لاہور میں دشمن کا چائے پینے کا خواب


چھ ستمبر کو بھارت نے طاقت کے نشے میں گیدڑوں کی طرح رات کے اندھیرے میں پاکستان کی آزادی سلب کرنے کی ناپاک جسارت کی، جس کو پاک فوج اور قوم نے مل کر خاک میں ملایا اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ بھارت یا کوئی اور کسی خام خیالی میں نہ رہے کہ ہم اپنے دفاع سے غافل ہیں۔ پوری دنیا میں وطن کی محبت اور دفاع کے لیے مختلف سلوگن، شعر، جملے اور جذبات سے لبریز کر کے افواج کو دفاع کے لیے ہمہ وقت تیار رکھا جاتا ہے۔ یا جنگ شروع ہونے سے پہلے کچھ جذباتی جملے اور دشمن ملک پر قبضے کے شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔

ایک شوشہ بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف نے ستمبر 1965 میں چھوڑا تھا۔ ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف نے فوج اور اسلحے کی طاقت کے نشے میں اپنے فوجی ساتھیوں سے کہا تھا کہ وہ لاہور کے جم خانہ میں شام کو چائے اور شراب کی محفل سجائیں گے۔ چائے بظاہر زیادہ قیمتی چیز نہیں لیکن بھارتی فوج کو پاکستانی ہوٹلوں میں چائے پینے کا بڑا شوق چرایا ہے۔ اگرچہ انہیں یہ شوق ہر مرتبہ بہت مہنگا ہی پڑا ہے۔ مثلاً 1965 میں جم خانہ لاہور میں انہیں چائے پینے اور شرابیں اڑانے کا شوق چڑھا لیکن یہ لاکھوں کے سامان حرب، پچھتر طیاروں، ایک سو نوے ٹینکوں، آٹھ ہزار دو سو عسکری لوگوں کی گرفتاری اور تین ہزار فوجیوں کی جانوں کی قربانی دے کر بھی پورا نہ ہوا۔

اس شوق میں 322 مربع کلومیٹر کا علاقہ بھی گنوا بیٹھا۔ پھر حال ہی میں چند سال پہلے ایک انڈین ونگ کمانڈر ابھینندن یہ شوق پورا کرنے ائرفورس کے جہاز سمیت پاکستان پہنچ گیا۔ جسے پاکستانی شاہینوں نے آڑے ہاتھوں لیا اور ٹھیک ٹھاک درگت بنائی۔ جس سے جہاز مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ ابھینندن کو اس جہاز کے بدلے میں ایک نہیں دو عدد چائے پلائی گئیں۔ ایک مرتبہ دوران تفتیش اور دوسری مرتبہ واہگہ بارڈر لاہور پر ۔ البتہ دشمن کی اعلیٰ ظرفی کہ اسے ہماری چائے واقعی بہت پسند آئی اور اس نے اسے فنٹاسٹک ٹی کا خطاب دیا۔ امید ہے کہ آئندہ محض چائے پینے کا شوق پورا کرنے کے لیے بھارتی فوج اتنی زیادہ قیمت ادا نہیں کرے گی۔ آخر عزت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

قارئین! ستمبر کا مہینہ چائے کے ساتھ ہماری افواج اور قوم کی بہادری اور خودداری کی ایسی خوبصورت تصویر پیش کرتا ہے کہ اگر ہم تاریخ کے ان اوراق کا جائزہ لیں تو بھارتی چائے کے شوقین جنرل کو اس وقت ہماری افواج نے ایسا کرارا جواب دیا کہ وہ مرتے دم تک اپنا منہ چھپاتا رہا، لاہور کے سیکٹر کو میجر عزیز بھٹی جیسے بہادر سپوتوں نے سنبھالا، اپنی جان کو وطن عزیز کی خاطر قربان کر دیا مگر پاک سرزمین اور وطن عزیز پر ناپاک دشمن کے قدم کو قبول نہ کیا، چونڈہ کے محاذ پر (ہندوستان کا پسندیدہ اور اہم محاذ تھا) کو پاکستانی فوج کے جوانوں نے اسلحہ و بارود سے نہیں اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر ہندوستانی فوج اور ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔

پاکستانی افواج کی کارکردگی بہادری اور دلیری کو دیکھ کر عالمی دنیا کے صحافی اور دانشور ششدر اور حیران رہ گئے۔ 1965 ء کی جنگ میں چونڈہ کے محاذ پر جب بھارت نے جنگ عظیم دوم کے بعد پوری دنیا کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ مسلط کی تو دشمن کا یہ خیال تھا کہ پاکستان اتنے بڑے وار کا کسی صورت سامنا نہیں کرپائے گا مگر وہ شاید مسلمانوں کی تاریخ بھول گئے تھے کہ مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ انہیں ہمیشہ قلیل سامان اور قلیل فوج کے ساتھ بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکرانے کی عادت ہے۔

دشمن شاید جانتا نہیں تھا کہ پاکستانی قوم ایسی غیرت مند اور نڈر قوم ہے جو اپنی آزادی کے لیے آخری حد تک چلی جائے گی افواج پاکستان تو اپنی قربانیاں پیش کر ہی رہے تھے لیکن عوام نوجوانوں نے اپنی کم تعداد کو نہیں دیکھا اور جسم کے ساتھ بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے۔ کئی بھارتی ٹینکوں، توپوں کو اڑا کر رکھ دیا۔

پاکستان کی فرنٹ لائن پر لڑنے والے نوجوانوں اور افواج پاکستان کے جذباتی نعروں کی گونج ایسی پر رونق اور خوشبودار تھی کہ اس وقت موبائل فونز، ٹیلی فونز وغیرہ کی سہولت نہ ہونے کے باوجود گاؤں دیہات والے بھی پہلے سے افواج پاکستان کے استقبال کے لیے کھڑے ہوتے، ”نعرۂ تکبیر، اللہ اکبر اور افواج پاکستان زندہ باد۔“ کے فلک شگاف نعرے لگاتے، جنہیں سن کر افواج پاکستان اور مجاہدین کا جذبۂ حب الوطنی مزید بڑھ جاتا۔

اس وقت جو خوشی، مسرت اور فخر ایک سپاہی اور مجاہد محسوس کرتا، وہ نا قابل بیان ہے۔ افواج پاکستان کے ساتھ ساتھ تمام پاکستانی میدان جنگ میں کود پڑے تھے۔ مذہبی حلقے خصوصاً علماء جنہوں نے افواج پاکستان اور ملت اسلامیہ میں جذبۂ جہاد اور ذوق شہادت کو بام عروج عطا کیا، علاوہ ازیں اساتذہ، طلبہ، شاعر، ادیب، فنکار، گلوکار، ڈاکٹرز، سول ڈیفنس کے رضا کار، مزدور، کسان اور ذرائع ابلاغ سب کی ایک ہی دھن اور آواز تھی کہ

” اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا“

جذبۂ شہادت سے سرشار افواج پاکستان اور عوام الناس نے اپنے ملک کی طرف بڑھنے والے ہر ناپاک قدم کو روندا اور لاہور میں چاہے پینے کا خواب خواب ہی رہنے دیا بلکہ ہندوستان کے کئی علاقوں پر قبضہ کر کے شام کی چائے کے وقت نعرہ تکبیر سے گونجتی صداؤں سے زبردست انداز میں جواب دیا۔ دوران جنگ ہر پاکستانی کو ایک ہی فکر تھی کہ اسے دشمن کا سامنا کرنا اور کامیابی پانا ہے۔ جنگ کے دوران نہ تو جوانوں کی نظریں دشمن کی نفری اور عسکری طاقت پر تھیں اور نہ پاکستانی عوام کا دشمن کو شکست دینے کے سوا کوئی اور مقصد تھا۔

اس جنگ میں شریک ہونے والے غازی بتاتے ہیں کہ جنگ ستمبر اچانک تو چھڑی تھی، مگر در حقیقت یہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی افواج کی پیش قدمی روکنے کے لیے بھارت کا ردعمل تھا۔ گزشتہ پانچ ماہ سے کشمیر میں بھارت کو افواج پاکستان کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا تھا اور جنگ اسی لیے چھیڑی گئی تھی۔ کہ بھارتی فوج تعداد اور ٹیکنالوجی میں یقیناً ہم سے آگے تھی، مگر جرات و جذبے میں مات کھا گئی۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے نہ صرف ان سے اپنے علاقے خالی کروائے، بلکہ ان کے علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا۔

پاکستان کو مسلسل کامیابی ہی کامیابی ملے جا رہی تھی۔ جب بھارت نے دیکھا کہ وہ جنگ ہار رہا ہے، تو اقوام متحدہ جا کر جنگ بندی کروانے کی درخواست دینے میں عافیت جانی۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ بھارتی افواج اور حکومت کے لیے کس قدر شرم کا مقام ہے کہ جنگ کا آغاز بھی انہوں نے کیا، تعداد اور ٹیکنالوجی میں بھی وہ ہم سے بہت آگے تھے اور جنگ بندی کی درخواست بھی انہوں نے ہی دی، کیوں کہ اس جنگ میں بھارت کو شدید نقصان پہنچ رہا تھا، افواج پاکستان، بالخصوص پاک فضائیہ کے علاوہ عوام الناس کی افواج پاکستان کے شانہ بشانہ جہاد فی سبیل اللہ تو ان کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوا۔

بھارت کی نام نہاد پروفیشنل فوج، جو لاہور میں چائے پینے کا خواب دیکھ رہی تھی۔ اس کے لیے اپنے علاقوں کی حفاظت کرنا مشکل ہو گیا۔ اور یقیناً یہ پاکستانی قوم کی طرف سے ملی یکجہتی، نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر ہر طرح کا فرق مٹا کر اختلاف بھلا کر متحد ہو کر دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کا بے مثال عملی مظاہرہ بھارت کو ہر در اندازی کے وقت ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments