بوسنیا کی چشم دید کہانی (10)


بوسنیا میں یو این مشن کے ساتھ منسلک ہونے کے بعد جو پہلا سب سے اہم واقعہ درپیش ہوا وہ موسطار کے بلدیاتی انتخابات تھے۔ موسطار شہر کا انتظامی حوالے سے ابھی تک ہم سے کچھ واسطہ نہ تھا۔ یہ ہم سے تقریباً تیس کلو میٹر دور واقع تھا۔ کروایٹ رائے دہندگان جو ماضی میں موسطار کے باسی رہے تھے اور جنگ کے نتیجے میں اب کروایشیا میں مختلف مقامات پر بطور مہاجر آباد تھے انہوں نے ہمارے علاقے سے ہی گزر کر ان انتخابات میں حصہ لینے جانا تھا۔

چنانچہ اعلیٰ سطح پر بین الاقوامی پولیس کے مختلف سٹیشنوں کی ذمہ داری کا جب تعین کیا گیا تو ہمارا کام یہ ٹھہرا کہ ہم کروایشیا کے سرحدی قصبے مٹکووچ کی چیک پوسٹ پر موجود ہوں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ مہاجرین کو کروایشیا سے بوسنیا میں داخل ہوتے وقت کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس فیصلے کی روشنی میں ہمارے سٹیشن کمانڈر نے ہماری ڈیوٹیاں اس طرح لگائیں کہ صبح چھ تا دن بارہ بجے تک شیوا اور پریم، بارہ تا شام چھ بجے تک ٹامس اور ہنرک اور شام چھ تا رات بارہ بجے تک میں اور اقبال ڈیوٹی سرانجام دیں گے۔

مقررہ دن ہم اپنی ڈیوٹی کے وقت وہاں پہنچے تو خوب ہلہ گلہ تھا۔ کروایٹ پولیس اور مقامی پولیس کے علاوہ IFOR کی اچھی خاصی نفری اپنے پورے فوجی ساز و سامان سے لیس وہاں موجود تھی۔ شام ہو چلی تھی لہٰذا موسطار کی طرف سے وقفے وقفے سے مہاجرین کی بسیں واپس لوٹ رہی تھیں۔ ہنرک گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے سو چکا تھا اور ٹامس ایک پلاس کی مدد سے گاڑی کے بونٹ پہ لگا ریڈیو انٹینا ٹھیک کر رہا تھا۔ ٹامس نے ہمیں دیکھتے ہی برا سا منہ بنا لیا اور بولا دو دن قبل تم لوگوں نے یہ گاڑی استعمال کی تھی مجھے پورا یقین ہے کہ یہ انٹینا تم لوگوں نے ہی خراب کیا ہے، لہٰذا ضابطے کی کارروائی کے لیے تیار ہو جاؤ۔

اقبال بولا۔ ٹامس بس اتنی بات پر کہ دو دن پہلے یہ گاڑی ہم نے استعمال کی تھی ہمیں مورد الزام ٹھہرانا کہاں کا انصاف ہے۔ ٹامس کندھے اچکا کر بولا، کسی اور مفروضے کی غیر موجودگی میں مجھے اسی مفروضے پی تکیہ کرنا پڑے گا، مجبوری ہے۔ میں نے کہا ٹامس آپ بھی عجیب آدمی ہو۔ آج ہم یہاں بڑی اہم ذمہ داری نبھانے کو موجود ہیں۔ بجائے اس کے کہ تم سینئر ہونے کے ناتے اس ڈیوٹی کے بارے میں ہمیں کچھ سمجھاؤ تم نے ہمیں جھاڑنا شروع کر دیا ہے۔

ٹامس بولا کوئی ایک گھنٹہ قبل سٹیشن کمانڈر نے ادھر چکر لگایا تھا۔ ہنرک اس وقت بھی سو رہا تھا اور میں گاڑی میں بیٹھا اپنی بیگم کو خط لکھ رہا تھا۔ مجھے اس کی آمد کی تب خبر ہوئی جب اس نے گاڑی کا بند شیشہ کھٹکھٹا کر میری توجہ حاصل کرنا چاہی۔ تمہاری طرح وہ بھی چونکہ اس ڈیوٹی کو بہت اہم سمجھتا ہے، لہٰذا مجھے اور ہنرک کو وہ ان حالات میں پا کر یقینی طور پر خوش نہیں ہوا۔ سینئر ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے سرزنش کی۔

میں اس کے جانے کے بعد سے تم لوگوں کی آمد کے انتظار میں تھا کہ اب میں اپنی سینیارٹی کا فائدہ اٹھا کر تم دونوں کو کسی بہانے جھاڑوں اور دل کا بوجھ ہلکا کروں۔ اتفاق سے میری نظر اس مڑے تڑے انٹینا پر پڑ گئی اور یوں بہانہ ہاتھ آ گیا۔ یہ کہتے ہوئے وہ کھلکھلا کر ہنسا اور بولا اب میرے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہے، جاؤ تمہیں معاف کیا۔

اس طرح کے ڈرامے ٹامس کا محبوب مشغلہ تھے اور ان کے بغیر اس کی شخصیت اور زندگی دونوں ادھوری تھیں۔ اس ہدایت کے ساتھ کی ہم نے اس وقت تک یہاں رہنا ہے جب تک مہاجر ووٹروں کی آخری بس واپس کروایشیا میں داخل نہیں ہو جاتی اس نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور گاڑی سٹارٹ کی۔ چلنے سے قبل اس نے پچھلی سیٹ پر تاحال سوئے ہوئے ہنرک کی طرف مڑ کر دیکھا۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوا۔ گوروں سے برابری کے شوق میں اگر تم میں سے ایک ہنرک کی طرح ڈیوٹی انجام دے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ میں نے کہا اگر ہم گوروں پر سبقت حاصل کر نا چاہیں اور ایک کی بجائے دونوں ہنرک کی تقلید کریں تو؟ اس پر اس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور See you کہتے ہوئے گاڑی رواں کر دی۔

تیرہویں صدی عیسوی میں جب ہرزے گووینا کے اس وقت کے دارالحکومت بلگائے کے قریب دریائے نرٹوا کے مشرقی کنارے پر ایک آبادی قائم ہوئی تو یہاں کے باسیوں نے بلگائے تک جانے کے لیے دریا پر رسے تانے، ان کے ساتھ ایک ڈولی باندھی اور ایک شخص کو اس خدمت پر مامور کیا کہ وہ اس ڈولی کو کھینچ کر مسافروں کو دریا پار پہنچائے۔ اس خدمت کے عوض جو رقم ادا کرنی پڑتی تھی اسے موسطارینہ کیا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس بستی کی آبادی میں اضافہ ہوتا گیا۔

پھر ترکوں کے دور میں 1466 میں ہرزے گووینا کے گورنر سلیمان نے حضر الدین نامی معمار کو اس مقام پر ایک پل تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ حضر الدین نے صرف پتھروں کے استعمال سے ترک فن تعمیر کے ایک شاہکار کو وجود بخشا۔ اس پل کے دونوں کونوں پر بڑے بڑے برج تھے اور پل کی شکل قوس قزح کی مانند۔ اس کے دونوں سروں پر سیڑھیاں بلندی کو جاتے ہوئے آپس میں جہاں ملتی تھیں وہ پل کا سب سے بلند مقام تھا۔ مقامی زبان میں ”موس“ پل کو کہتے ہیں اور ”طار“ بستی کو۔

چنانچہ اس پل کی نسبت سے یہ شہر موسطار کہلایا۔ اسی دوران یہ بلگائے کی جگہ ہرزے گووینا کا صدر مقام بھی بن چکا تھا۔ ہرزے گووینا میں عثمانی اقتدار 1442 میں قائم ہوا اور 1878 میں ختم۔ اس دوران یہاں جتنے بھی گورنر رہے ان میں علی پاشا کا دور سب سے نمایاں تھا۔ یہ 19 سال کے عرصے پر محیط تھا جو 1851 میں ختم ہوا۔

ہرزیگووینیا کا علاقہ کونئیک نامی قصبے سے شروع ہو کر موسطار کے بعد دوسرے بڑے شہر ترے بینیا پر ختم ہوتا تھا۔ یہ کبھی تینوں قومیتوں سرب، کروایٹ اور مسلمانوں کی مشترکہ سرزمین تھی جہاں وہ صدیوں سے اکٹھے رہتے رہے تھے۔ کونئیک سے لے کر سٹولک تک مسلمان اکثریتی علاقہ تھا۔ اس سے آگے تریبینیا تک سرب اکثریتی علاقہ اور چپلینا، لوبوشکی، میجی گوریا، شٹلک وغیرہ کروایٹ اکثریتی علاقے تھے۔ اس خطے میں مشترکہ تہذیب اپنی پوری رواداری کے ساتھ کئی قرنوں سے قائم رہی تھی۔

ہے رنگ لالہ و گل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے

موسطار جو سولہویں صدی کے شروع سے لے کر اب تک اس خطے کا صدر مقام چلا آ رہا تھا اس مشترکہ تہذیب کا مثالیہ تھا۔ ہر زیگووینیا کا سب سے طویل دریا نرٹوا اس کے بیچ سے گزرتے ہوئے اسے دو حصوں مشرقی اور مغربی موسطار میں تقسیم کرتا ہے۔ مشرقی حصہ ہمیشہ سے مسلم اکثریتی حصہ رہا اور مغربی حصہ کروایٹ اکثریتی۔ دونوں حصوں میں کل آبادی کا تقریباً 19 فی صد سرب اور 10 فی صد یوگوسلاؤ ( وہ لوگ جو مارشل ٹیٹو کے نظریات کے زیر اثر اپنی شناخت مذہب کی بجائے وطن کو ٹھہراتے تھے ) بھی آباد تھے۔

موسطار کی دونوں پہچانیں یعنی اس کا پل اور اس کی مشترکہ تہذیب فرقہ ورانہ جنگ کی زد میں کچھ اس انداز سے آئیں کہ بس ماضی کا حوالہ بن کے رہ گئیں۔ حضرالدین کا وہ شاہکار جو اس شہر کی روح کہلاتا تھا اس کے کونوں پر برج تو سلامت رہے لیکن قوس نما پل مئی 1993 کی ایک رات دھماکے سے فضا میں بکھرا اور دریا برد ہو گیا۔ مشترکہ تہذیب کا چہرہ بھی گہنا گیا۔ پھر دریا کے دونوں کناروں پر علیحدہ علیحدہ شناختیں ابھریں۔ مشرقی موسطار اب مکمل طور پر ایک مسلم علاقہ ٹھہرا اور مغربی موسطار ایک کروایٹ علاقہ۔ سرب جو دونوں جانب اقلیت میں تھے وہ مہاجر بنے اور ہرزیگووینا کے سرب اکثریتی علاقوں کی سمت کوچ کیا۔ ادھر مشرقی حصہ ارد گرد کے علاقوں سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی اکیلی آماجگاہ بن گیا اور اس کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔

ایک دریا کے دو کناروں پر آباد لوگوں کا اس نسبت پر مبنی تعصب میرا یہ اولین مشاہدہ نہ تھا۔ بحیثیت ڈی ایس پی میری پہلی تعیناتی کے پی، کے دور دراز اور ہزارہ کے شمال میں واقع آخری ضلع کوہستان میں ہوئی تھی۔ یہاں میں نے اس کی دونوں تحصیلوں داسو اور پٹن میں 1991 تا 93 دو سال کا عرصہ گزارا۔ دریائے سندھ اس ضلع کے بیچوں بیچ بہتا ہے۔ اس کے داییں کنارے پر آباد لوگ سوات کوہستانی اور بائیں کنارے پر آباد لوگ ہزارہ کوہستانی کہلاتے ہیں۔ یہ صرف دو نام ہی نہیں بلکہ دو ایسی نسبتیں ہیں جو ہمیشہ ہر معاملے میں ایک دوسرے کے مد مقابل کے طور پر سامنے آئیں اور اس طرح مجھے اس حقیقت کی پہلی مرتبہ جانکاری ہوئی کہ دریا تہذیب کا منبع ہی نہیں ہوتے بلکہ معاشرتی تفریق کی بنیاد بھی بنتے ہیں۔

ضلع کوہستان کے اس مشاہدے کا اگر اس سے بڑھ کر منفی صورت میں کہیں اعادہ دیکھنے کو ملا تو وہ موسطار میں مشرقی اور مغربی کنارے کی شکل میں تھا۔ مشترکہ تہذیب کے اس گہوارے میں مذہب کی نسبت سے وجود میں آنے والی تقسیم اس قدر گہری تھی کہ یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ ایک دریا کے دو کنارے ایک دوسرے کے اتنے قریب ہونے کے باوجود یہاں آباد لوگ ایک دوسرے سے اس قدر دور ہو سکتے ہیں۔ ڈیٹن سمجھوتے میں اس شہر کو وفاق کے نظریے کو تقویت دینے کے لیے ایک مثالیے کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ لیکن یہاں زمینی حقائق قدم قدم پر یہ اعلان کرتے پائے جاتے تھے کہ اس نظریے کی حقیقت دیوانے کے خواب سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ شہر کے دونوں حصوں کی فضاؤں میں دو مختلف جھنڈے لہراتے تھے، دو مختلف سکے رائج تھے اور ایک حصے کا ہیرو دوسرے حصے کے باسیوں کے نزدیک جنگی مجرم تھا۔

میں جب کبھی بھی محمت پاشا مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد اس کے صحن میں کھڑے ہو کر نرٹوا کے پانی پر نظر جماتا تو یہ سوچتا کہ نرٹوا اس شہر کے درمیان سے اس قدر خاموشی سے شاید اس لیے گزرتا ہے کہ کہیں اس کی لہروں کی نغمگی ایک بار پھر اس شور جنوں میں گم نہ ہو جائے جو پچھلے چار سال تک اس شہر میں بپا رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments