پراجیکٹ موسٰی: سمندر میں دیوار کھڑی کرنے والا شہر


ہم سمندر میں دیوار کھڑی کریں گے۔ جب انجینئروں نے یہ منصوبہ حکومت کے سامنے پیش کیا تو ایک قہقہہ بلند ہوا اور اسے ناممکن کا نام دیا گیا۔ لیکن نا ممکن کا لفظ انسانی ڈکشنری میں صرف نالائقوں، نا اہلوں اور سست رووں کے لئے ہے۔ یہ شہر دنیا بھر سے ہر سال چودہ لاکھ سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اس کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ سمندر کے پانیوں کے اندر اس طرح کھڑا ہے کہ اس کی گلیوں سڑکوں اور شاہراؤں میں بھی پانی چلتا ہے اور شہریوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے کشتی استعمال کرنا پڑتی ہے لیکن اس شہر کا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ ہر سال جب بھی موسم خراب ہوتا تھا تو سمندری پانی کی سطح بلند ہوتے ہی سیلاب کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ اور پانی شہر کی دکانوں، ہوٹلوں، گھروں اور ریستورانوں کا اندر داخل ہوجاتا تھا۔ یہ شہر ہر سال ایک یا دو ملی میٹر پانی کے اندر دھنس بھی رہا تھا

حکومت کے لئے سوال یہ تھا کہ اس سطح سمند رکو بلند ہونے سے کیسے روکا جائے۔ انسان دریاؤں کو تو بند باندھ سکتا ہے اور ان کا رخ بدل سکتا ہے لیکن سمندر کے آگے بند کیسے باندھیں۔ 1964 ءسے انسان سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اس سمندر کو قابو میں کیسے لایا جائے تاریخ اور مذہب کی کتابیں کھولی گئی تو پتہ چلا کہ ماضی میں ایک ہی شخص تھا جس نے سمندر کے پانی کو پاٹ دیا تھا۔ اور اس میں رستہ بنا لیا تھا۔ اسے تاریخ موسٰی کے نام سے جانتی ہے لیکن وہ تو اللہ کے برگزیدہ پیغمبر تھے۔ اور انہوں نے یہ معجزہ اس لئے انجام دیا کہ وہ خدا سے براہ راست ہمکلام ہوتے تھے۔ اب اس دور میں تو ایسا ممکن نہیں تھا اب جو بھی کرنا تھا انسان کو خود ہی کرنا تھا۔

شروع میں سمندر میں چھوٹے چھوٹے ڈیم اور گڑھے بنانے کا پروجیکٹ بنا لیکن سمندر کا پانی ہر سال آتا اور تباہی کر کے چلا جاتا۔ شہر کے تاجر اور سیاح ان مہینوں میں شہر سے نکل جاتے۔ اور انتظار کرتے کہ سمندر کو رحم آئے اور وہ واپس جا کر گلشن کا کاروبار چلائیں۔ البتہ انسانوں نے اسے ایک عذاب کہنے، قدرتی آفت سمجھنے اور چرچوں میں جا کر گھنٹیاں بجا کر مدد مانگنے کی بجائے خود سے کوشش کرنے کا ہی سوچا۔

فیصلہ ہوا کہ سمندر کے اندر دیوار بنائی جائے۔ لیکن شہر کو محصور بھی نہیں کرنا تھا کیونکہ شہر کی انفرادیت اس کا سمندر کے اندر ہونا ہے سمندر سے کاٹنا نہیں تھا۔ تو پھر سوچا گیا کہ دیوار ایسی ہو جو صرف اس وقت کھڑی ہو جب موسم کی خرابی کی وجہ سے سمندر کی سطح بلند ہو۔ عام حالات میں یہ دیوار زمین کے ساتھ ہی لگی رہے۔ اس دیوار کا مقصد صرف پانی کی بلند سطح کو روکنا ہو گا۔ انجینئروں نے اس منصوبے کو پراجیکٹ موسی ٰ کا نام دیا اس پراجیکٹ پر ساڑھے پانچ ارب یورو کی لاگت آئی۔

یہ الیکٹرو مکینیکل قسم کی دیوار ہے جو سمندر کی سطح ایک سو دس سینٹی میٹر تک بڑھ جانے کی صورت میں بھی اس کو روک سکتی ہے۔ پانی کے اندر موجود یہ آٹومیٹک گیٹ ہیں جو اس وقت بلند کر دیے جاتے ہیں جب پانی کی سطح بلند ہو۔ جس پراجیکٹ کو لوگ ناممکن کہتے ہیں اس کا تجربہ دو سال پہلے کیا بھی جا چکا ہے اور سمندر کے آگے بند باندھا جا چکا ہے۔ اور وینس شہر کے اندر پانی کو داخل ہو نے سے روک کر دکھا دیا گیا ہے ۔

پاکستان میں پچھلے پچھتر سال سے ہر سال مون سون آتا ہے اور اس کی بارشیں ہزاروں قیمتی جانیں، مویشی، سڑکیں، پل، سکول اور عمارتیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہیں۔ ان ادوار میں جمہوری حکومتیں بھی آئیں اور فوجی بھی لیکن ہم ہر سال ہاتھ میں کٹورا پکڑ کر نگری نگری ملکوں ملکوں بھیک مانگنے نکل پڑے۔ دنیا نے صرف ایک تفریحی شہر وینس کو بچانے کے لئے سمندر کو روک کر دکھا دیا اور ہم ہنستے بستے دیہاتوں، شہروں اور زندگی بسر کرتے لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لئے کچھ بھی نہ کر سکے۔

آج صبح وزیر اعظم کا خطاب سنا بالکل ایسا محسوس ہوا جیسے گاؤں کی مسجد کا مولوی سپیکر پر کہہ رہا ہو فلاں چوہدری صاحب کے گھر سے دس روپے بھیجے گئے ہیں اللہ ان کے کاروبار میں ترقی دے یا پھر کہہ رہا ہو کہ باقی گھر بھی ہماری مدد کریں دہ دنیا ستر آخرت کمائیں۔ شہباز شریف صاحب برطانوی و دیگر غیر مسلم حکمرانوں کی جانب سے ملنے والی مدد پر بھی فرما رہے تھے انہوں نے اپنی دنیا و آخرت کی کامیابی سمیٹ لی ہے۔ ہیں؟ ہم دعاؤں پر چلنے والی قوم ہیں، ہمارے پاس ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے۔ کہ اگر کوئی مسئلہ آ جائے تو کسی سرکاری مولوی سے یہ اعلان کردو کہ یہ عذاب آیا ہے۔ اس وقت ہمیں دو ہی سبق دیے جاتے ہیں اجتماعی دعا کریں، یا پھر مدد مانگنے پوری دنیا میں چلے جائیں کبھی کسی حکمران نے کسی پراجیکٹ، کسی منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے یہ نہیں کہا کہ آئندہ ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔

جغرافیہ کا تھوڑا سا علم رکھنے والے کو بھی پتہ ہے کہ سیلاب عذاب نہیں ہوتے بلکہ اس قدرتی عمل سے بہت زیادہ فائدہ بھی پہنچتا ہے مثلاً دریاؤں کا پانی ایک خاص رستے سے ہٹ کر جب زمین کے زیادہ حصے کو سیراب کرتا ہے تو یہ نہ صرف انسانوں کے لئے پانی ذخیرہ کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے بلکہ متعلقہ زمین کو بھی زرخیز بناتا ہے یہ ماحولیاتی نظام کو بہتر کرنے اور کھیتی باڑی کے لیے زرخیز علاقوں کو سہارا دینے کے لیے زمینی آلودگی کو بھی فلٹر کرتے ہیں۔

سیلاب سے جزیرے اور جوہڑ بن سکتے ہیں جو مچھلیوں، پرندوں اور دیگر جنگلی حیات کا گھر ہیں۔ سیلاب ماحول کو نقصان دینے والے والے پودوں اور جانوروں کو بھی بہا لے جانے میں مدد گا ر ثابت ہوتا ہے مختلف انواع کے پودوں اور مچھلیوں کے تولیدی نظام کے لئے مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ سیلاب کو روکنا نہیں ہے بلکہ اس کو مینیج کر کے اس سے فائدہ اٹھانا ہے تاکہ اس کے نقصانات سے بچا جا سکے دنیا میں وسیع سیلاب تو بہت کم ہی آتے ہیں اصل مسئلہ دریاؤں کے پانی کا بہاؤ بڑھ جانا ہے جس کو منصوبہ بندی سے مینیج کیا جا سکتا ہے مثلاً اگر اگر چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا دیے جائیں تو یہی سیلاب رحمت بن سکتے ہیں سارے سال کے لئے پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ بہت شور سنتے ہیں کہ پاکستان میں پانی کی کمی کا مسئلہ شدت اختیار کر سکتا ہے ہم کتنے بد قسمت ہے کہ قدرت ہر سال ہمیں پیغام پہنچاتی ہے کہ پانی بہت ہے بس تم اس جمع کرنے کا بندوبست کر کے دکھاؤ لیکن ہم کچھ سیکھنا ہی نہیں چاہتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments