مہنگائی کا طوفان اور ہمارے حکمران


پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر یہاں لاہور کی مقامی مارکیٹ میں بدھ کے روز سبزیوں کی جاری کردہ قیمتیں اس طرح رہیں، آلو 75 سے 82 روپے فی کلو، پیاز 230 سے 240 روپے اور ٹماٹر 139 سے 146 روپے فی کلو فروخت ہوا، اسی طرح بینگن 76 سے 80 روپے، بھنڈی توری 105 سے 110 روپے، کریلہ 145 سے 150 روپے، گھیا کدو 56 سے 58 روپے، مٹر 270 سے 280 روپے، پھول گوبھی 162 سے 170 روپے، بند گوبھی 162 سے 170 روپے، شلجم 135 سے 140 روپے، میتھی 250 سے 260 روپے، گاجر 105 سے 110 روپے، لیموں دیسی 180 سے 187 روپے، سبز مرچ 145 سے 150، شملہ مرچ 340 سے 350 روپے اور لہسن دیسی 190 سے 200 روپے میں فی کلو۔

کیا یہ زراعت کے ساتھ بھونڈا مذاق نہیں۔

پاکستانی قوم کے کان اچھی خبریں سننے کو ترس چکے ہیں۔ ایک طرف پورے ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں۔ جو عوام بچ گئی ہے اس پر حکومت کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے۔ جیسے اس ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ ملک بنانا اسٹیٹ بنتا جا رہا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا اصول یہاں پر لاگو ہے۔ عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل بنا دیا گیا ہے۔ جو لوگ کاروبار کر رہے ہیں وہ مہنگی بجلی کے سبب اور حکومت کے ناجائز ٹیکسز کی وجہ سے سخت پریشان ہیں۔

22 کروڑ عوام کے چہروں پر پریشانی اور اضطراب کی کیفیت نظر آتی ہے۔ جن والدین کے بچے سکولوں میں پڑھ رہے ہیں ہر روز ان کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھما دیا جاتا ہے جس پر والدین کی جیب سے کچھ نہ کچھ نکالنے کا بہانہ موجود ہوتا ہے۔ ایک چھوٹی سی کاپی جو پندرہ بیس روپے کی ملتی تھی اب اس کی قیمت سو روپے سے بڑھ چکی ہے۔ تعلیم کا حصول مشکل تر بنا دیا گیا ہے۔ 22 کروڑ عوام میں سے اس وقت صرف وہ لوگ خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔

اس ملک کے پانچ ہزار خاندان جنہوں نے جائز ناجائز طریقے سے ملک کی دولت لوٹی ہوئی ہے اور چہرے بدل بدل کر مختلف سیاسی جماعتوں کا سفر طے کرتے ہوئے اور عوام کو بیوقوف بناتے ہوئے اقتدار تک پہنچے اور پھر اپنے ہاتھ خوب صاف کیے۔ حقیقی معنوں میں یہی وہ لوگ ہیں جو عوام کے مجرم ہیں۔ ان لوگوں نے عوام سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے۔ اگر 75 سال میں کوئی ایک بھی مخلص لیڈر ہوتا تو ملک کے حالات یہ نہ ہوتے۔ کیا بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ان لٹیروں کے لئے یہ ملک بنایا تھا۔

اگر آپ اپنے اپنے حلقوں میں اقتدار میں آنے سے پہلے اور اقتدار ملنے کے بعد عوامی نمائندوں کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہو گا یہ لوگ کتنے عوام کے ساتھ مخلص ہیں۔ ہر شہر میں ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور پرائس کنٹرول کمیٹی کے چیئرمین ہر سبزی منڈی اور فروٹ منڈی کا دورہ ضرور کرتے ہیں۔ مگر اس کا مقصد ماسوائے فوٹو سیشن کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ اس ملک میں قیمتیں پہلے بھی بڑا کرتی تھیں لیکن اس کی ایک حد ہوتی تھی اب تو یہ حالات پیدا ہو چکے ہیں۔

صبح قیمت اور ہوتی ہے اور شام کو اور۔ کیا اس ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز ہے۔ ہمارے ملک میں ہر برا عمل دوسروں پر ڈالنے کا رواج ہے۔ اب موجودہ حکومت نے اپنا سارا ملبہ سیلاب پر ڈال دیا ہے۔ کیا حکومتیں اس طرح کام کرتی ہیں۔ اگر سیلاب کی صورت حال تھی تو کیا پڑوسی ممالک سے آلو پیاز ٹماٹر منگوائے نہیں جا سکتے تھے۔ موجودہ حالات میں چوری ڈاکا زنی اور راہ زنی کے واقعات میں بہت اضافہ ہو چکا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ مہنگائی ہے۔

ایک عام آدمی کی اوسط آمدنی ہزار روپے ہے وہ کس طرح ہزار روپے میں گزارا کر سکتا ہے۔ جب کہ اسی آدمی کا بجلی کا بل دس ہزار روپیہ آیا ہو۔ ان حالات کی وجہ سے ملک میں قتل اور خودکشیوں کا رجحان بڑھ چکا ہے۔ ان حالات کی وجہ سے عوام میں قوت برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑے اور یہاں تک کہ ایک دوسرے کو مار ڈالنا عام ہوتا جا رہا ہے۔ یاد رکھیں کسی بھی انسان کے لئے سب سے اہم چیز اس کی زندگی ہوتی ہے اور جب کوئی شخص اپنی زندگی اپنے اوپر بوجھ بنا لے تو پھر وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔

یہ تمام قانون اور ضابطے صرف اس وقت تک ہیں جب تک آپ جینا چاہتے ہیں۔ جب آپ جینا ہی نہیں چاہتے تو پھر انقلاب آیا کرتا ہے اور یہ انقلاب سیلاب کی تباہ کاریوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ سو ڈریں اس وقت سے کہ یہ انقلاب حقیقت کا رخ اختیار نہ کر لے۔ لیکن جیسے ملک کے حالات ہوتے جا رہے ہیں عوام کے لیے جینا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ حالات اسی طرف جا رہے ہیں۔ شاہد ہمارے حکمرانوں کو احساس ہو جائے اور وہ اپنی لوٹ مار اور اپنے اسٹیٹس کے آگے فل اسٹاپ لگا دیں اور ان عوام پر رحم کھائیں اور یہ ارادہ کر لیں بس اب بہت ہو چکا بہت لوٹ لیا اس قوم اور پاکستان کو اب اس ملک اور اس میں بسنے والی عوام کا سوچنا ہے۔ شاید ایسا ہو جائے لیکن مجھے نہیں لگتا یہ لت بہت بری چیز ہے۔ جس کو لگ جائے آسانی سے چھوٹتی نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments