا ہے اور برسات کی مقدار اور تسلسل بڑھ رہا ہے۔ جو موسمیاتی تغیر کا واضح اشاریہ ہے۔ ایسا نہ بھی ہو تب بھی انفرائی سٹرکچر کا انسان دوست اور ماحول دوست ہونا از حد ضروری ہے۔

قصہ مختصر ثابت یہ ہوتا ہے کہ اس نوعیت کا حادثہ جس قدر بھی آسمانی دکھائی دے ایسی مہا تباہ کاریوں کے اسباب انفراء سٹرکچر کی عدم دستیابی یا غلط تعمیر، غلط منصوبہ سازی، بروقت اطلاعات کی عدم فراہمی، فوری امداد اور انخلاء سے غفلت وغیرہ میں بھی چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ علاوہ اس کے مقامی اور غیر مقامی جاگیر دار اور سرمایہ کار سیاستدانوں اور پالیسی سازوں کا استحصالی، عوام مخالف اور فریبانہ رویہ بھی شامل ہوتا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خشک سالہ، اکال نگری اور جنگلات سے خالی کوہ سلیمان کے دامن اور شمالی سندھ میں غیر معمولی بارشیں، غیر معمولی ہریالی اور غیرمعمولی پیداوار اور خوشحالی کا باعث بنتیں مگر ایسا کیسے ہو سکتا تھا کیونکہ بارشوں کی اضافی قدرتی شرح کے ساتھ ساتھ اپنے غلط منصوبہ بندیوں کا ہاتھ بھی رہا ہے۔ مگر یہ پوتھی کون کھولے؟ حکمران ایک دوسرے کو غدار، وفا دار اور فنکار ثابت کرنے، روز روز کی بازیگرانہ گفتگو اور کسی گوگے گوگی کی بحث سے فارغ ہوں گے تو سیلاب میں ڈوبتے ہمکتے مکانوں اور انسانوں کی طرف نگاہ کریں گے۔

اوپر سے سیلاب ہو یا زلزلہ اللہ کے عذاب کی عجیب و غریب گردان شروع ہو جاتی ہے۔ کوئی پوچھنے والا ہے کہ مفلوک الحال مخلوق، معصوم بچوں، عورتوں، مال مویشی اور چرند پرند نے کون سے ایسے کبیرہ گناہ کیے ہوتے ہیں کہ صرف ان پر ہی اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے مگر اشرافیہ کے بنگلوں، کوٹھیوں، پلازوں اور لاجز پر رحمتیں برستی رہتی ہیں۔ دراصل یہ بھی سیاسی اشرافیہ کا پھیلایا ہوا پراپیگنڈا ہی ہوتا ہے تاکہ کوئی ان پر انگلی نہ اٹھائے، کوئی ان کو ذمہ دار نہ ٹھہرائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments