نومبر کی آمد


اپوزیشن میں عمران خان کی مقبولیت کا گراف بلند جب کہ حکومت میں مسلم لیگ ن کا گراف پست ہے۔ گرچہ عمران خان نے ایسا کوئی غیر معمولی کارنامہ سرانجام نہیں دیا جو اُن کی حمایت کا پرچم بلند کرتا۔ بلکہ فوج اور عدلیہ کے خلاف تحریک انصاف کی میڈیا مہم پر اُن کے اپنے حامیوں نے بھی تنقید کی ہے۔ دراصل یہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ہے جو آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات کی وجہ سے عوامی عتاب کے نشانے پر ہے۔یہی وجہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز نے اعلانیہ طور پر وزیر اعظم شہباز شریف حکومت کی معاشی پالیسیوں سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے‘’دھشت گردی“ کا الزام لگانے کا بھی عمران خان کو فائدہ ہوا ہے۔ انسداد دھشت گردی قانون جوبھی کہتا ہو،اور چاہے وہ اس کا اطلاق ایسی صورت حال پر ہوسکتا ہو، لیکن عوام کی نگاہ میں یہ الزام محض انتقامی کارروائی ہے۔ ایک مقبول سابق وزیر اعظم کا جذباتی عوامی جلسے کے دوران ”شرپسند“پولیس افسران اور ”متعصب“ جج کے خلاف ”کارروائی“ کرنے کے اعلان اور نقاب پوش افراد کا کسی نظریاتی یا سیاسی جواز پر معصوم شہریوں کے درمیان خود کو دھماکے سے اُڑا لینے میں کوئی مماثلت نہیں۔

بایں ہمہ، عمران خان کے سیاسی عزائم کے سامنے سنگین چیلنجز کھڑے ہیں۔ اُن کے خلاف کم از کم پانچ اہم کیس ہیں، اور وہ ان میں سے کسی ایک میں ”ناک آؤٹ“ ہوسکتے ہیں، قطع نظر اس کے کہ اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ کا جھکاؤ ان کی طرف ہے،اور اس کی وجہ وہی ہے جس نے اُنھیں عوامی مقبولیت دی ہے، یا جس کی وجہ سے پی ڈی ایم میں شامل اہم عناصر غیر مقبول ہیں۔

عمران خان پر توہین عدالت کے تین کیس ہیں جن میں الزامات کی توعیت ان سے کہیں زیادہ سنگین ہے جتنی نہال ہاشمی، طلال چوہدری اور دانیال عزیز کے کیسز میں تھی۔ ان تمام سیاست دانوں نے غیر مشروط معافی مانگی لیکن سپریم کورٹ نے پانچ سال کے لیے الیکشن لڑنے سے نااہل کردیا۔ عمران خان کے کیس میں تو فواد چوہدری نے کہہ بھی دیا ہے کہ وہ معافی نہیں مانگیں گے۔اس نے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے مشکل پیدا کردی ہے کیوں کہ اب عوام عمران خان کسی کا سابق کیسز کے ساتھ موازنہ کریں گے، اور پھر عدالت کے جھکاؤ کو نوٹ کیا جائے اور اس پر بحث ہوگی۔

دیگر کیسز کا تعلق توشہ خانے سے ہے جس سے کی جانے والی خریداری عمران خان کی ٹیکس ریٹرن میں ظاہر نہیں کی گئی، یا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ممنوعہ فنڈنگ پر رپورٹ جس میں عمران خان کے حوالے سے کئی بنک اکاؤنٹس کا انکشاف ہوا ہے۔ ان میں موصول ہونے اور نکالی جانے والی رقوم کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ یہاں مجرم قرار دینے کا پیمانہ نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا کیس ہوگاجس میں اُنھوں نے ایسی آمدنی اپنی ٹیکس ریٹرن میں ظاہر نہیں کی تھی جو اُنھوں نے اپنے بیٹے سے موصول ہی نہیں کی تھی۔

خان کے مسائل کے سوتے اُن کے اسٹبلشمنٹ کے سابق حامیوں کی طرف سے پھوٹتے ہیں۔ عمران خان اپنی حکومت ختم کرنے پر ابھی تک اُنھیں ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ اس نے دوطرفہ ناراضی کو تلخی میں تبدیل کردیا۔ اس پر اسٹبشلمنٹ کو نئے ”متبادل“ تلاش کرنا پڑے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کو ماضی میں اسٹبلشمنٹ نے چلتا کیا تھا، لیکن پھر انھوں نے اپنی تلخی ختم کر کے ایک دوسرے کو گلے سے لگا لیا۔

یہ صورت حال دھماکہ خیز انجام کی طر ف بڑھ رہی ہے۔ عمران خان فوری انتخابات چاہتے ہیں تاکہ اپنی مقبولیت سے فائدہ اٹھا لیں۔دوسری طرف نااہلی سے بچنے کے لیے وہ ادھر اُدھر بھاگے پھر رہے ہیں۔ لیکن پی ڈی ایم حکومت اسٹبلشمنٹ کی مدد سے اپنے قدموں پر کھڑی ہے۔ ایک پریشان کن معاملہ جو جذباتی کارڈ کی صورت ابھر سکتا ہے، وہ انتہائی مہنگائی ہے جس نے عوام کو معاشی طور پر بے حال کر دیا ہے، اور دوسرا غیر معمولی سیلاب ہیں جس کی وجہ سے وہ بے گھر اور فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ ایک اور اہم کارڈ عدلیہ کے ہاتھ میں ہے جو عمران خان کو چلتا بھی کرسکتی ہے اور ان کی واپسی کی راہ ہموار بھی کرسکتی ہے۔اگر نومبر میں فوج کی اعلیٰ قیادت کا تسلسل رہتا ہے یا تبدیل ہوتی ہے تو کسی نہ کسی سیاسی دھڑے کے لیے مسائل بڑھ بھی سکتے ہیں۔ اس سے صورت حال مزید پیچیدہ ہوجائے گی۔

ہوسکتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں عمران خان کسی نہ کسی وجہ سے گرفتار کرلیے جائیں لیکن عدلیہ اُنھیں فوراً رہا کر دے گی۔ ممکن ہے کہ وہ توہین عدالت یا بدعنوانی کی پاداش میں انتخابات لڑنے سے نااہل قرار دے دیے جائیں لیکن اپیل کرنے پر اُنھیں ممکنہ طور پر حکم امتناع مل جائے گا۔ لیکن اگر عوام اقتدار کے قلعوں پر حملہ آور نہیں ہوتے تو جب تک اسٹبلشمنٹ پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ کھڑی ہے، اُن کے لانگ مارچ سے کچھ نہیں ہوگا۔ تو ہمارے سامنے بننے والا منظر کیا ہوگا؟

ایک بار جب اگلے ماہ یا اس کے بعد آئی ایم ایف کئی بلین ڈالرز کی کثیر جہتی اور دوطرفہ رقم اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے خزانے میں ڈال دے گا تو اسٹبلشمنٹ کو پی ڈی ایم کی زیادہ ضرورت نہیں رہے گی۔ اگر شریف بھی نومبر میں کسی وعدے سے پیچھے ہٹتے ہیں تو امکان ہے کہ حکومت کو چلتا کیا جائے گا۔ پھر نگران بندوبست کی بساط بچھا کر باقی ضروری کام کر لیے جائیں گے۔ اس کے بعد یہ بحث شروع ہو جائے گی کہ اگلے انتخابات کب ہوں گے اور عمران خان اور نوازشریف کو جمہوری پچ پر کھیلنے کے لیے ایک جیسا میدان کیسے فراہم کیا جائے گا؟ درحقیقت صورت حال اتنی گھمبیر ہے کہ فوج کی اعلیٰ کمان میں تسلسل یا اس میں تبدیلی کی صورت میں کسی بھی جماعت یا رہنما کے لیے نتائج کی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔ تسلسل تحریک انصاف کے لیے پریشانی پیدا کر سکتا ہے۔ تبدیلی مخلصانہ غیر جانبداری کا آغاز کر سکتی ہے۔ یا اس کے برعکس ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس وقت چھڑی کس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

نومبر تک عمران خان ممکنہ طور پر نااہل ہو سکتے ہیں اور پنجاب حکومت بدل سکتی ہے جب کہ وفاقی حکومت نازک دھاگے سے لٹکی رہے گی۔ یا پھر نواز شریف اور عمران خان دونوں کے لیے انتخابی میدان برابر کرتے ہوئے اگلے سال کے اواخر میں تازہ عام انتخابات کا انعقاد ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments