پی ٹی آئی کی ٹیلی تھون اور پریوں کے دیس کیلئے عطیات کا عہد


30 اکتوبر 2011 کو مینارِ پاکستان لاہور میں پاکستان تحریک انصاف (PTI) کا پہلا میگا ایونٹ ہوا تو میں نے پی ٹی آئی کو پاکستان کی تاریخ میں بہترین کارکردگی کا حامل ٹروپے کے طور پر تسلیم کر لیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی اداکاری کی پرفارمنس اتنی پختہ ہو گئی کہ اب تو وہ حقیقت سے بھی تجاوز کرتی محسوس ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی پرفارمنس تو بازنطینی تھیٹر کے اس ہیرو کی طرح ہے جو لائٹنگ، میوزک، ڈانس کے پس منظر میں ڈرامے کے عین وسط میں ایک جذباتی خطاب کرتا ہے۔

ہر گزرتے دن پی ٹی آئی ایک بہتر تکنیک کے ساتھ پرفارم کرتی نظر آتی ہے۔ ہر شو کا ایک انوکھا اور پرکشش سکرپٹ ہوتا ہے۔ تازہ ترین اسکرپٹ کا جو خاص چٹکلہ ہے اسے ذرا ملاحظہ کیجیئے: ’’لیڈر ریاست سے بھی زیادہ اہم ہوتا ہے۔‘‘

میں ابھی تک اس مخمصے کا شکار ہوں کہ آخر پی ٹی آئی کی قیادت اس نئے اسکرپٹ کے ذریعے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ میرے خیال میں اس طرح کے اسکرپٹ یا بیانیے کے ذریعے عمران خان کو ’’سب سے عظیم لیڈر‘‘ قرار دینے کا  راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔

جب پی ٹی وی نے ’’ارطغرل غازی‘‘ اردو میں نشر کرنا شروع کیا تو میں نے لکھا تھا کہ عمران خان خود کو آج کا ’’ارطغرل غازی‘‘ قرار دے گا۔ اسی موضوع پر چند دوستوں سے گفتگو کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ ارطغرل غازی کا یہ خیال عمران خان کا نہیں بلکہ کسی اور کی پیداوار ہے جس نے عمران خان کو ’’امت مسلمہ کا عظیم ترین رہنما‘‘ کے طور پر اجاگر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

جب آپ ارطغرل غازی کے (جذبات سے لبریز) مکالمے سنتے ہیں تو آپ اس کے ایسے خیالات، نظریات اور عقائد سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، جن پر سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ ارطغرل غازی ہمیں بتاتا ہے کہ لیڈرز ریاست کو توڑ اور اس کی ازسر نو تشکیل کرسکتے ہیں۔ ارطغرل غازی ہمیں بتاتا ہے کہ لیڈر ریاست سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ارطغرل غازی پاکستان عوام کے ذہنوں کو اس لحاظ سے تیار کرنے کے لیے دکھایا گیا تھا کہ لیڈر ’’نئی ریاست‘‘ کو بناتا ہے اور ’’لیڈر ریاست سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔‘‘ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ غازی کا پہلے سے قائم ریاست کو ختم کر کے نئی ریاست بنانے کا فلسفہ بازنطینی اور منگولوں کے تسلط کے خلاف ایک آزاد ریاست کا قیام تھا اور ہمیں یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ وہ ایک ایسے قبیلے سے تعلق رکھتا تھا جس کی کوئی ریاست نہیں تھی۔

پی ٹی آئی نے اپنے اس نئے بیانیے یعنی “لیڈر ریاست سے زیادہ اہم ہوتا ہے” کی تشہیر کے لیے بہترین وقت کا انتخاب کیا ہے۔ اس صورتحال میں کہ جب ریاست پاکستان اپنی معاشی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، پی ٹی آئی ایم ایف کو خط کے ذریعے پاکستان کو قرض نہ دینے کی سازش کرتی ہوئی بے نقاب ہوئی۔

ہمیشہ کی طرح، پی ٹی آئی ایک اسٹیج پرفارمنس کے ذریعے اپنے اس بیانیے کو فروغ دے رہی ہے کہ لیڈر ریاست سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ گزشتہ رات ہم نے اسی کی ایک جھلک دیکھی۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ریاست سے زیادہ اہم لیڈر قدرتی آفات میں ریسکیو، ریلیف اور بحالی کا عمل چند گھنٹوں میں کر سکتا ہے اور اس طرح کا عظیم امر انجام دینے کے لیے کسی انتظامی اسٹرکچر، خارجہ امور یا بیوروکریسی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک حقیقی ہیرو کو زندگی سے بھی بڑے اہداف جیسا کہ ’’حقیقی آزادی‘‘ پر توجہ مرکوز رکھنا ہوتی ہے اور چھوٹے موٹے معاملات جیسا کہ موت اور تباہی ان عظیم مقاصد کے حصول میں عارضی رکاوٹ ہوتے ہیں۔

عمران خان پہلے تو اس بات کے قائل ہی نہیں تھے کہ سیلاب کی صورتحال میں “ایک حقیقی ہیرو” کو ریاستی وسائل سے منعقد ہونے والے عوامی اجتماعات کو بند کرکے سیلاب زدگان کی مدد کرنی چاہیے۔ انہوں نے حسب روایت اس تجویز کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ موقف اپنایا کہ لوگوں سے پیسے لینے کا وہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور وہ ایک رات میں اتنا پیسا جمع کرسکتے ہیں کہ دوسرے ’’چور‘‘ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔

جہلم کے جلسہ عام کی شرمناک ناکامی کے بعد عمران خان نے ٹیلی تھون کے ذریعے ایک تھیٹر کا انعقاد کیا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ ریلیف اور ریسکیو مشن ایک چٹکی بجانے سے مکمل ہوجائیں گے۔ اس مقصد کے لیے تمام کرداروں نے گزشتہ رات شاندار پرفارمنس دی۔ پیسہ بارش کی طرح برس رہا تھا۔ عمران خان نے صرف تین گھنٹوں میں 500 کروڑ روپے جمع کر لیے۔ اس پرفارمنس کے دوران ایک صاحب نے نام نہ ظاہر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تیس لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا۔ اس شخص کا نام کبھی ظاہر نہ ہوتا اگر وہ پرانے زمانے کی طرح رقم کی تھیلی کسی ضرورت مند کے دروازے پر رکھ دیتا لیکن آج شرط یہ ہے کہ ایک تو پیسہ شفاف ہواور دوسرا وہ صرف بینک کے ذریعے ہی منتقل کیا جائے۔ اس طرح اس شخص کی اس نیک کام میں گمنام رہنے کی خواہش میں اسی طرح گڑبڑ ہے جس طرح نام نہاد ڈرامے میں بہت سی خامیاں نظر آرہی تھیں۔

تھیٹر بلاشبہ دل موہ لینے والا تھا تاہم اس کی تیاری میں بہت سی خامیاں صاف عیاں تھیں۔ عمران خان کے اس ڈرامے سے یہ نکتہ چھوٹ گیا کہ پیسے کے پاؤں ہوتے ہیں اوراگر ان کا پیچھا کیا جائے تو آپ کو صرف جھوٹ نظر آئے گا۔ وہ دن دور نہیں جب ٹیلی تھون کا پردہ چاک ہوکر سچ کو سامنے لے آئے گا۔ لیکن کون ان باتوں کی پروا کرتا ہے۔ عمران خان جیسا جان سے پیارا ہیرو جس کے مقاصد بھی جان سے بڑے ہیں، ان اخلاقی پہلوئوں پر نظر رکھنا ان کا کبھی بھی دردسر نہیں رہا۔ ایسی سب باتوں پرسمجھوتا کیا جاسکتا ہے، عزت نفس اور وقار کمزوروں کی گھٹیا خصلتیں ہیں اور تاریخ کمزوروں کو فراموش کر دیتی ہے۔ تاریخ صرف جنگجو اور لیجنڈرز ہی بناتے ہیں۔

عمران خان جھوٹ بولنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے نہ انہیں اس جھوٹ کے بے نقاب ہونے کے بعد کسی شرمندگی کی پروا ہے۔ تاریخ انہیں ایک لیجنڈ کے طور پر یاد رکھے گی البتہ ان کا چہرا بگڑا ہوا ہے گویا حیوانات و نباتات کا مرکب۔ بہرحال میرا خیال ہے کہ عمران خان بے شرمی سے اس طرح کے عجیب و غریب تصورات کے ذریعے اپنی دکان چمکائے رکھیں گے کیونکہ چہرہ ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔

عمران ایک منظم منصوبہ بندی کے ذریعے ہر اس عمل کو سبوتاژ کررہے ہیں جو ریاست کو چلانے کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا عزم اتنا پختہ ہے کہ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران بھی اپنے بیانیے سے پیچھے نہیں ہٹے اور ہر اس شخص کو ہدف تنقید بنائے ہوئےہیں، جو ریاستی امور کو چلانے میں مصروف ہے۔ عمران خان کا صرف ایک مقصد ہے اور وہ یہ ہے کہ ریاست کے آئین کی تحقیر کی جائے۔ دراصل اس کے ذریعے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ریاستی مشینری غیرضروری کام کر رہی ہے جو اہم ہیں نہ ضروری۔ وہ چاہتے ہیں کہ سارا پیسا اور وقت ان کے ریاست کے ٹکڑے کرنے کے کاز کے کے لیے صرف ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق ریلیف کے لیے شور مچانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس کے لیے پیسا صرف چند گھنٹوں میں اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور ریسکیو کا کام تو صرف چٹکی بجانے سے ہو جائے گا۔ لہذا ریاست جو کچھ کر رہی ہے وہ بے سود ہے۔

ان کے مطابق اول تو ریاست کا تو وجود ہی نہیں ہونا چاہیے۔ ریاستی امور، خارجہ پالیسی، جیو پالیٹکس اور جیو اکنامکس اسی وقت قابل عمل ہوسکتے ہیں جب صحیح ریاست کی تعمیر ہوگی۔ اس وقت تک عمران خان کے نزدیک ہر چیز مضحکہ خیز ہے۔ وہ شائستگی اور بالغ النظری کا مظاہرہ صرف اسی وقت کریں گے جب حقیقی آزادی کی حامل نئی ریاست عمل میں آئے گی۔ اگر ہم ان کے زندگی سے بڑے مشن کو ذہن میں رکھیں تو ان کے اس قسم کے لاابالی لائف اسٹائل اور عجیب و غریب پرفارمنس کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ عمران خان تاریخ کو اٹھاتے اور چنتے ہیں جیسا کہ انہوں نے لیجنڈ ہونے کا خیال چنا لیکن یہ بھول گئے کہ زیادہ تر لیجنڈ افسانوی یا فرضی ہوتے ہیں جب تک کہ وہ کوئی مافوق الفطرت طاقتوں کے حامل نہ ہوں۔ میں ان کے غیر حقیقی ہونے کی مکمل طور پر قائل ہوں تاہم حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا اور حقیقت کسی کو لیجنڈ نہیں بناتی بلکہ اصل چہرے کو بری طرح بے نقاب کرتی ہے۔

جوں جوں دن گزرتے جائیں گے ان کے شرمناک جھوٹوں پر وقت کی دھول پردہ ڈال دے گی جس پر وہ نئے جھوٹ لکھتے جائیں گے۔ اسی طرح پرفارمنس کا عمل جاری رہے گا۔

بشکریہ:

https://dnd.com.pk

شازیہ انور چیمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازیہ انور چیمہ

Shazia Anwer Cheema is a Prague-based author, columnist, and foreign affairs expert who writes for national and international media. She is a doctoral student and researcher in semiotics and philosophy of communication at Charles University in Prague. She can be reached at her: Twitter @ShaziaAnwerCh Email: shaziaanwer@yahoo.com

shazia-anwer-cheema has 1 posts and counting.See all posts by shazia-anwer-cheema

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments