قدرتی آفات: گناہوں کا ثمر


اس وقت پاکستان شدید ترین سیلاب کی لپیٹ میں ہے اور سیلاب زدہ علاقوں کے عوام تاریخ کی بدترین پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسے میں سندھ کے وڈیرے اور اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے، جس میں وہ مصیبتوں میں پھنسے ہوئے عوام کو کہہ رہے ہیں، کہ یہ آفت تمہارے گناہوں کے طفیل ہم سب پر مسلط ہوئی ہے۔ یہ ویڈیو سامنے آتے ہی، ایک طوفان بدتمیزی برپا ہو گیا ہے اور لوگ سوشل میڈیا پر آغا سراج درانی کو بھانت بھانت کی باتیں سنا رہے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے بالکل درست بات کہی ہے۔

دیکھیں نا، یہ عوام ہی تو ہیں، جب انہیں ہر پانچ سال بعد اپنی تقدیر بدلنے کا موقع ملتا ہے تو اس وقت یہ اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لینے کی بجائے عیاش وڈیروں کے حوالے کر آتے ہیں، ایسے میں عذاب نہ آئیں تو پھر کیا من و سلویٰ نازل ہو؟ کیا آغا سراج درانی کو ووٹ دینے کا گناہ عوام نے نہیں کیا؟ کیا 51660 ووٹ فرشتوں نے دے کر جتوایا تھا؟

جی ہاں! سچ یہی ہے اور جتنی جلدی اس سچ کو تسلیم کر لیں گے، اتنی جلدی ہی قوم کی خلاصی ان آفات سے ہو جائے گی۔ کیوں کہ اپنی سمت کو درست کرنے کا پہلا قدم اپنی غلطیوں کا اعتراف ہوا کرتا ہے۔ آپ گزشتہ 75 سالوں میں ہونے والے کسی بھی الیکشن کا جائزہ لے لیں، ہر الیکشن میں عوام نے ایک ہی طبقے کو بوریاں بھر بھر کر ووٹوں سے نوازا ہے۔ ایک ایسا طبقہ، جس کا عام آدمی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، ایسا طبقہ جو صرف اپنے مفاد کے وقت عوام کو یاد کرتا ہے، جو الیکشن سے 3 ماہ پہلے نظر آنا شروع ہوتا ہے اور الیکشن ختم ہوتے ہی اڑن چھو ہوجاتا ہے۔

جس کے لیے یہ ملک مفتوحہ علاقہ اور عوام زرخرید غلام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جو یہ جانتا ہے کہ جب میں الیکشن لڑنے جاؤں گا، تو لوگ سائیں سائیں کرتے آئیں گے اور ایک وقت کی روٹی کے عوض یا چند روپوں کے عوض اپنی تقدیر مجھے سونپ جائیں گے۔ ایسے طبقے کو لوگ محض اس وجہ سے ہر بار ووٹ دے دیتے ہیں کہ وہ پارٹی تبدیل کر کے ووٹ مانگنے آ جاتا ہے، کبھی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ، کبھی مسلم لیگ نواز اور کبھی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ووٹ ہمیشہ اسی طبقے کو ملتے ہیں۔

کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ایسا شخص جس کی ذہنیت یہ ہو کہ الیکشن میں چند کروڑ خرچ کر کے اور پارٹی تبدیل کر کے الیکشن جیتا جاسکتا ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسا شخص مشکلات میں عوام کے ساتھ کھڑا ہو کر اپنا قیمتی وقت برباد کرے؟ جب اس کا وقت اتنا قیمتی ہو کہ وہ ہر منٹ میں لاکھوں روپے کمانے کی طاقت رکھتا، تو کیوں وہ عوام کے دکھ میں کئی کئی گھنٹے ضائع کرے اور اپنا کروڑوں کا نقصان کرے؟

اللہ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ ”اللہ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا، جو قوم خود اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہیں کرتی“ ۔

پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستانی قوم انہی جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کو ووٹ دیتی رہے، جن کو 75 سالوں سے دیتی آ رہی ہے اور پھر ملک ترقی بھی کر جائے اور مصیبتوں اور پریشانیوں کے گرداب سے بھی نکل جائے یہ کیسے ممکن ہے؟

پاکستانی قوم یہ سمجھ لے کہ سیلاب، زلزلے اور آفات ان کے اجتماعی گناہوں کا نتیجہ ہیں اور اجتماعی گناہوں کا مداوا بھی اجتماعی طور پر کرنا پڑتا ہے۔ جب تک قوم اجتماعی توبہ نہیں کرے گی، تب تک اسی طرح ظلم و ستم کا شکار رہے گی اور اپنے گناہوں سے اجتماعی توبہ کا آغاز الیکشن میں اپنے ووٹ کا درست استعمال کرنے سے ہو گا۔ یعنی قوم کو اب یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ اب کسی سرمایہ دار، مالدار، جاگیردار اور وڈیرے کو ووٹ نہیں دیا جائے گا، بلکہ اب اپنے اندر سے نئی لیڈرشپ پیدا کی جائے گی اور ایسے لوگوں کو ووٹ دیا جائے گا، جن کو ان تمام مسائل کا سامنا اپنی روز مرہ زندگی میں کرنا پڑتا ہو۔ سادہ لفظوں میں اب عوام کا نمائندہ بھی عام آدمی ہونا چاہیے۔ جیسا کہ نئی دہلی میں اروند کیجریوال کی صورت میں عام آدمی کی حکمرانی کی مثال بھی سامنے آ چکی ہے۔

اب قوم کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ووٹ صرف اسی کو دینا ہے، جو مالدار نہ ہو، اب امیر طبقے کے لوگ چاہے کسی بھی پارٹی سے آجائیں، ان کا بائیکاٹ کرنا ہو گا۔

یقین جانیئے اگر عوام نے الیکشن کے موقع پر اپنے ووٹ کا درست استعمال کر لیا اور اپنے گناہوں سے اجتماعی توبہ کرتے ہوئے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور وڈیروں کو ووٹ کی طاقت سے شکست دے دی تو ان کے تمام دلدر دور ہوجائیں گے، ورنہ ذلت و رسوائی 75 سال سے تو بھگت ہی رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments