معاشی چیلنج اور شہباز شریف کا دورہ قطر


میں ڈبلیو ایل پائن نے گھانا اور آئیوری کوسٹ کے صدور کی 1960 میں لگائی گئی ایک شرط کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ دیکھیے کہ کون زیادہ اور جلدی ترقی کرتا ہے۔ دونوں ممالک نے اس سال آزادی کا لڈو کھایا تھا۔ گھانا قدرتی وسائل سے مالا مال مگر سوشلسٹ جبکہ آئیوری کوسٹ آزاد معیشت مگر گھانا کے مقابلے میں قدرتی وسائل سے محروم ملک۔

انیس سو بیاسی میں جب موازنہ کیا گیا تو آئیوری کوسٹ کا کم آمدن والے طبقہ بھی گھانا کی مڈل کلاس سے 20 گنا زیادہ آمدن رکھتا تھا لیکن پھر آئیوری کوسٹ کے طاقتور طبقات میں ملک کو ترقی دینے کے لیے نئے ”اچھوتے آئیڈیاز“ پر عمل کا رجحان بڑھا جس میں معیشت سرفہرست رہی جبکہ گھانا نے معیشت پر حکومتی کنٹرول کو کم کیا۔ نتیجے کے طور پر آئیوری کوسٹ پیچھے اور کھانا آگے نکل گیا

جب 2013 کے انتخابات کے بعد تینوں سیاسی جماعتوں کی حکومتیں وفاق اور صوبوں میں پاکستان میں قائم ہوگی تو راقم الحروف نے اپنے کالموں میں گزارش کی تھی کہ تینوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے کارکردگی دکھانے کی شرط لگا لیں اور اگلے انتخابات میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر جائیں مگر بدقسمتی سے دھرنا سیاست شروع کر دی گئیں اس کے باوجود مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے سبب سے پاکستان تیز رفتاری سے دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں اپنی جگہ بنانے کی جانب رواں دواں تھا مگر پھر ایک ”اچھوتے آئیڈیا“ کے تحت بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی آڑ میں جولائی 2017 میں جمہوریت و معیشت پر ایسی کاری ضرب لگائی گئی کہ اس کے بعد ان دونوں کے ساتھ جو ہوا سو ہوا مگر اب دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں جگہ بنانے کی طرف بڑھنے والا ملک شدید معاشی عدم استحکام کا شکار ہے۔

اور بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ ابھی بھی ان معاملات کو سیاست کی قربان گاہ میں قربان کرنے سے اجتناب نہیں کیا جا رہا ہے عمران خان اور ان کے معتمدین یہ بات پوری شد و مد سے بیان کر رہے ہیں دعوی کر رہے ہیں اور درحقیقت کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان کو کوئی دوسرا ملک معاشی طور پر سہارا نہ دے۔

وزیراعظم شہباز شریف کے قطر کے دورے سے قبل بھی یہی پروپیگنڈا جاری تھا حالانکہ قطر پاکستان کا دیرینہ دوست ہے اور تعلقات میں کمی بھی اس وقت آئی جب جان بوجھ کر قطر سے کیے گئے ایل این جی معاہدہ کو ناکام بنایا گیا اور سونے پر سہاگہ یہ کیا گیا کہ پہلے قطر کی جانب سے تعلیم پر منعقدہ ویبی نار میں عمران خان نے تقریر کرنے کا وعدہ کیا مگر بالکل آخری لمحہ پر ایک دوسرے ملک کے دباؤ میں آتے ہوئے تقریر کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ فطری طور پر قطر کو اس سے صدمہ پہنچا اور تعلقات کی گرمجوشی پر فرق پڑا۔

ورنہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ قطر پاکستان کو ایک خاص اہمیت دیتا ہے اور یہ بھی ذکر کیا تھا کہ وہ فٹ بال ورلڈ کپ کے لیے سکیورٹی معاہدہ کرنے کے لیے پہلی ترجیح پاکستان ہی کی رکھتا ہے کیونکہ امریکہ اور مغربی ممالک بشمول دیگر مسلم ممالک کے وہ کسی کی فوج کو یہ ذمہ داریاں دینے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا ہے با الفاظ دیگر وطن عزیز کے علاوہ کسی پر اس حوالے سے اعتماد نہیں کر سکتا ہے۔

قطر اور پاکستان کے درمیان جس اعتماد کو ٹھیس گزشتہ حکومت نے پہنچائی تھی اس خلیج کو پاٹنے کے لئے اسی شخص نے کلیدی کردار ادا کیا کہ جس کا ایک ہی ”جرم“ خوردبین لگا کر تلاش کیا گیا تھا کہ اس نے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی تھی۔ قطر بھی بری طرح سے محسوس کر رہا تھا کہ تعلقات کی جو نہج دونوں برادر ممالک میں ہونی چاہیے وہ نہیں رہی۔ اس صورتحال کا تدارک کرنے کی غرض سے پاکستان میں قطر کے سفیر شیخ سعود الثانی نے بھی بہت متحرک کردار ادا کیا۔ پھر شہباز شریف کی انتھک محنت کا اعتراف ایک دنیا کرتی ہے ان تین وجوہات کے سبب سے قطر میں پاکستان کو زبردست سفارتی و معاشی کامیابی حاصل ہوئی

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک ان اقدامات کو بروقت نتیجے تک پہنچانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کریں۔ پاکستان اس سے قبل سی پیک کے معاملات میں فوکل پرسن بنانے کا کامیاب تجربہ کر چکا ہے اس تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر توقیر شاہ کو قطر سے ان معاملات میں فوکل پرسن مقرر کر دینا چاہیے۔ وہ ڈبلیو ٹی او میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے معاشی معاملات میں بھی شاندار کارکردگی دکھا چکے ہیں ان کا اور قطری سفیر کا براہ راست مستقل طور پر رابطہ رہنا چاہیے تاکہ اگر کہیں بھی کوئی رکاوٹ سامنے آ جائے تو اس کو بغیر وقت ضائع کیے ختم کیا جا سکے۔ کیونکہ معاملہ صرف قطر تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ ہمارے گردوپیش میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں یا عنقریب ہونے والی ہیں۔

قطر میں حالیہ کامیابیوں کو ایک مثال کے طور پر سامنے رکھنا چاہیے کیونکہ امریکہ اور ایران دوبارہ معاہدے کے قریب ہیں اور اسی لیے اسرائیل کی چیخیں بھی نکلنا شروع ہو گئی ہے۔ اگر ایسا ہو گیا جس کا بہت امکان ہے تو پاکستان کو توانائی کے بحران سے نمٹنے سے لے کر معاشی استحکام تک اس صورتحال سے کیسے فائدہ اٹھانا ہے اور عالم عرب میں بھی اپنی حیثیت کو کیسے برقرار رکھنا ہے یہ بہت بڑا چیلنج بس آیا ہی چاہتا ہے۔ اس چیلنج سے عہدہ برا ہونے کے لیے ابھی سے زبردست حکمت عملی تیار کرنے کے لئے تیاریوں کی ضرورت ہے اور اس حکمت عملی کو دفتر خارجہ کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ بابوؤں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا ہے ورنہ ہم گیم ہار جائیں گے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments