کیا آپ اندر سے خالی ہیں؟


مجھ سے میرے کلینک میں ایک ستر سالہ مریض ملنے آیا۔ کہنے لگا
میرے پاس سب کچھ ہے۔
ایک بڑا سا گھر
ایک قیمتی کار
ایک خوبصورت کشتی
اور شہر سے دور ایک کاٹیج

میں نے چند سال پیشتر اپنے بزنس سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی کیونکہ میرے پاس بینک میں اتنی رقم جمع ہو گئی تھی کہ میں بقیہ عمر آرام سے زندگی گزار سکتا تھا۔ مجھے کوئی مالی پریشانی نہیں ہے لیکن پھر بھی ایک مسئلہ ہے۔

اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ سب کچھ ہونے کے باوجود میرے من میں ایک خلا ہے۔ میں خوش نہیں ہوں۔ ایک عجب سی بے سکونی ہے جو مجھے دن رات گھیرے رکھتی ہے۔ سب کچھ ہونے کے باوجود یوں لگتا ہے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ میں اپنے آپ سے اکثر پوچھتا ہوں

کیا میں اندر سے خالی ہوں؟
اس ستر سالہ مرد مریض کی طرح مجھ سے ایک ساٹھ سالہ عورت ملنے آئیں۔ کہنے لگیں

جب تک میرے بچے چھوٹے تھے میں مصروف رہا کرتی تھی۔ ان کی خدمت کیا کرتی تھی لیکن اب وہ بڑے ہو گئے ہیں۔ ان کی تعلیم مکمل ہو گئی ہے۔ ان کو اچھی اچھی ملازمتیں بھی مل گئی ہیں۔ میرا بیٹا بینک کا مینیجر بن گیا ہے اور میری بیٹی کالج کی لیکچرار بن گئی ہے۔ دونوں نے اپنے اپنے گھر خرید لیے ہیں۔ لیکن جب سے وہ میرے گھر سے گئے ہیں میرا گھر خالی خالی لگتا ہے اور میں اداس رہتی ہوں

میں اپنے آپ سے پوچھتی ہوں
میری زندگی میں کس چیز کی کمی ہے؟
کیا میں اندر سے خالی ہوں؟

میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بہت سے ایسے مردوں سے مل چکا ہوں جو ریٹائرمنٹ کے بعد اداس ہو گئے۔ اسی طرح بہت سی ایسی عورتوں سے بھی مل چکا ہوں جو جب تک ماں بن کر بچوں کا خیال رکھتی تھیں خوش تھیں لیکن جب وہ بچے جوان ہوئے اور پرندے بن کر آڑ گئے تو ان کا گھونسلہ خالی ہو گیا اور وہ عورتیں SYNDROME EMPTY NEST کا شکار ہو گئیں اور دکھی ہو گئیں۔

ایسے لوگوں کی زندگی سے واضح تھا کہ ایسے مردوں کی شناخت ان کے کام سے تھی اور ایسی عورتوں کی زندگی کی معنویت ماں بننے کے کردار میں تھی۔

مردوں کو ان کا کام اور عورتوں کو ان کے بچے مصروف رکھتے تھے لیکن جب یہ دونوں چیزیں ان کی زندگی سے چلی گئیں تو ان کی زندگی میں خلا پیدا ہوا اور ان کا اپنے من کے خالی پن سے پہلی بار تعارف ہوا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
یہ اندر کا خالی پن کیا ہے؟
کیا یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے؟

چند دہائیاں پیشتر ماہرین نفسیات ایک مخصوص نفسیاتی عارضے کی تشخیص کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اس مسئلے کا نام

INVOLUTIONAL MELANCHOLIA

رکھا ہوا تھا۔ یہ ایک ایسی اداسی کا نام تھا جو مردوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد اور عورتوں کو سن یاس کے بعد ہوا کرتی تھی۔ عورتیں جب مینوپاز کو پہنچتی ہیں تو ان کے جسم میں ہارمونز کی کمی بھی ان کی اداسی کو بڑھا دیتی ہے۔

جب مردوں اور عورتوں کی زندگی کی شام آتی ہے اور وہ مڑ کر اپنی گزری ہوئی زندگی پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو ان میں سے بعض کو احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے

زندگی کے غلط فیصلے کیے
غلط ملازمتیں کیں
غلط لوگوں سے شادی کی
اپنے نوجوانی کے خوابوں کو نظر انداز کیا۔
اپنے خوابوں کو معاشرے کی روایتوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔
ساری عمر وہ نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا اور وہ کرتے رہے جو انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔

انہیں احساس ہوا کہ ان کی زندگی ایک کار زیاں سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھی۔
اس احساس کے بعد ان کا اپنے اندر کے خالی پن سے تعارف ہوا۔

میں ایسے مردوں اور عورتوں سے کہتا ہوں کہ زندگی کی شام میں انسان کو ایک اور موقع ملتا ہے کہ وہ
ایک نیا جنم لے
نیا مشغلہ اپنائے
نئی مصروفیات تلاش کرے
نئے دوست بنائے
اور
زندگی میں نئے معنی تلاش کرے۔

جو لوگ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ان کا بڑھاپا نفسیاتی طور پر خوشحال اور صحتمند گزرتا ہے لیکن وہ جو ماضی کا سوچ سوچ کر کف افسوس ملتے رہتے ہیں وہ دکھی ہو جاتے ہیں اور ان کا اندر کا خالی پن ان کی زندگی میں بھی خلا پیدا کر دیتا ہے۔

میں نے جب اپنے ستر سالہ مریض کو مشورہ دیا کہ وہ کچھ وولنٹیئر ورک اور خدمت خلق کرے تو اس نے میرے مشورے پر عمل کیا۔ اب وہ ہفتے میں دو دفعہ ایک ایسے سینٹر میں جاتا ہے جو بے گھر لوگوں کو ایک ڈالر کی قیمت پر لنچ اور ڈنر کھلاتے ہیں۔ کہنے لگا ایک ڈالر دینے سے ان بے گھر لوگوں کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی۔ وہ نہیں سمجھتے کہ انہیں بھیک مل رہی ہے۔ کہنے لگا میں نے بڑھاپے میں یہ سبق سیکھا ہے کہ ہم جن لوگوں کی خدمت کرتے ہیں ہمیں ان کی عزت نفس کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ اس خدمت خلق نے اس کے اندر کے خالی پن کو کم بھی کیا اور اس کی زندگی کو بامقصد بھی بنایا۔

اسی طرح میرے مشورے پر اس خاتون نے بچوں کے گھر سے رخصت ہونے کے بعد سہیلیوں کا ایک نیا حلقہ بنایا ہے۔ وہ سہیلیاں مل کر

سیر کرنے جاتی ہیں
شاپنگ کرتی ہیں
کھانے پکاتی ہیں
گانے سنتی ہیں
فلمیں دیکھتی ہیں
گپیں لگاتی ہیں
دور دراز شہروں کا سفر کرتی ہیں اور
زندگی سے محظوظ و مسحور ہوتی ہیں۔
وہ ہفتے میں ایک دن نئے کھانے بنا کر بے گھر عورتوں کو کھلاتی ہیں۔

میری نگاہ میں
نیا مشغلہ اپنانا چاہے وہ شاعری ہو موسیقی ہو ڈراما ہے یا کوئی اور فن لطیفہ
دوستوں کا نیا حلقہ بنانا
انسانوں کی خدمت کرنا
اپنے ماضی کو قبول کرنا
نوجوانی کے خوابوں کو پورا کرنا
اپنے آپ کو اپنی تمام تو خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کرنا
اور
اپنے حال سے سمجھوتا کرنا
ہمارے اندر کے خالی پن کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔

میں بزرگ مردوں اور عورتوں سے کہتا ہوں کہ ان کے پاس زندگی کا تجربہ بھی ہے اور دانائی بھی وہ اس دانائی کو اگلی نسل کو تحفے کے طور پر دے سکتے ہیں تا کہ وہ انہیں ایک بہتر انسان بننے میں مدد کر سکے۔

آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟
کیا آپ بھی اندر سے خالی ہیں؟

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments