حسن کا زوال


خدا بدن نہیں رکھتا وگرنہ یہ عاصی
جہاں بھی دیکھتے بے ساختہ لپٹ جاتے

میرا دل ڈوب رہا ہے۔ محبت کی آغوش میں بے شمار لاشیں اور پانی کے دوش پر ناچتی موت دیکھ کر اپنے رب سے رحم کی بے ساختہ دعاؤں کے طلبگار ہیں۔

کمراٹ ویلی دریائے پنجکوڑہ کے نذر ہو گئے ‏۔ قدرتی خوبصورتی قدرت کا انتقام بن گئے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمارے اعمال پر کوہ سلیمان رو رہا ہے۔ ہر سال ان خوبصورت وادیوں کے سفر کرنے والے وہاں کے مہمان نواز کی خستہ حالی پر خون کے آنسو رو رہے ہیں۔

کیوں پاک پروردگار کیوں؟

یہ یقیناً ہم سب پاکستانیوں کے لئے ایک بہت بڑی امتحان کی گھڑی ہے جس میں ہمیں ایک ہو کر اس قدرتی محبت بھری آغوش کے امتحان میں وہاں کے مکینوں اور مصیبت زدہ افراد کے لئے ہر ممکنہ کوشش انسانیت اور محبت کی کے لیے لبیک کہنا ہم سب پر فرض ہے۔ ہر روز نئی تباہ کاریوں کی خبریں دل کو چھلنی کر رہی ہیں چل خوبصورت مقامات پر ابھی کچھ دن پہلے ہم ہو کر آئے آج ان کا یہ حال دیکھ کر خدا کے جلال اور کہر سے دل لرز گیا ہے۔ ہمیں معاف کر دے ہمارے پروردگار تیری کبریائی میں بڑی گنجائش ہے ہم پر رحم فرما۔

کاش کے اس وقت ہم ایک قوم ہو کر اس قدرتی آفت کے بعد بچ جانے والوں کا مداوا نہ کر سکے کاش ہم اس وقت اتنی بڑی آفت اور خدا کی آزمائش کو دیکھنے کے بعد ہی صحیح مسلمان اور ایک قوم ہو کر انسانی حقوق کو سمجھ سکے وہ اور قومیں ہیں جو اپنے لوگوں کو ایسی ناگہانی آفتوں کے بعد ایک مخصوص حکمت عملی کے ساتھ بچاتی ہیں۔ ہمارے ساتھ کوئی جلسوں اور تقریروں میں مقابلہ کر کے دکھائے۔ ہم لاوارث قوم ہیں۔ ہمارے بہت سے علاقوں میں لوگ ابھی بھی بھوکے پیاسے امداد کے منتظر اپنے بھائیوں اور حکومت کے طلبگار ہیں۔

23 مارچ کو ٹی وی پر دکھائے جانے والے بے شمار ہیلی کاپٹرز کہا ہیں؟ کیوں ایسے مقامات پر ڈیمز کی تعمیر نہیں کی جاتی ان لوگوں کی لاشوں اور خون سے دیواروں کی چنائی کی جا رہی ہے کہا ہے ہماری فضائی طاقت؟

زمین سے فضاء میں اڑنے والے ہیلی کاپٹرز صرف 23 مارچ کو اڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ افسوس کہ ہم صرف مفاد پرست قوم ہیں۔ کہاں ہیں وہ سر گرم حکمران جو جلسے جلوسوں کے لیے بے شمار پیسہ بہاتے ہیں کہاں ہے وہ تمام ہیلی کاپٹرز جو عوام کے پیسوں سے صرف 23 مارچ کو ہوا میں رقص کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا حکمت عملی بنائی گئی ہے ان تمام لوگوں کو اس جگہ سے محفوظ مقامات پر پہنچانے کی؟ کیوں حکمران وقت اس آفت کی گھڑی میں تمام فلاحی اور دفاعی اداروں کو اکٹھا کر کے بہترین حکمت عملی نہیں دے رہے جس سے تمام متاثرہ افراد کو امداد یکساں میسر ہو سکے۔ ایسے مشکل وقت میں ہماری قوم اور حکومت بیرونی امداد کا منہ اٹھا کر انتظار کر رہی ہے۔ کیونکہ ہم مانگنا نہیں چاہتے مگر مجبوری ہیں۔ ایسی قوم کا خدا ہی حافظ ہے۔

ذاتی مفاد سے بڑھ کر اس وقت انسانیت کی ضرورت ہے مگر کہاں ہے انسانیت؟ ان محبت کی وادیوں سے محبت وفا کرنے کا وقت ہے۔ ہم سب ایک ہو کر ان لوگوں کی طاقت بنیں جن کو اس وقت ہماری سب سے زیادہ ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments