ہمارا نظام تعلیم ارتقا سے انکاری کیوں؟


چھ سال پہلے جب میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا سوچا تھا تو ایک ڈاکومینٹری دیکھنے کو ملی تھی ’لا ایجوکیشیون پروہیبیڈا‘ جس میں ایک استاد طالب علموں سے ایک مضمون لکھنے کا کہتا ہے کہ جس میں وہ اپنے ادارے بارے اپنی شکایتوں کا اظہار کر سکیں۔ انتظامیہ کی طرف سے اس سرگرمی کا بہت سخت ردعمل آیا اور یہ باور کرایا گیا کہ اس ادارے میں کسی ایسے شخص کو رہنے نہیں دیا جائے گا جو طے شدہ اصولوں پر سوال اٹھائے، اور تعلیم و تعلم کی مروجہ روایت کو پرکھے۔ اس ڈاکومینٹری میں آگے چل کر وہ استاد کہتا ہے، ”اگر آپ بچوں کو تعلیمی اداروں میں آزاد نہیں رہنے دو گے تو وہ آزادی کہاں سے سیکھیں گے اور معاشرے میں باہر جا کر وہ آزاد کیسے رہ سکیں گے؟”

یہی وہ پیمانہ تھا کہ میری یونیورسٹی کو جس پر پورا اترنا تھا لیکن جب چار سال تک میں نے اپنے ادارے میں اپنی اور ساتھی طالب علموں کی تخلیقی نشوونما، آزاد فکر، ایک کتاب دوست علمی فضاء، اور ایک طالب علم دوست انتظامیہ کی تقریباً ساری توقعات کے ساتھ برا سلوک ہوتے دیکھا تو ایک اور امید کا دامن تھام لیا۔ میں نے سوچا کہ جب میں خود پڑھانے لگ جاؤں گا تو سوالات کا دوست رہوں گا، کلاس روم میں ایسا رویہ رکھوں گا کہ زیادہ سے زیادہ مکالمہ ہو، اور سیکھنے سکھانے کا عمل بہترین ہو سکے۔ جس طرح مجھے کتابیں پڑھنا اور تخلیق کے ذریعے اظہار کرنا بھاتا ہے، اسی طرح کچھ گھنٹوں کے لیے ہی سہی، شاگردوں کو ایک ایسے ماحول کے حصول میں تعاؤن کروں گا۔

اب پچھلے کچھ دنوں سے ایک اہم مسئلے پر ہونے والی بحث کا تفصیل سے مطالعہ کرنا شروع کیا، اب جتنا زیادہ پڑھتا، سوچتا اور مشاہدہ کرتا جاتا ہوں، مسئلہ زیادہ گمبھیر لگنے لگتا ہے۔ میرا یہ نقطۂ نظر مزید پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ ہمارا نظام تعلیم ارتقاء سے انکاری ہے اور اس بات کا سب سے بڑا ثبوت نئی نسل کو تدریس کے عمل میں شمولیت سے دور رکھنا ہے۔ یہ نظام یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ان افراد کو، جو پڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اساتذہ کے طور پر اپنا کیریئر بنانا چاہتے ہیں، سہولت دینے کی بجائے ان کی راہ میں مختلف رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ پھر ہمارے نظام تعلیم کی غربت کہ ایسا کوئی خودکار عمل بھی نہیں رونما ہوتا کہ نظام گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ خود ہی ضروری تبدیلیاں اپنے اندر سمو لیا کرے۔

سرکاری سکولوں اور کالجوں میں جگہ پانے کے لیے پبلک سروس کمیشن کے امتحانوں کے ایک ایسے عمل سے گزرنا پڑتا ہے جو اپنی طوالت کے لیے بجا طور پر بدنام ہے۔ انتخاب کے عمل کی اسی طوالت کی وجہ سے غریب لیکن لائق اور مستحق لوگ دوسرے شعبوں کا رخ کرتے ہیں اور تعلیم و تدریس کا شعبہ اس کا نقصان اٹھاتا ہے۔

پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا تو قصہ ہی اور ہے۔ غور سے مشاہدہ کرنے پر آپ کو یہ لگنے لگاتا ہے کہ وہ تعلیمی ادارے کم اور بزنس کمپنیاں زیادہ ہیں۔ ان کا تنخواہوں کا نظام کھلم کھلا استحصال ہے۔ ایک بچے سے ماہانہ 8 ہزار فیس لینے والے سکول جب ایک استاد کو 12 ہزار روپے تنخواہ کے طور پر دیتے ہوں تو تعلیم اور تدریس کے مستقبل سے نا امیدی سی ہو جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زیادہ تر ایسے اساتذہ کلاس میں پڑھانے میں اور سکول کی دیگر سرگرمیوں میں کتنا مخلص حصہ ڈال سکیں گے؟

زیادہ مضحکہ خیز اور افسوس ناک یونیورسٹیوں میں پڑھانے کے خواہش مند افراد کے لیے وزیٹنگ پہ بھرتیوں کا نظام ہے جو کہ آپ سے توقع کرتا ہے کہ آپ چار پانچ مہینے طالب علموں کو پڑھائیں، اس کے بعد آپ کو تنخواہ دی جائے گی جو کہ زیادہ تر دو تین مہینے اور تاخیر سے دی جاتی ہے۔ آج تک مجھے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ لوگ کیا خیال کرتے ہیں کہ چھ آٹھ ماہ تک وزیٹنگ استاد اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ کیسے پالیں گے۔ اس سارے عمل کا نقصان طالب علموں کا نئی سوچ اور نئی فکر سے نا آشنا رہ جانا ہے اور جدید معاشرے کے تقاضوں سے باخبر اساتذہ سے محرومی ہے۔

جو نظام پہلے سے ہی روایت پرستوں اور قدامت پسندوں کی گرفت میں ہو، جہاں پر سفارش اور اقربا پروری ایک مستقل حقیقت ہو، اور جیسے کہ قابلیت پر سفارشوں کو فوقیت دینے کا ہمارا قومی رواج ہے، نئی نسل کو تدریسی شعبے میں شمولیت سے روکا جا رہا ہے جس کی فوری روک تھام وقت کی ضرورت ہے۔ جس طرح بزنس کمپنیاں ایم بی ایز اور بی بی ایز کو ہاتھوں ہاتھ لیتی ہیں اور کہیں کہیں تو اداروں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے ان کی گریجوایشن ہوتے ساتھ ہی نوکریوں پر رکھ لیتی ہیں، ویسا ہی عمل تعلیمی اداروں کو ہر سطح پر ممکن بنانا ہو گا۔

زیادہ تر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ مختلف شعبوں میں قسمت آزمائی کے بعد لوگ جب اس نظام تعلیم کا حصہ بنتے ہیں تو ان کا جذبہ، تخلیق سے محبت، اور افکار سے شغف اور شغل ماند پڑ چکے ہوتے ہیں۔ پھر اداروں میں ان کو ایک ایسے عمل سے گزرنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ جس کے دوران ان کو روایتی طریقوں کے مطابق ڈھالنے کی بھر پور کوشش ہوتی ہے، ان کو اپنے طرز پر پڑھانے کی کم سے کم آزادی میسر ہوتی ہے اور وہ بس اپنی نوکری بچانے کی فکر میں اس نظام کی بوسیدگی میں اپنا حصہ ڈالنے لگ جاتے ہیں اور جو گنے چنے لوگ مزاحمت کرتے ہیں، ان کو اس کی خاطر خواہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔

مانا کہ نظام وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتے ہیں اور تعلیم اور تدریس کے شعبوں میں بہت سارا نیا اور بہتر کام ہو رہا ہے لیکن جس رفتار سے بدلاؤ آ رہا ہے، وہ مایوس کن ہے۔ اس نظام کا ارتقاء سے انکار عجیب ہے اور ہم سب کے لیے نقصان دہ ہے۔ معاشرے کی ترقی کے لیے تعلیمی نظام کی بہتری اولین شرط ہے۔

امتحانوں اور انتخاب کے عمل ضرورت سہی، لیکن ان میں بڑے پیمانے پر بہتری لانے کی ضرورت ہے، اور پھر اس تبدیلی کا ایک خود کار عمل شروع ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ نئے لوگوں کے اس شعبے کا حصہ بننے کا عمل آسان ہو۔ نئے زمانے سے ہم آہنگ اور ارتقاء کے لیے تیار ایک نیا تعلیمی نظام اس طرح تشکیل پا سکے گا ورنہ یکساں قومی نصاب جیسی شارٹ کٹ خیالی سکیمیں نظام کے مستقبل کے لیے شاید ہی کوئی امید ثابت ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments