اس میں محکمہ موسمیات کا کیا قصور ہے


نازش بروہی ہماری ایک بہت پڑھاکو دوست ہیں۔میری طرح کتابوں اور دستاویزات کو محض وقت گزاری کے لئے نہیں پڑھتیں۔ ان سے کارآمد نتائج بھی اخذ کرتی ہیں۔شادی ان کی میرے ایک عزیز ترین صحافی دوست سے ہوئی ہے۔نازش کو لیکن میں فقط اس کی ”اہلیہ“ کے طور پر متعارف کروانے سے گریز کروں گا۔

بہرحال سندھ حکومت نے حال ہی میں سو صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ تیار کی ہے۔نازش نے اسے حسب عادت بہت غور سے پڑھ کر چند اہم نکات کو ٹویٹر کے ذریعے لوگوں کے روبرو رکھ دیا۔ مذکورہ رپورٹ پی ڈی ایم اے نے تیار کی ہے۔یہ صوبائی حکومت کا وہ ادارہ ہے جو سیلاب جیسی قدرتی آفات کی بابت قبل از وقت عوام اور حکومت کو آگاہ کرنے کا پابند ہے۔ نظربظاہر مذکورہ رپورٹ میں اس نے کھل کر اعتراف کیا ہے کہ وہ سندھ میں ہوئی طوفاں خیز بارشوں اور ان کی وجہ سے نازل ہوئے عذاب کا بروقت ٹھوس تخمینہ لگانے میں ناکام رہا۔ سرکاری محکمے اپنی کوتاہیوں کے اعتراف کے باوجود دیگر سرکاری اداروں کو بھی غفلت کا مرتکب ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پی ڈی ایم اے سندھ نے بھی مذکورہ رپورٹ میں یہ چلن برقرار رکھنے کی کوشش کی اور محکمہ موسمیات کے کاندھوں پر بھی غفلت کی ذمہ داری ڈالنے کی ”باریک واردات“ کا مہارت سے ارتکاب کیا۔

دعویٰ ہوا کہ محکمہ موسمیات سندھ حکومت کو فقط یہ بتاتا رہا کہ اب کے ساون بھادوں میں ”معمول سے زیادہ“ بارشیں ہوں گی۔”معمول“ کو ذہن میں رکھتے ہوئے پی ڈی ایم اے نے اندازہ لگایا کہ ”غیر معمولی“ بارشوں کی بدولت غالباَ 62,500 خاندان بے گھر ہو سکتے ہیں۔ ان کو وقتی پناہ فراہم کرنے کے لئے 70,700 خیمے جمع کرلئے گئے۔ بالآخر جب بارش برسنا شروع ہوئی تو وہ ”معمول“ سے 500فی صد زیادہ تھی۔ اس کے نتیجے میں 30 لاکھ سے زیادہ کنبے دربدری کو مجبور ہوئے جن کی دیکھ بھال کا کوئی انتظام ہی موجود نہیں تھا۔اسی باعث دل دہلادینے والی ہنگامی صورتحال نمودار ہو گئی۔

نازش بروہی مگر کوتاہی کا تمام تر الزام محکمہ موسمیات کے کاندھے پر رکھنے کو ہرگز آمادہ نہیں۔ میں اس کی رائے سے کامل اتفاق کرنے کو مجبور محسوس کر رہا ہوں۔ واجب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ٹھوس اندازے لگانے کے لئے محکمہ موسمیات کے پاس کون سے جدید ترین آلات موجود ہیں۔ سیٹلائٹ، ریڈار اور ٹیلی میٹر وغیرہ اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمیں نہایت خلوص سے یہ جاننے کی بھی کوشش کرنا ہو گی کہ ہماری ”ایٹمی ریاست“ کے پاس اس ضمن میں جو آلات میسر ہیں وہ کونسی ”صدی“ کے لئے کارآمد تصور کئے جا سکتے ہیں۔

نائن الیون کے بعد امریکہ نے جب ”دہشت گردی“ کے خلاف عالمی سطح کی جنگ برپا کرنے کا فیصلہ کیا تو جنرل مشرف کے زیرسایہ چلائی سرکار کو ممکنہ دہشت گردوں کا موبائل فون کے نظام پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے سراغ لگانے والے جدید ترین آلات بھی فراہم کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ زمین سے معلومات اکٹھی کرنے والی ایسی ماچس کی ڈبیا جیسی چپس (Chips) بھی تیار ہوئیں جو کسی کمرے میں چپکا یا پھینک دی جائیں تو اس کمرے کو استعمال میں لانے والے افراد کی نقل وحرکت اور گفتگو بھی ”ماسٹر کمپیوٹر“ بآسانی دیکھ اور سن سکتا ہے۔ مذکورہ چپس ہی بالآخر ڈرون طیاروں کو اپنے اہداف تک پہنچانے میں مددگارثابت ہوئیں۔

دہشت گردی کے خلاف برپاجنگ کے دوران ہی ”موسم“ کا دفاعی ضروریات کے تحت ٹھوس انداز میں جائزہ لینے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ مئی 2011 کے پہلے دن اسامہ بن لادن کے ٹھکانے پر فیصلہ کن حملہ کرنے سے قبل اس دن کے موسم کا بھی تجزیہ ہوا تھا جس کی تفصیلات مذکورہ آپریشن کے بارے میں لکھی کئی کتابوں میں موجود ہیں۔ سیلاب زدگان کی فوری مدد اور بعدازاں بحالی کے لئے ”عالمی اداروں“ کا تعاون طلب کرتے ہوئے ہمیں اپنے محکمہ موسمیات کے لئے ایسے جدید ترین آلات کا تقاضا بھی کرنا چاہیے جو ہمیں ”معمول سے زیادہ“ بارشوں کے ممکنہ اثرات کا ٹھوس انداز میں تخمینہ لگانے کے قابل بنائے۔
لفظ ”تقاضا“ میں نے روانی میں نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر لکھا ہے۔ دنیا یقینا بہت خود غرض ہوچکی ہے۔ نسل پرستی بھی کئی ممالک میں لوگوں کی اکثریت کو جنونی بنائے ہوئے ہے۔ اس کے باوجود اسی دنیا کے خوشحال ترین ممالک میں ایسے بے تحاشہ دردمند افراد اور ادارے بھی بہت خلوص سے موسمی تبدیلیوں کے بارے میں انتہائی فکرمند نظر آرہے ہیں۔ ان کی کاوشوں نے ہالینڈ جیسے ملک کو بھی مجبور کردیا کہ اپنے ہاں ڈیری فارموں کے نظام کو قابو میں لائے۔دودھ اور گوشت فراہم کرنے والے جانوروں کا گوبر ایک حد سے بڑھ جائے تو فضا کو آلودہ بنا دیتا ہے۔ اس کے تدارک کے لئے ہالینڈ کی حکومت اپنے کسانوں کے لئے جانوروں کی تعداد محدود کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ مذکورہ فیصلے سے چراغ پا ہو کر کسان سڑکوں پر نکل آئے۔ بھوسے کے ڈھیر میں آگ لگاتے ہوئے شاہراہوں کو بند کرنا شروع ہو گئے۔ حکومت مگر ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ کئی ترقی یافتہ ممالک میں اب اس امر پر بھی اصرار ہو رہا ہے کہ تیل اور کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے والوں پر ”کاربن ٹیکس“ عائد کیا جائے تانکہ وہ فضائی آلودگی کوناقابل برداشت حد تک لے جانے سے پرہیز کریں اور توانائی کے متبادل ذرائع متعارف کروانے پر نئی سرمایہ کاری مرکوز رکھنا شروع ہو جائیں۔

موسمی تبدیلیوں کے بارے میں عالمی سطح پر پھیلی فکرمندی کے اس موسم میں پاکستان کو یہ پیغام اجاگر کرنے کے لئے ہر ممکن طریقہ استعمال کرنا ہو گا کہ اس جیسا نسبتاًغیر صنعتی ملک فی الوقت عالمی سطح پر پھیلتی ”کاربن“ میں محض ایک فی صد اضافے کے ذمہ دار ہے۔ صنعتی ممالک مگر اجتماعی طورپر جو آلودگی پھیلا رہے ہیں وہ ہمارے گلیشئر تباہ کر رہی ہے۔ اس کی وجہ سے غیر معمولی بارشیں نہ بھی ہوں تب بھی آئندہ چند برسوں کے دوران خوفناک سیلابوں کا برپا ہونا ہمارے ہاں ”معمول“ شمار ہونا شروع ہو جائے گا۔ دنیا کے امیر ترین ممالک اپنے ہاں ”کاربن ٹیکس“ کے ذریعے جو رقوم جمع کریں اس کا مناسب حصہ پاکستان جیسے بے قصور ممالک کو بھی ملنا چاہیے جو فضا کو آلودہ کئے بغیر دیگر ممالک کی منافع خور سفاکی کی بدولت ہر برس اپنے لاکھوں گھرانوں کو دربدر اور بدحال دیکھنے کو مجبور ہو رہے ہیں۔ فوری بنیادوں پر ہمارے محکمہ¿ موسمیات کو وہ جدید ترین آلات تو ہنگامی طور پر فراہم کرنا ہوں گے جو اسے ”معمول سے زیادہ“ بارشوں کا ٹھوس تخمینہ لگانے میں مدد دیں۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments