مرزا صاحب کی شرمیلی بیوی


مرزا صاحب نے سر سے پاؤں تک اس کا جائزہ لیا پھر ایک گہری سانس لے کر گویا ہوئے۔
”تو تمہیں باقر صاحب نے بھیجا ہے“
ناصر نے امید بھری نظروں سے مرزا صاحب کو دیکھتے ہوئے کسی قدر ہچکچاتے ہوئے کہا۔

”جی۔ جی انھوں نے بھیجا ہے۔ دیکھیے مجھے ایک سائبان کی اشد ضرورت ہے۔ اگر آپ مہربانی کریں تو میں تا عمر آپ کا احسان مند رہوں گا۔“

مرزا صاحب کسی گہری سوچ میں گم ہو گئے۔ ناصر کچھ کہنا چاہتا تھا مگر خاموش رہا۔ وہ پتھر کے بت کی طرح ساکت کھڑا مرزا صاحب کے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا مگر ناکام تھا۔ مرزا صاحب کا چہرہ سپاٹ تھا۔ مرزا صاحب کے چہرے کی جھریوں سے ان کی عمر کا اندازہ لگانا مشکل نہ تھا۔ ان کی عمر ستر بہتر سے کچھ اوپر ہی رہی ہو گی۔ جسم دبلا پتلا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہڈیوں کے ڈھانچے پر کھال منڈھی ہو۔ رعشہ زدہ جسم کپکپا رہا تھا۔ مرزا صاحب نے کئی ثانیوں کے بعد اپنا کپکپاتا ہوا ہاتھ اٹھایا اور بولے۔

”ناصر میاں! ٹھیک ہے میں تمھیں پے انگ گیسٹ کے طور پر رہنے کی اجازت دے دیتا ہوں لیکن تمہیں میرے گھر کے اصولوں کی کڑی پابندی کرنی ہو گی۔“

ناصر نے اپنا بڑا سا سوٹ کیس فرش پر رکھتے ہوئے اطمینان کی سانس لی اور بولا۔
”مجھے آپ کی ہر شرط منظور ہے۔“
مرزا صاحب اپنے ہلتے ہوئے سر کو مزید ہلاتے ہوئے مسکرا اٹھے۔
”پہلے اصول تو سن لو۔“
”آپ فکر نہ کریں۔ میں ایک شریف آدمی ہوں۔“

”بہر حال میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ رات دس بجے کے بعد اس گھر کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ صبح آٹھ بجے کے بعد ناشتا نہیں ملے گا۔ اس گھر میں تمہارے دوست تم سے ملنے نہیں آئیں گے اور نوکروں سے بھی گھلنے ملنے کی ضرورت نہیں ہے لہٰذا سرونٹ کوارٹرز کی طرف بھی جانے کی ضرورت نہیں ہے۔“

”جی بہتر“ ناصر نے فوراً کہا۔

”ٹھیک ہے میں اپنی بیوی سے کہتا ہوں وہ تمہیں تمہارا کمرہ دکھا دیتی ہے۔“ مرزا صاحب نے یہ کہہ کر اندرونی دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے آواز دی۔ ”

”ردا۔ ردا۔“
چند سیکنڈ خاموشی رہی۔ مرزا صاحب نے دوبارہ آواز دی مگر کوئی آہٹ سنائی نہ دی۔
”میری بیوی بہت شرمیلی ہے شاید اسی لیے سامنے نہیں آ رہی۔“ مرزا صاحب بڑبڑائے۔

”ردا۔ ردا۔“ مرزا صاحب نے اس بار پھیپھڑوں کا پورا زور لگا کر آواز دی اور اس کے نتیجے میں بری طرح کھانسنے لگے۔ تاہم اسی وقت کسی کی آہٹ سنائی دی اور کھلے دروازے سے ایک پر شباب لڑکی اندر داخل ہوئی۔ اس کی عمر اٹھارہ انیس برس سے زیادہ نہیں تھی۔ شوخ رنگ کا لباس پہنے ہوئے تھی، سر پر دوپٹا تھا اور چہرے کے تاثرات سے کچھ گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔ ناصر نے سوچا کہ مرزا صاحب کی بیگم شاید مصروف ہوں گی اس لیے ان کی بیٹی آئی ہے۔

”کیا ہوا مرزا صاحب؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے۔“

”میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم کہاں رہ گئیں تھیں۔ بہر حال یہ ناصر میاں ہیں۔ ہمارے گھر میں گیسٹ کے طور پر رہیں گے۔ انہیں گیسٹ روم دکھا دو۔“

”جی میں۔“ ردا نے گھبرا کر کہا۔
”ہاں کیا حرج ہے۔ تمہیں تو پتا ہے مجھے اٹھنے کے لیے بھی دو تین منٹ درکار ہوتے ہیں۔
”جی بہتر۔“ ردا نے سر پر دوپٹے کو درست کرتے ہوئے کہا۔
”کوئی بات نہیں مرزا صاحب! میں انتظار کر لیتا ہوں۔ آپ اپنی بیٹی کو زحمت نہ دیں۔“ ناصر نے کہا۔
”ردا میری بیوی ہے ناصر میاں“ مرزا صاحب نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
”جاؤ ردا کمرہ دکھا دو“
”آئیے“ ردا نے ناصر کی طرف دیکھا۔

ناصر اس کے پیچھے چل پڑا۔ گیسٹ روم ناصر کی توقعات سے کہیں بہتر تھا۔ اٹیچ واش روم کے ساتھ اچھا خاصا بیڈ روم تھا۔ ردا واپس جا چکی تھی اور ناصر بیڈ پر لیٹا ہوا سوچ رہا تھا کہ آج صبح جب اسے کرائے کے مکان سے نکالا گیا تھا تو اس کے وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ اس کی رہائش کا ایسا عمدہ انتظام ہو جائے گا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے اس کی کمر توڑ دی تھی۔ وہ اپنی قلیل تنخواہ میں بڑی مشکل سے گزارا کرتا تھا۔ دو مہینے پہلے اسے بیماری نے گھیر لیا۔ اچھی خاصی رقم علاج پر لگ گئی اور وہ دو ماہ کا کرایہ ادا نہ کر سکا۔ مالک مکان نے اسے بے دخل کر دیا۔ وہ پریشانی کے عالم میں اپنے دفتر کے دوست باقر کے پاس پہنچا اور یوں مرزا صاحب سے ملاقات ہو گئی۔

ناصر کو اس گھر میں رہتے ہوئے دو تین ہفتے ہو چکے تھے۔ وہ اکثر سہ پہر کو لاؤنج میں مرزا صاحب کے پاس جا کر بیٹھتا تھا۔ کچھ دیر گپ شپ رہتی۔ مرزا صاحب اپنی بیماریوں کا ذکر کرتے اور وہ حالات حاضرہ پر روشنی ڈالتا۔ مرزا صاحب کو شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کا مرض لاحق تھا۔ پرہیزی کھانا کھاتے تھے۔ گفتگو کے دوران ردا چائے بنا کر لاتی اور ناصر چائے پینے کے بعد اپنے کمرے میں واپس آ جاتا۔

ایک روز جب وہ باتوں میں مصروف تھے تو ردا لاؤنج میں آئی۔ خلاف معمول وہ چائے لے کر نہیں آئی تھی۔ مرزا صاحب چونک اٹھے۔

”کیا بات ہے ردا؟ تم چائے نہیں لائیں۔“
ردا کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ اس نے اپنی انگلیاں مروڑتے ہوئے دھیرے سے کہا۔
”مرزا صاحب! میں نے آپ سے کہا تھا کہ مجھے مارکیٹ جانا ہے۔“
مرزا صاحب کو جیسے کچھ یاد آ گیا۔

”ہاں۔ تم نے کچھ ضروری چیزیں خریدنی تھیں مگر آج میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں، کیا ہم کل نہیں جا سکتے۔ آج تو ڈرائیور بھی چھٹی پر ہے۔“

”نہیں۔ آج جانا ضروری ہے۔ آپ کو بتایا تو تھا۔“ ردا نے کہا۔
مرزا صاحب کچھ دیر خاموش رہے پھر ناصر کی طرف دیکھا۔
”ناصر میاں تم ڈرائیو کر لیتے ہو؟“
”جی کر لیتا ہوں ہوں مگر۔“
”اگر مگر کچھ نہیں ردا کو مارکیٹ لے جاؤ“
”لیکن مرزا صاحب۔“ ردا نے کمزور سی آواز میں کہا۔
”ناصر میاں! یہ لو گاڑی کی چابی، کوئی دقت تو نہیں ہے؟“
”جی دقت تو کوئی نہیں۔“ ناصر نے چپ چاپ چابی پکڑ لی اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ردا اس کے پیچھے چل پڑی۔

”جی بتائیے کہاں جانا ہے؟“ ناصر نے گاڑی میں بیٹھنے کے بعد پوچھا۔
”سپر مارکیٹ لے چلیے“ ردا بولی۔
دو تین گھنٹے بعد جب وہ واپس آئے تو مرزا صاحب لاؤنج میں ہی بیٹھے تھے۔
”ہو گئی شاپنگ؟“

”جی مرزا صاحب“ ردا بولی اور ناصر سے شاپنگ بیگز لے کر اندرونی دروازے کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ ناصر بھی مرزا صاحب سے اجازت لے کر اپنے کمرے میں آ گیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ردا اور مرزا صاحب کی عمروں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ نہ جانے ان دونوں کی شادی کیسے ہوئی۔ ابھی تک اس نے اس موضوع پر مرزا صاحب سے کوئی بات نہیں کی تھی۔

اگلے روز جب وہ صبح لان میں ٹہل رہا تھا تو بوڑھا مالی بھی وہاں آ گیا اور پودوں کو پانی دینے لگا۔ ناصر کی اس سے علیک سلیک تو تھی مگر اس سے کبھی زیادہ بات چیت نہ ہوئی تھی۔ مالی بھی اس سے زیادہ بات نہیں کرتا تھا یا شاید مرزا صاحب نے اسے بھی منع کیا ہو گا کہ گیسٹ سے زیادہ بات نہ کرے۔ ناصر اس کے قریب چلا گیا اور یونہی ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔ تاہم وہ زیادہ دیر وہاں نہ رکا کیوں کہ اسے دفتر جانا تھا۔

آہستہ آہستہ اسے مرزا صاحب کے بارے میں معلومات ملنے لگی تھیں۔ اب وہ جان چکا تھا کہ مرزا صاحب کی پہلی بیوی مر چکی تھی۔ ردا ایک غریب گھر کی لڑکی تھی جسے اس کے والدین نے مرزا صاحب سے بیاہنے کے عوض اچھی خاصی رقم لی تھی تا کہ اپنی دیگر تین بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر سکیں۔

ناصر اور مرزا صاحب کی بے تکلفی بڑھتی جا رہی تھی۔ اب وہ روز ان سے ملنے جاتا تو بے تکلفی سے چائے کے ساتھ کھانے پینے کی کسی چیز کی فرمائش بھی کر دیتا۔ ردا کچھ نہ کچھ بنا لاتی۔ وہ ردا کے بھولے بھالے چہرے اور معصوم اداؤں کو دیکھتا تو کبھی کبھی اسے افسوس بھی ہوتا کہ اس کی شادی مرزا صاحب سے ہو گئی۔

ردا کو مارکیٹ لے جانے کی ذمہ داری بھی اس نے سنبھال لی تھی۔ جب وہ شاپنگ سے واپس آتے تو ردا کی آنکھیں چمک رہی ہوتیں۔ ردا کا موڈ خاصا بدل گیا تھا۔ اب وہ مسکرانے بھی لگی تھی۔ مرزا صاحب اس تبدیلی پر خوش تھے۔ وہ کئی بار کہہ چکے تھے کہ ردا خوش رہا کرو۔ ہنستی مسکراتی ہوئی تم بہت اچھی لگتی ہو۔

ناصر جانتا تھا کہ بڑھاپے کا عشق مرزا صاحب کے کمزور اعصاب پر طاری ہے۔ کسی دن ناصر کو آنے میں دیر ہو جاتی تو مرزا صاحب کا فون آ جاتا کہ ناصر میاں! جلدی آئیے ہم آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔

کچھ دنوں سے مرزا صاحب کو نیند بھی اچھی آنے لگی تھی۔ اب شام کو وہ ردا کو بھی پاس بٹھا لیتے تھے۔ ردا شرماتی لجاتی ان کے پہلو میں بیٹھ جاتی اور وہ تینوں دیر تک گپ شپ کرتے رہتے۔ ایک شام گپ شپ کے دوران مرزا صاحب نے کہا۔

”ناصر میاں! کیا بات ہے تمہاری آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں۔“
”کیا واقعی؟“ ناصر چونکا۔
”ردا ذرا دیکھو تو۔“ مرزا صاحب نے کہا۔
”جی۔ سرخ تو ہیں۔“ ردا نے اس کی آنکھوں میں جھانکا پھر آنکھیں جھکا لیں۔
”دیکھا اب تو یقین آ گیا۔“ مرزا صاحب بولے۔

”ان دنوں دفتر میں کام زیادہ ہے اور میں بے خوابی کا بھی شکار ہوں شاید اس لیے“ ناصر نے پر خیال لہجے میں کہا۔

جیسے جیسے دن گزر رہے تھے مرزا صاحب کمزور ہوتے چلے جا رہے تھے لیکن ردا میں نکھار آتا جا رہا تھا۔ وہ پہلے سے زیادہ خوب صورت نظر آنے لگی تھی۔ اب وہ تواتر سے ناصر کے ساتھ باہر جانے لگی تھی کبھی مارکیٹ جانے کے لیے اور کبھی کسی اور بہانے سے۔ جب وہ دونوں واپس آتے تو ردا کے انگ انگ سے سرشاری ٹپکتی۔ ایک دن ردا چائے بنا رہی تھی تو ناصر بے تکلفی سے چائے لانے کے لیے کچن میں چلا گیا۔ ان دونوں کی پر اسرار ہنسی سن کر مرزا صاحب کی تمام حسیات بیدار ہو گئیں۔ ”یہ کیا ہو رہا ہے؟“ انہیں ایسا لگا جیسے ان کی پراپرٹی ان کے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔

گرم چائے کے گھونٹ بھرتے ہوئے انھوں نے اپنے رعشہ زدہ اعصاب کو سکون دینے کی کوشش کی۔

”ناصر میاں! آپ کب تک ہمارے مہمان رہیں گے۔ کیا آپ کو ابھی تک کوئی کرائے کا مکان نہیں ملا؟“ مرزا صاحب نے کہا۔

”جی۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ جلد کوئی مکان مل جائے“ ناصر نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
”مرزا صاحب! ایک خوش خبری ہے۔“ ردا نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا۔
”خوش خبری؟ تو سناؤ ناں۔“ مرزا صاحب چونک اٹھے۔

”میں امید سے ہوں۔“ ردا نے دھیرے سے کہا۔ ”آپ کو اپنی جائیداد کے لیے وارث چاہیے تھا ناں۔ مبارک ہو آپ کا وارث آ رہا ہے۔“
مرزا صاحب اس انہونی پر پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھ رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments