زخمیوں کے لئے پچاس ہزار۔ مرنے والوں کے لئے پانچ لاکھ


اس وقت ہمارے ملک کو تاریخ کے بد ترین سیلاب کا سامنا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے۔ قیمتی جانوں کا نا قابل تلافی نقصان ہوا۔ اب ہم سب ہیں کہ اپنی اپنی جگہ پر بھاگ رہے ہیں، کہیں راشن لے کر، کہیں خیمے لے کر، یا کہیں فنڈ ریزنگ کی خاطر۔ ہزاروں کی تعداد میں افراد، فلاحی تنظیمیں، سیاسی گروہ، سرکاری و غیر سرکاری ادارے، اس نیک کام میں نکلے تو ہیں مگر غیر مربوط۔ بے نظم، بے ترتیب۔

آج جو مشکل سامنے ہے، اس کے حل کے لئے ظاہر ہے یہ سب بھی ضروری ہے جو ہو رہا ہے، مگر یہ قطعاً کافی نہیں ہے۔ یہ اس کا صرف وقتی علاج ہے۔ ہم سب کچھ دن بعد اسی زندگی میں لوٹ جائیں گے جو ہم پہلے گزار رہے تھے۔ ہم یہ ساری تکالیف بھول جائیں گے۔ یاد رکھیں کہ یہ سب نقصان تقدیر کے قاضی کا فتویٰ نہیں ہے۔ یہ ہماری اپنی نا اہلی، بد انتظامی، غیر مناسب حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ یہ حادثہ نہیں ہے، یہ جرم ہوا ہے۔ یہ خدا کا عذاب نہیں ہے بلکہ اس سب نقصان کے ذمہ داران ہیں۔ افراد، ادارے، ہم، آپ۔ سب۔

اگر ہمارا آج خراب ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کل ہم نے اس کے لیے پلاننگ نہیں کی۔ اور اگر ہم آج بھی کوئی حکمت عملی نہیں بنائیں گے، تو آنے والا کل بھی خراب ہی ہونا ہے۔ بلکہ اس بات کا گمان ہے، کہ اور زیادہ خرابی ہو سکتی ہے۔ اس وقت ملک میں کتنے ادارے ہیں جو ذمہ دار ہیں، کہ آگاہ کریں۔ خبردار کریں کہ کیا کیا ہو سکتا ہے۔ لوگوں کو وہ بتاٰئیں جو لوگ کر سکتے ہیں، مگر اہم بات یہ ہے، کہ حکومتوں کو بتائیں کہ ان کو کیا کرنا ہے۔

( حکومتوں کو بھی چاہیے کہ ان کی سنیں ) دنیا بھر میں، طوفان آتے ہیں، سیلاب بھی، زیادہ بارشیں بھی، اور اس طرح کے دیگر مشکلات بھی۔ مگر ان سے نمٹنے کی، ان سے نکلنے کی حکمت علمی کس نے بنانی ہے؟ اگر محکمہ موسمیات بتا تا ہے کہ آنے والے سال بارشیں زیادہ ہونی ہیں، یا اس بار برف پچھلے سال کی نسبت کئی گنا زیادہ پڑنے کی توقع ہے، تو یہ کس کی ذمہ داری بنتے ہی، کو وہ ان سب چیلنجز سے با حفاظت نکلنے کی مکمل تدبیر کرے؟

ڈزاسٹر مینیجمنٹ کے اداروں کا مقصد صرف یہ نہیں بتانا ہوتا کہ کتنی اموات ہوئیں، کتنے لوگ بے گھر ہوئے۔ بلکہ ڈزاسٹرز سے بچنے کے لئے مستقبل کی حکمت علمی بنانے یا پھر بنائے جانے پہ زور دینے کی ذمہ داری بھی اس ادارے کی ہے۔ سب کچھ خدا کے کھاتے مت ڈالئے، کہتے ہیں کی مصیبتوں کی وجہ ہمارے گناہ ہیں، ہاں، مگر یہ گناہ ہیں، ہماری سستی، غیر ذمہ داری، اور بے تدبیری۔ آج دنیا کے بڑے مسائل میں، موسمیاتی تبدیلیاں، فوڈ سیکیورٹی، پانی کے مسائل، کرہ ارض پہ زندگی کی بقا شامل ہیں۔

اگر ہم فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے رہیں گے، تو پھر اس طرح کے نئے نئے حادثات ضرور جنم لیتے رہیں گے۔ ہاں، آج کی ٹیکنالوجی مدد بھی کرتی ہے کہ ان کا پہلے سے ادراک کریں، پھر ان سے نمٹیں۔ ہر دفتر، ہر ادارہ اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ وزیروں، مشیروں کا کام راشن تقسیم کرنا نہیں، بلکہ اس طرح کی زندگی کے لئے پلاننگ کرنا کہ کل کسی کو راشن تقسیم کرنے کی نوبت نہ آئے۔ ترقی یافتہ دنیا میں حادثہ ہوتا ہے، تو وہ اس کے وجوہات جاننے کے لئے پوری توانائی استعمال کرتے ہیں تاکہ پھر وہ حادثہ نہ ہو۔ ہمارے جیسے ممالک میں شام کو خبروں میں سنتے ہیں، کی زخمیوں کے لئے پچاس ہزار اور مرنے والوں کے لئے پانچ لاکھ کا اعلان۔ بس، کام ختم، ذمہ داری پوری۔

نہیں، پلیز، ایسے نہیں۔ حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ آنے والے کل کو بہتر بنانے کے لئے آج پوری کوشش کرے، بہترین حکمت عمل بنائے۔ اس طرح کے حادثات سے بچنے کے لیے موسمیاتی اداروں کی مشاورت سے، یونیورسٹی میں اینوائرنمنٹ کے ماہرین کی رہنمائی میں، پلاننگ کرے، اور اس کو پورا کرنے کے لئے پوری جان لڑا دیں۔

ایک بار پھر میں کہوں گا کی آج اگر ہم تکلیف میں ہیں تو اس کی وجوہات ہیں۔ اس کے بہت سے ذمہ داران ہیں۔ اور ہمارا آج اس لئے بد تر ہے، کہ ہم نے گزرے کل اس کی تیاری نہیں کی۔ اب آج سے کچھ اگر کریں گے تو آنے والے کل کے لئے کچھ اچھے کی امید رکھی جا سکتی ہے، ورنہ پھر وہی سب کچھ۔ زخمیوں کے لئے 50 ہزار، اور مرنے والوں کے 5 لاکھ۔ کام ختم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments