مسئلہ کشمیر، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور پاکستان کا کردار


ہندوستانی مقبوضہ جموں و کشمیر کے عالمی شہرت یافتہ آزادی پسند بزرگ کشمیری رہنما سید علی شاہ گیلانی کی پہلی برسی کے موقع پر ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک خصوصی پروگرام میں شرکت کی دعوت ملی۔ پروگرام کی کمپیئر معروف شاعرہ عائشہ مسعود ملک تھیں جبکہ حریت کانفرنس کے ایک نمائندے شفیع ڈار، آزاد کشمیر کی ماہر تعلیم و شاعرہ ساجدہ بہار اور آزاد کشمیر کے سابق بیورو کریٹ و شاعر اکرم سہیل بھی پروگرام میں شریک تھے۔ اس پروگرام میں کی گئی میری گفتگو پیش خدمت ہے۔

سید علی شاہ گیلانی مقبوضہ کشمیر کی تمام لیڈر شپ میں مقبول ترین رہنما تھے، جن کو عوام میں وسیع پیمانے پر مانا جاتا تھا اور 1986۔ 87 کے مقبوضہ کشمیر کے الیکشن میں حصہ لینے والی آزادی پسند جماعتوں کے اتحاد کے بھی رہنما تھے، جس اتحاد نے اس لئے مقبوضہ جموں و کشمیر اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا کہ اسمبلی میں جا کر ہندوستان سے الحاق کی قرار داد کو منسوخ کیا جائے گا، اسی لئے ہندوستان نے انہیں دھاندلی کے ذریعے ہرایا، اس سیاسی اتحاد کی قیادت بھی سید علی شاہ گیلانی کر رہے تھے۔

سید علی شاہ گیلانی کی پوری زندگی تحریک آزادی میں گزری، انہوں نے کشمیریوں کو جو نعرہ دیا کہ ”ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے“ مقبوضہ کشمیر کے ہر مظاہرے میں لگایا جاتا رہا ہے، گزشتہ ایک، دو سال سے وہ شدید علیل تھے اور ان کو سالہا سال ہندوستان نے جیلوں میں قید رکھا اور وفات سے پہلے کئی سال سے وہ اپنے گھر پہ ہی نظر بند تھے، اس قید کے باوجود میڈیا کے ذریعے وہ تحریک آزادی کی رہنمائی کرتے رہے، ان کی ایک آواز پہ تمام کشمیر بند ہو جاتا تھا۔

پہلے حریت کانفرنس کے دو گروپ تھے جس میں سے ایک گروپ کے وہ قائد رہے، اس کے بعد دونوں گروپوں کے اتحاد پر مشتمل تین رکنی قیادت کی تشکیل ہوئی اور اس تین فریقی قیادت، میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک اور سید علی شاہ گیلانی اور گیلانی صاحب ہی اس تین فریقی اتحاد کی قیادت کرتے رہے، سید شبیر احمد شاہ بھی اس اتحاد میں شامل ہوئے اور سید علی شاہ گیلانی کی قیادت کو تسلیم کیا۔

ہمیں حقائق کو دیکھتے ہوئے بات کرنا چاہیے، چاہے ہمیں وہ حقائق پسند ہوں یا نہ ہوں، حقائق یہ ہیں کہ پاکستان حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں ایران اور افغانستان سے پیاز، ٹماٹر وغیرہ درآمد کیے جائیں گے، اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں نے پاکستان سے سیلاب کی صورتحال میں اشیاء منگوائی جائیں کہ وہ آسان رہیں گی، یہ بات ابھی کابینہ میں زیر غور ہے، ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا۔ یہ ٹماٹر، پیاز تو معمولی باتیں ہیں، اصل بات یہ ہے کہ آج سید علی شاہ گیلانی کی تو پہلی برسی ہے لیکن پاکستان انتظامیہ کی کشمیریوں اور مسئلہ کشمیر سے لاتعلقی اختیار کرنے کی پہلی برسی نہیں ہے، یہ بڑی افسوسناک اور شرمناک صورتحال ہے اور میں اس بات کی ایک بار پھر اعادہ کروں گا کہ پاکستان میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ لائن آف کنٹرول کے پار کے لوگوں کا، کشمیریوں کا معاملہ ہے، جبکہ یہ پاکستان کی سلامتی اور بقاء سے مربوط معاملہ ہے، جس طرح آپ نے پانی کے معاملے میں دیکھا کہ ہندوستان نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں آبی ذخائر کو چینالائیز کر لیا ہے، ہندوستان اب مقبوضہ جموں وکشمیر کے پانی کو پاکستان کے خلاف ”واٹر بم“ کی طرح استعمال کر سکتا ہے۔

ہندوستان کشمیر میں جو کر رہا ہے، یہاں، پاکستان میں بیٹھنے والے اس کا عشر عشیر بھی اندازہ نہیں کر سکتے۔ آپ یہ دیکھیں کہ سید علی شاہ گیلانی وفات پاتے ہیں، ہندوستانی فوج ان کے گھر میں داخل ہو کر ان کے جسد خاکی کو اس وقت اپنے قبضے میں لے لیتی ہے کہ جب کمرے میں گیلانی صاحب کی بیٹیاں، بیٹے ان کی وفات پہ ان کے جسد خاکی کے ارد گرد بیٹھ کر رو رہے تھے، ہندوستانی فوجی زبر دستی ان کی لاش کو باہر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، اس دوران ان کی لاش سٹریچر سے گر جاتی ہے تو ہندوستانی فوج لاش کو گھسیٹ کر کمرے سے باہر لے جاتے ہیں، ان کے جنازے میں، ان کی نماز جنازہ میں، تدفین میں ان کے اہل خانہ کو بھی شامل نہیں ہونے دیا گیا بلکہ ہندوستانی فوجیوں نے خود ہی ان کو دفن کیا۔ وہ جانتے تھے کہ گیلانی صاحب کی نماز جنازہ، تدفین کے لئے کشمیر بھر سے لاکھوں لوگ آئیں گے، ان کو روکنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں سخت ترین فوجی کرفیو لگا دیا گیا اور ایک عرصہ تک اس حوالے سے کرفیو نافذ رہا۔

اب ہم جب پاکستان کی جانب دیکھتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ہندوستان بڑا ظلم، بڑا جبر کر رہا ہے، ہندوستان تو دشمن ہے، وہ سب کچھ کرے گا، اصل بات یہ ہے کہ ہم نے کیا کیا ہے؟ ہم نے تو پسپائی اختیار کی ہے، عملی میدان میں تو چھوڑ دیں، سفارتی سطح پہ آپ بہت کچھ کر سکتے تھے، ہر حکومت یہی کہتی ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر پہ اپنے سفارت خانوں کو متحرک کریں گے، تو کیا آپ نے active؟ آپ نے تو بالکل خاموشی اختیار کر لی۔ مسئلہ کشمیر پہ پاکستان انتظامیہ نے جو لاتعلقی اختیار کی اور کشمیریوں کو جس طرح ظالم اور جابر ہندوستان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، یہ اقدام پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے برابر ہے۔

اب کشمیریوں کی قیادت کون کرے گا؟ کے سوال پر کہا کہ گیلانی صاحب نے اپنی زندگی میں ہی مسرت عالم کو اپنا جانشین قرار دیا تھا، ہر کشمیری سید علی شاہ گیلانی ہے، ہر کشمیری یاسین ملک ہے، یہ کشمیریوں کی تیسری چوتھی نسل ہے، ان کے جینز میں آزادی کا جذبہ شامل ہے، یہ تو ہندوستان نے کشمیریوں کو جیلوں میں رکھا ہوا ہے، گھروں میں قید کر رکھا ہے، ہر کشمیری کے سر پہ ہندوستانی فوجی کی بندوق کی نوک ہے، تھوڑا سا اگر ان کو موقع ملے، انہیں تھوڑی سے بھی سپیس ملے، آپ دیکھئے گا کہ کتنے سید علی شاہ گیلانی پیدا ہوں گے، کتنے یاسین ملک پیدا ہوں گے، ہر کشمیری مجاہد آزادی ہے۔

اس تمام صورتحال میں ”وے فارورڈ“ کیا ہو؟ عالمی سطح پہ بھی چاہے اقوام متحدہ ہو، عالمی برادری ہو، وہ پھر نوٹس لیں گے کہ جب پاکستان کشمیر کے حوالے سے activeہو گا، خرابیوں کی بنیاد یہاں پہ ہے کہ پاکستان میں حاکمیت کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے، یہ جو ہم پاکستان کی تمام خرابیاں بیان کر رہے ہیں، یہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کرتی آئی ہے، پہلے بھی وہی کر رہے تھے اور آج بھی وہی کر رہے ہیں، اس کی وجہ سے اتنی خرابی ہو گئی ہے کہ ان کو ہم blameبھی نہیں کر سکتے، اگر پارلیمنٹ کے ہاتھ میں اختیار ہو تو عوام ان کے کپڑے پھاڑ دیں گے۔ یہاں تو کشمیریوں کو بات بھی نہیں کرنے دی جاتی، اگر پاکستان نے اپنی پالیسیوں کو activeکرنا ہے تو کشمیریوں کی مشاورت کریں، ہماری مشاورت لیں، یہاں تو ہمیں بولنے کی اجازت نہیں ہے، نہ ہمیں میڈیا پہ اور نہ ہی کسی سرکاری فورم پہ۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومتوں کا کردار! انہوں نے، جس طرح ہم پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ، حکومت پہ تنقید کرتے ہیں، آزاد کشمیر کی حکومتوں، سابقہ اور موجودہ حکومت، انہوں نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے، معاہدہ کراچی کے تحت پاکستان نے ڈیفنس اور خارجہ پالیسی آزاد کشمیر حکومت سے خود لے لی تھی، آزاد کشمیر حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ پاکستان حکومت سے پوچھے کہ آپ نے کشمیر کے حوالے سے دفاع اور خارجہ پالیسی ہم سے لے لئے تھے، آپ نے کیا کیا ہے؟ آئندہ کیا کرنے کا ارادہ ہے؟ وہ تو اپنے مقامی مفادات میں محدود ہو گئے ہیں۔ ایک اور استفسار کے جواب میں کہا کہ جب تک پاکستان کشمیر کے معاملے میں activeتھا، ہندوستان کی ہمت نہیں ہوئی، جب پاکستان نے پسپائی اختیار کی تب ہندوستان نے پاکستان میں مداخلت بہت زیادہ کر دی۔

پروگرام کے آخر میں اختتامی جملوں میں کہا کہ آزاد کشمیر اور پاکستان میں جو کشمیری ہیں، جن کا یہ مسئلہ ہے، حکومت پہ ہی تمام باتوں کا انحصار ہوتا ہے، حکومت پر پریشر بڑھایا جائے، خاص طور پر حکومت پاکستان پہ کیونکہ آزاد کشمیر حکومت بھی پاکستان کی ہی مرہون منت ہے، پاکستان کے جو پالیسی ساز ہیں، جو ارباب اختیار ہیں جو پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں، وہ ہماری بات سنیں، انہیں ہماری بات سننا بھی گوارا نہیں ہے، ہماری مشاورت لیں۔

آخر میں عائشہ ملک نے کہا کہ جب ہندوستان نے ٹماٹر پیاز آئیں گے تو اس طرح کی باتوں سے آپ کا نظریہ کمزور ہوتا ہے، اس پر میں نے ان کی بات میں مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ یہاں تو مٹھائیوں کے ڈبوں کے تبادلے بھی ہوتے ہیں، اس پر عائشہ ملک نے کہا کہ مٹھائی کے ڈبے کا تو ایک بار تبادلہ ہو ہے، اس پر میں نے دوبارہ مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ مٹھائی کے ڈبوں کا تبادلہ سال میں کئی بار ہوتا ہے، اس پر میزبان عائشہ ملک نے کہا کہ مٹھائی کا یہ تبادلہ بھی نہیں ہونا چاہیے، کہہ دیں کہ کوئی مٹھائی کا تبادلے وغیرہ نہیں، امن تبھی ہو گا کہ جب کشمیر کا مسئلہ حل ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments