احسان فراموش


اس ملک کے باقی تمام سیاست دانوں اور عمران خان میں ایک تو بنیادی فرق یہ ہے کہ باقی تمام سیاستدانوں کو سیاست میں آنے، کوئی عہدہ حاصل کرنے کے بعد شہرت نصیب ہوئی۔ عمران خان واحد سیاستدان ہیں جو سیاست میں آنے سے پہلے ہی شہرت کی بلندیاں چھو چکے تھے۔ بانوے کا ورلڈ کپ ہو، یا شوکت خانم کا پراجیکٹ یہ سب سیاست میں آنے سے پہلے کے واقعات ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ پاکستانی قوم کو جب جب موقع ملا انہوں نے عمران خان پر محبتوں کی بارش کر دی۔ سیاست میں آنے کے بعد بھی قوم کی روش میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ خان صاحب اکثر فرماتے ہیں کہ ان کا موجودہ حاصل کردہ مقام ان کی بائیس سالہ جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ انہیں کبھی یہ کہنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ یہ سب میری قوم کی محبت کا نتیجہ ہے۔

اس بائیس سالہ جدوجہد کو اگر آج پیچھے مڑ کر دیکھیں تو عمران خان کی تمام تر زندگی تکبر، خود غرضی، انا پرستی، دھوکہ دہی اور احسان فراموشی سے تعبیر کی جا سکتی ہے۔ عمران خان نے بائیس سالہ سفر میں کس کس سے دھوکہ کیا، کس کس سے احسان فراموشی کی، کس کس کو ڈسا تو یہ ایک طویل فہرست ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس فہرست میں اضافے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

بانوے کا ورلڈ کپ ایک ٹیم نے جیتا تھا۔ وسیم اکرم، انضمام الحق، اور جاوید میانداد نہ ہوتے تو ہم کبھی ورلڈ کپ نہیں جیت پاتے۔ عمران خان نے قوم کے ان محسنین کو فی الفور اگنور کیا۔ آج تک ان کی کارکردگی پر بات نہیں کی، آج تک انہیں نہیں سراہا کیونکہ اگر ورلڈ کپ کی فتح کا کچھ کریڈٹ ان کھلاڑیوں کو دے دیا جاتا تو اس سے عمران خان کی مطلق العنان شخصیت کو زک پہنچتی۔ اس لیے سارا کریڈٹ ہمیشہ خود سمیٹا۔ پوری ٹیم کی کاوشوں پر پانی پھیرا اور خود دنیائے کرکٹ کا بے تاج بادشاہ بن کر منظر عام پر اتر آئے۔

عمران خان نے دوسرا دھوکہ اس قوم سے اس وقت کیا جب سکولوں کے بچوں نے شوکت خانم کے لیے چندہ جمع کیا، جب عورتوں نے اس پراجیکٹ کے لیے اپنے زیورات بیچ دیے، جب بزرگوں نے عمر بھر کی پونجی عمران خان کے حوالے کر دی تو اس رقم سے پورے ملک میں ہسپتالوں کا سلسلہ شروع کیا جس سکتا تھا۔ عمران خان نے شوکت خانم لاہور کے پراجیکٹ کو مستقل آمدنی کا ذریعہ بنا لیا۔ آج عدالتیں ہمیں بتا رہی ہیں کہ وہ پیسہ جو کینسر کے مریضوں کے لیے آتا تھا، جس میں کسی کینسر زدہ معصوم بچے کی شکل دکھا کی زکات اور خیرات اکٹھے کیے جاتے تھے اس پیسے سے نہ صرف ایک سیاسی جماعت تشکیل دی گئی بلکہ ذاتی تجوریوں میں ڈالروں کے انبار لگ گئے۔ شوکت خانم کے بورڈ کو دیکھیں تو یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اس لوٹ مار میں عمران خان کے پورے خاندان نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔

عمران خان نے ایک دغا نواز شریف سے کی۔ اگر نواز شریف شوکت خانم ہسپتال کے لیے زمین فراہم نہ کرتے۔ پچاس کروڑ کا عطیہ نہ دیتے اگر نواز شریف کے ہاتھوں شوکت خانم کے افتتاح کی تختی آج بھی شوکت خانم ہسپتال میں آویزاں نہ ہوتی تو شوکت خانم آج بھی خواب ہی ہوتا۔ نواز شریف سے ایک پلاٹ کی بھیک مانگنے والا عمران خان آج جس سیاستدان سے ہر قیمت پر ذاتی انتقام لینا چاہتا ہے اس کا نام نواز شریف ہی ہے۔

عمران خان نے ملک کے غریب مریضوں کے ساتھ بھی دھوکہ کیا۔ اس ملک میں اگر سینکڑوں نہیں درجنوں کینسر ہسپتال ہیں، آج تک نہ کسی ایسے ہسپتال کے لیے وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی ایک پیسہ جمع نہ کیا نہ سرکاری طور پر ان کی امداد کی۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ اپنے دور اقتدار میں پی کے ایل آئی جیسا پراجیکٹ بھی ثاقب نثار کی مدد سے بند کروا دیا۔ کیونکہ وہاں وہ ٹیسٹ فری ہونے تھے جن کی قیمت شوکت خانم میں ہزاروں روپے وصول کی جاتی ہے۔

خان صاحب نے ہمیشہ اپنی پارٹی کے لوگوں کو دھوکہ دیا۔ ایک طویل فہرست ہے اکبر ایس بابر، جسٹس وجیہ الدین، فوزیہ قصوری، جہانگیر ترین، علیم خان اور عدنان رندھاوا جیسے لوگ جو سمجھتے رہے کہ خان ملک کی بہتری چاہتا ہے سب کو نہ صرف چن چن کر فارغ کیا بلکہ بیشتر کے خلاف انتقامی کارروائی بھی کی کیونکہ خان اپنی ذات کے سوا کسی کو نہیں تسلیم کرتا۔

خان صاحب نے ایک بڑا دھوکہ اس ملک کے عوام کے ساتھ کیا۔ انہیں ریاست مدینہ کے خواب دکھائے، انہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی مثالیں دیں انہیں پیغمبروں کی صداقت اور دیانت کا سبق دیا اور مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اس ملک میں کرپشن اور لوٹ مار کا وہ بازار گرم کیا کہ جس کی داستانیں زمانہ یاد کرے گا۔ مغربی جمہوریت کی مثالیں دے کر اس ملک میں نفرت، انتشار اور نفاق کی سیاست کو فروغ دیا۔ آئین و قانون کو دھڑلے سے پامال کیا۔ منہ پر آزادی اظہار کو نعرہ رہا مگر ہر اختلافی آواز کا گلہ گھونٹ دیا۔

عمران خان نے سب سے بڑا دھوکہ اس مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ کیا، جس ملک نے عمران خان کے سر پر شہرت کا ہما بٹھایا عمران خان ہوس اقتدار میں اسی ملک کی سلامتی کے درپے ہو گیا۔ کبھی اسی ملک کے عوام پر ایٹم بم گرانے کی بات کی، کبھی ملک کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا مژدہ سنایا، کبھی سرکاری اہلکاروں کو جلسوں میں دھمکیاں دیں، کبھی سفارتی تعلقات کو تہہ و تیغ کیا کبھی عدالتوں کے حکم کی توہین کی، کبھی سبز پاسپورٹوں کو نذر آتش کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ کبھی غیر ملکی سائبر سیلز کی مدد سے اپنے ہی ملک کے خلاف ایک تعفن انگیز مہم کا آغاز کیا، کبھی انہیں میر جعفر، میر صادق اور جانور جیسے القابات سے نوازا جن کے بوٹ چاٹ کر عمران خان مسند اقدار تک پہنچے تھے، کبھی چینلوں پر ان کے چیف آف سٹاف شہباز گل نے فوج کے اندر بغاوت کروانے کے منصوبے بنائے، کبھی الیکشن کمیشن اور الیکشن کمشنر کے خلاف رکیک حملے کیے، کبھی ایک خاتون جج کو بھرے جلسے میں دھمکیاں دیں۔ کبھی اس ملک کے پرچم کی توہین کی۔

عمران خان کا مستقبل کیا ہو گا اس کے بارے میں حالات بہت کچھ بتا رہے ہیں لیکن عدالتوں کے فیصلے کیا ہوتے ہیں، الیکشن کمیشن کیا حکم سناتا ہے، انسداد دہشت گردی کی عدالت عمران خان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے اس سب سے قطع نظر عمران خان تاریخ میں ایک ایسے شخص کے طور پر جانا جائے گا جس نے ہر موقع پر اپنے محسنین کو ڈسا، انہیں دھوکہ دیا ان کی توہین کی۔ اقتدار کی ہوس میں اس ملک کو نقصان پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ ایسے شخص کو تاریخ کس نام سے پکارے گی معلوم نہیں لیکن عمران کی بائیس سالہ جدوجہد اگر ایک لفظ میں بیان کرنی ہو تو اس کے لیے احسان فراموش سے زیادہ مناسب لفظ کوئی نہیں۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments