سید علی گیلانی کو خراج تحسین


سید علی شاہ گیلانی کے کا دل پاکستان کے لئے دھڑکتا تھا، وہ اپنے آپ اور اپنے ساتھیوں کو پاکستانی کہا کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمارا ہے، محروم کے یہ الفاظ مسئلہ کشمیر کے حتمی حل تک مقبوضہ وادی میں گونجتے رہیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا، ”ہم نہ صرف پاکستان کے ساتھ سرحدیں بانٹتے ہیں بلکہ جہاں تک ہماری جغرافیائی، ثقافتی اور مذہبی وابستگیوں کا تعلق ہے، ہمارا تعلق بھی پاکستان سے ہے۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ایک مسلمان کے لیے ہندوستان میں رہنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ صحرا میں مچھلی کے لیے رہنا محال ہوتا ہے

مسئلہ کشمیر کے حل میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق سائمن میکارتھی جونز نے اپنی تازہ ترین تصنیف ”The Autonomous Mind: The Right to Freedom of Thought in Twenty۔ First Century“ میں کہا ہے کہ آزادی کی فکر سے لا تعلق ہونے والا اپنے وقار اور اپنی ذات کو کھو دیتا ہے۔ ان الفاظ کے تناظر میں مقبوضہ کشمیر کا ایک ایک فرد باعزت، پروقار اور لائق خراج تحسین ہے، کیونکہ ان نہتے، معصوم اور آزادی کے متوالوں نے ہندوستان کی جمہوری آمریت کو دنیا بھر میں بے نقاب اور رسوا کیا ہے، جس کے پیچھے سید علی گیلانی سمیت ہر حریت رہنما کی کوشش اور انتھک محنت کار فرما ہے،

سید علی گیلانی کے انمول جذبے آزادی نے لاکھوں کشمیریوں کو جدوجہد جاری رکھنے کی ترغیب دی۔ ان کی قیادت کی مثال پر چلنے والوں میں محمد اشرف صحرائی، میاں عبدالقیوم اور آسیہ اندرابی شامل ہیں۔

سید علی گیلانی 29 ستمبر 1929 کو پیدا ہوئے اور انہیں کشمیری مقامی آزادی کی تحریک کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ انہیں بھارتی قابض فورسز نے ایک دہائی سے زائد عرصے تک مسلسل نظربند رکھا مگر وہ اس عظیم شخص کے جذبے کو دبا نہ سکے۔ انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز ایک سکول ٹیچر کے طور پر کیا اور بعد میں کشمیر کی سب سے بڑی مذہبی اور سیاسی جماعت گیلانی کے کشمیریوں کے جائز مقصد کے لیے طویل اور غیر یقینی سفر میں شمولیت اختیار کی جس کا باقاعدہ سیاسی کیرئیر شروع ہونے سے پہلے ہی جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے شروع ہوا۔

1952 میں سید علی گیلانی نے کشمیر کی آزادی کے لئے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا، انھوں نے مقبوضہ علاقے میں بھارتی حکمرانی کی مخالفت کرنے پر 15 سال بھارت کی مختلف جیلوں میں گزارے۔ قید کے دوران انہیں جسمانی اور ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا گیا لیکن آخری سانس تک بھارتی قابض افواج کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ گیلانی مضبوط اعصاب کے مالک انسان تھے، وہ بھارتی قابض افواج کے دس لاکھ سے زیادہ اہلکاروں سے زیادہ مضبوط تھے، وہ بھارتی افواج کے لیے خوف کی علامت تھے، بھارتی قابض فوج اس بزرگ سے اس قدر خوفزدہ تھی کہ ان کی میت کو زبردستی فوجی محاصرے میں حیدر پورہ قبرستان میں دفنانے کے لیے لے جایا تھا۔

گیلانی نظریاتی تھے اور کشمیر کے پاکستان کے ساتھ انضمام کے سخت حامی تھے۔ انہوں نے بارہا نئی دہلی کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت پر اس وقت تک بھروسا نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ وہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ نہ کہے، خطے کو غیر فوجی بنا دے اور بامعنی بات چیت کے لیے سیاسی قیدیوں کو رہا کرے، سید علی گیلانی کی پوری زندگی کشمیریوں کے حق خودارادیت کی خاطر بھارت کے ظلم و ستم میں گزری۔

انہوں نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے بھارتی سخت قانون کے نفاذ کی سختی سے مخالفت کی اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ شیخ محمد عبداللہ کو کھلم کھلا چیلنج کیا تھا کیونکہ انہوں نے خطے میں پبلک سیفٹی ایکٹ متعارف کرایا۔ دراصل اس قانون کے تحت کسی کو بھی بغیر مقدمہ چلائے دو سال تک قید ہو سکتی ہے، جس کی سید علی گیلانی نے پر زور مذمت کی، سید علی گیلانی نے 1987 میں صوبائی انتخابات سے قبل مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کی تشکیل میں فعال کردار ادا کیا، نیشنل کانفرنس سمیت تمام مسلم جماعتوں کو بھارت نواز جماعتوں کے خلاف ایک پلیٹ فارم یعنی

مسلم یونائیٹڈ فرنٹ پر اکٹھا کیا، 1987 کے صوبائی انتخابات میں گیلانی سمیت مزید چار امیدوار کامیاب ہوئے، ان شخصیات کی کامیاب پر بھارتی سامراج اس قدر نالاں اور خوفزدہ ہوئے کہ فوری انہیں گرفتار کر کے بھیج دیا گیا، سید علی گیلانی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ انہوں نے 20 سے زائد تصنیفات ہیں، جن میں ان کی سوانح عمری بھی شامل ہے جو انہوں نے پابند سلاسل کے دوران لکھی تھی۔ گیلانی تین بار رکن اسمبلی رہے، کشمیر کی آزادی کی مسلسل جدوجہد کی وجہ سے قابض بھارتی فورس نے انہیں ’ہڑتال آدمی‘ کا لقب دیا،

1990 میں عظیم بزرگ سید علی گیلانی نے جیل سے اس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم، چنراشیکر کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے لکھا کہ ہندوستانیوں نے آزادی کی خاطر سیاسی سطح پر اور مسلح جدوجہد کے ذریعے انگریزوں سے جنگ کی۔ گاندھی نے عدم تشدد اور سیاسی پلیٹ فارم کا استعمال کیا، جب کہ بھگت سنگھ اور نیتا جی سبھاش چندر بوس نے مسلح جدوجہد کا راستہ استعمال کیا۔ تو پھر بھارت کشمیریوں کے اسی حق سے کیسے انکار کر سکتا ہے اور کس طرح انہیں فوجی طریقے سے کچلنے کی کوشش کر سکتا ہے؟ آپ کو یاد ہو گا انگریزوں نے ہندوستانی جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے تھے بعد ازاں انھیں ہندوستان چھوڑنا پڑا۔ انشا اللہ کشمیر میں بھارت کے ساتھ بھی یہی ہو گا۔

انہوں نے

1993 سید علی گیلانی نے خطے کے حق خودارادیت کی تحریک تشکیل دی، جس بھارتی قابض فوج کے سامراجی حربوں کو مکمل ناکام کیا، نہ جھکنے والا گیلانی! نا بکنے والا، گیلانی! کے نعروں نے بھارتی سورماؤں کی نیندیں حرام کر کے رکھ دی تھیں،

سید علی گیلانی نے سابق امریکی صدر بل کلنٹن کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے قلم بند کیا کہ جب تک حکومت ہند مقبوضہ کشمیر کے 12 ملین لوگوں کو ان کا حق نہیں دیتی ہے، جب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر یہ تحریک آزادی جاری رہے گی۔

سید علی گیلانی نے یکم ستمبر 2021 کو سری نگر کے حیدر پورہ میں اپنی رہائش گاہ پر بھارتی پولیس کی حراست میں جام شہادت نوش کیا،

14 اگست 2020 کو پاکستانی صدر عارف علوی نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے ان کی دہائیوں سے جاری جدوجہد کو تسلیم کرنے کے لیے گیلانی کو پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان پاکستان عطا کیا۔ سید علی گیلانی کے انتقال کے بعد بھی کشمیر کی آزادی کی جدوجہد روکنے والی نہیں ہے جو انشا اللہ بہت جلد کامیابی سے ہمکنار ہو گی،

کل جماعتی حریت کانفرنس نے کے مطابق وہ یکم ستمبر 2022 کو کشمیر سید علی گیلانی کی پہلی برسی پر خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے سرینگر کے حیدر پورہ کی طرف بڑے پیمانے پر مارچ کریں

سید علی گیلانی ہندوستانی ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت کی علامت ہیں، ان کی پوری زندگی بھارتی ظلم و ستم اور قبضے کے سامنے ڈٹ کر بسر کی، انہوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے کافی مصائب برداشت کیے ان کی خدمات کو نسلیں یاد رکھیں گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments