سیلاب: قدرت کی آزمائش یا ناقص حکمت عملی


موسمیاتی تبدیلی ایک ایسی آفت ہے جس سے بنی نوع انسان کو اس صدی میں سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ موسمیاتی تبدیلی آخر ہے کیا اور اس کے خطرناک نتائج پر نظر ڈالتے ہیں۔

کسی علاقے کی آب و ہوا اس کے کئی سالوں کے موسم کا اوسط ہوتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اس اوسط میں تبدیلی کو کہتے ہیں۔

آب و ہوا میں قدرتی تغیرات ہوتے رہتے ہیں۔ مگر انسانی سرگرمیوں کی قدرت کے کاموں میں بے جا مداخلت سے اب عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ اور یہ عمل پچھلی کئی دہائیوں سے چلتا آ رہا۔ جب سے لوگوں نے تیل، گیس اور کوئلے کا استعمال شروع کیا ہے تب سے دنیا تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہوئی ہے۔ یہ ایندھن بجلی کے کارخانوں، ٹرانسپورٹ اور گھروں کو گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ فوسل فیولز کو جلانے سے گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوتی ہیں۔

فضا میں ایک گرین ہاؤس گیس جو کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے اس کی مقدار انیسویں صدی کے بعد سے تقریباً 50 فیصد اور گزشتہ دو دہائیوں میں اس میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کی ایک اور وجہ جنگلات کی کٹائی ہے۔ جب درختوں کو جلایا جاتا ہے یا انھیں کاٹا جاتا ہے تو عام طور پر ان میں کاربن کا ذخیرہ ہوتا ہے اس کا اخراج ہوجاتا ہے۔ جس سے اوزون کی تہہ کمزور ہوتی ہے اور سورج کی خطرناک شعاعیں زمین تک براہ راست پہنچتی ہیں۔

گزشتہ کئی برسوں سے انسانی آبادی کے لئے اور دیگر کمرشل منصوبوں کے لئے درختوں کی کٹائی کا عمل مسلسل جاری ہے جس سے آکسیجن کی مقدار میں کمی واقع ہو رہی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین گیس، فیکٹریوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسوں سے فضا آلودہ ہو رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا یہ عمل کئی سالوں تک جاری رہتا ہے جس کے ثمرات فوری طور پر انسانی زندگی پر نمودار نہیں ہوتے اس لئے انسان اس کے دیرپا اثرات کو نظر انداز کر کے اپنے مفادات کے لئے قدرتی ماحول کو لگاتار نقصان پہنچاتا رہتا ہے جس کے خطرناک نتائج فصلوں، زراعت اور دیگر وسائل پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں جن میں موسموں کے دورانیے میں تغیر گرمی کی شدت میں اضافہ جس سے گلیشیئرز بہت تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ گرم ہواؤں میں اضافہ جس سے بادل زیادہ مقدار میں سمندر سے پانی کو جذب کرتے ہیں اور خشک علاقوں میں جا کر زیادہ بارشوں کا سبب بنتے ہیں اور سیلاب آتے ہیں۔

سمندر کی سطح میں بھی پانی کی مقدار بڑھتی ہے جس سے قریبی آبادی کا علاقہ شدید متاثر ہوتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی سے خشک سالی اور شدید قحط سالی کی تلوار بھی لٹکنے لگتی ہے۔ اناج کی پیداوار متاثر ہوتی۔ سیلاب آنے کی صورت میں تیار فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں زیادہ تر حصہ بارانی ہے یا وہاں بارشوں پر زراعت کی جاتی ہے۔ ان علاقوں میں مسلسل خشک سالی کی وجہ سے خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور ان علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں، جس سے پاکستان میں موسمیاتی مہاجرین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ ’

ان بارانی علاقوں میں خشک سالی کے بعد ایک طرف تو مسلسل قحط سالی ہے اور دوسری طرف گزشتہ چند سالوں سے ٹڈی دل کے حملوں کے باعث ان علاقوں میں صورت حال ابتر ہوتی جا رہی ہے۔

ایک اور اہم مسئلہ ہیٹ ویو کا بھی ہے۔ کراچی میں 2015 میں آنے والی ہیٹ ویو نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ 2015 کے موسم گرما کے دوران کراچی شہر میں درجہ حرارت 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔ اس ہیٹ ویو کے دوران سرکاری طور پر 1200 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے اپنے وسائل کو ہر ممکن حد تک بروئے کار لا کر جانی اور مالی نقصان میں کمی کے لئے کوشاں ہیں وہاں لوگوں میں اس مسئلے کی آگاہی بھی موجود ہے مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک جہاں شعور اور تربیت یافتہ عملے کی کمی کے ساتھ ساتھ وسائل بھی میسر نہیں جہاں لوگوں کو روزمرہ ضروریات کی اشیاء با آسانی دستیاب نہیں وہاں ان کو موسمیاتی تبدیلی کو سمجھانا اور اس کے اثرات کا ادراک کروانا ایک مشکل مرحلہ ہے۔

برطانیہ کے موسمیاتی ادارے کی تحقیق کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان اور شمال مغربی انڈیا میں موسموں کی شدت کے نئے ریکارڈ قائم ہونے کے امکانات 100 گنا زیادہ ہو چکے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو 2035 تک پاکستان کے گلیشیئر مکمل طور پر پگھل سکتے ہیں۔ پاکستان میں 2010 کے سیلاب نے شدید تباہی مچائی تھی مگر اس کے بعد بھی کوئی مناسب حکمت عملی اور منصوبہ بندی وضع نا کی گئی۔

حکومتی ادارے اور اعلیٰ قیادت باہمی مسائل کم اور سیاسی انتقام میں اتنا آگے نکل چکی ہے کہ ان سنگین مسائل پر توجہ ہی مرکوز نہیں کی جاتی۔ اب وقت ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں باہمی مخالفت کو چھوڑ کر ملک پاکستان اور عوام کو ان ناگہانی آفات سے بچانے کے لئے فوری اقدامات کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی ادارے اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھیں اور ابھی سے اس کے حل کے لئے مناسب حکمت عملی اپنائیں۔ تمام تر انسانی سرگرمیاں جو موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بن رہی ہیں ان کو ترک کیا جائے تاکہ آئندہ سالوں میں مزید تباہی سے بچا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments