آزادی کی توہین


1947 میں پاکستان معرض وجود میں آیا تھا اور آج 2022 کا دور ہے 75 سال بیت گئے۔ اس عرصہ میں پاکستان نے کیا کھویا، کیا پایا، سب تاریخ میں محفوظ ہے۔ سب سے بڑا المیہ سانحہ مشرقی پاکستان تھا، جسے یاد رکھنے کی بجائے انتہائی بے دردی سے بھلا دیا گیا، جس کا نتیجہ موجودہ حالات کی شکل میں سب کے سامنے ہیں۔ ماضی و حال میں اب تک پاکستان کو بس ”کڑے امتحانات سے دوچار اور نازک ادوار“ سے گزرتے ہی دیکھا گیا ہے۔ کبھی انسانی ذہنوں کی سازشوں اور نفرتوں کے نتیجہ میں اور کبھی قدرتی آفات کی شکل میں۔

ملکی تاریخ یہی بتاتی ہے۔ اب پہلی بار ہوا کہ پاکستان بیک وقت ہولناک سیلاب، بدترین سیاسی عدم استحکام اور لڑکھڑاتی معاشی بھنور کی زد میں ہے۔ پاکستان کو صرف مسلمانوں کی سٹیٹ بنانے والے یہ بھول گئے تھے کہ نئے ملک میں مسلمانوں کی تعلیمی، علمی معیار اور حالت کیا ہے، کیا وہ نومولود ملک کو چلانے اور سنبھالنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ وقت نے ثابت کر دیا کہ وہ سب غلط فیصلے تھے اور پاکستان کے خلاف ہی گئے ہیں۔ اس لحاظ سے جوگندر ناتھ منڈل زیادہ دور اندیش اور مدبر نکلا جو آنے والے دنوں کی سنگینی کو بھانپ کر بھارت واپس چلا گیا تھا۔

دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد جاپان، چین، جرمنی، ملائشیا، انڈونیشیا و دیگر بے شمار اسلامی اور مغربی ممالک ہم سے پیچھے تھے لیکن بہت آگے نگل گئے، ہم آگے نکلنے کی بجائے، کہیں کے نہ رہے۔ دوسرے ممالک کے سرمائے کو اپنے ”اکاؤنٹ“ میں محفوظ رکھ کر ہم زرمبادلہ بڑ ہا رہے ہیں اور پھر قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ اس سے زیادہ آزادی کی توہین اور کیا ہو گی۔ ایسا کیوں ہوا، اس کی وجوہات، اسباب کیا ہیں، یہ سب جاننے کی ضرورت ہے۔

1970 کی دہائی کیا شروع ہوئی کہ پاکستان کے اندر تبدیلیوں کی ایسی سونامی آئی جو بعد میں ہولناک سیلاب کی شکل میں سب کچھ بہا لے گئی۔ اب یہاں جو کچھ باقی موجود ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ریاست، حکومت، ادارے، آئین، قانون، انسان سبھی موجود ہیں لیکن سب کچھ مصنوعی لگتا ہے، عمل کی قوت سے بالکل خالی۔ حقیقت اور سچائی سے بہت دور۔ آزادی کے بعد منزل مقصود کی طرف چلتے چلتے اچانک جو ٹریک بدلا تو منزل ہی بدل گئی، راستے ہی بدل گئے، رہبر، راہنما ہی بدل گئے سوچ ہی بدل گئی، بالآخر ”منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے“ ۔

آج 2022 میں جو پاکستان ہمارے سامنے ہے، وہ ایسا تنہا تنہا، بکھرا بکھرا ہے، جس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ آج کی یہ تلخ حقیقت ان جذبوں کی توہین ہے جو تحریک پاکستان کی پشت پر تھے۔ ان مقاصد کی ناکامی ہے، جن کے حصول کے پیش نظر پاکستان کی تحریک چلائی گئی تھی۔ آزادی کے بعد پاکستان کے اندر مثبت انسانی سوچ کی آبیاری کی گئی نہ ہی اس کو کسی بھی سطح پر فروغ دینا ضروری سمجھا گیا۔ معاشرے کو مثبت، تعمیری رنگ میں پنپنے کے مواقع آٹے میں نمک کے برابر ملے۔

ملاں اور ملائیت نے پاکستانی لوگوں کو باشعور شہریوں کی بجائے مذہبی جنگجو بنا دیا، جبکہ حکومتی اداروں نے ان کو تحفظ فراہم کیا۔ معاشرے اور تعلیمی اداروں میں انتہا پسندوں کے پیروکاروں کو کھلی چھوٹ دے کر پاکستان کے مقصد آزادی اور مستقبل پر کاری ضرب لگائی گئی، جس کے نتیجہ میں علم و تحقیق کے تمام راستے بند ہوتے گئے، گلی گلی محلہ محلہ میں جنونیت پھلی پھولی، کوئی سڑک، کوئی دیوار نفرت انگیز جملوں، تکفیری فتوؤں سے محفوظ نہیں رہی۔

پاکستان کی سیاست اور معاشرے میں جس جذباتی پن کو ہوا دی جاتی رہی، اس کے ہولناک نتائج اور اثرات نے بالآخر اپنا کام دکھایا جس کا نتیجہ سری لنکن شہری اور مسلمان پاکستانیوں کو ہجوم کی طرف سے زندہ جلانے کے واقعات کی شکل میں نکلا جس کی بازگشت دنیا بھر میں گونجی اور یہ بار بار ہوا، پاکستان کو عالمی سطح پر اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ یہ کسی بیرونی ملک کی سازش نہیں تھی بلکہ اندرونی سازشی ذہنوں کے منصوبے تھے جن پر عمل درآمد کیا گیا۔

پاکستان کے اندر سے پاکستان مخالف عناصر اور مذہبی انتہا پسندوں کا قلع قمع کرنے کی بجائے ان کی باقاعدہ سرپرستی کی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں ان برائیوں نے زور پکڑ کر مسائل کو مزید گمبھیر کیا وہیں ملکی وسائل بھی غلط ہاتھوں میں چلے گئے، ادارے کمزور سے کمزور تر ہوتے گئے، معاشرہ تقسیم در تقسیم ہو کر اب مختلف ٹولیوں اور ٹکڑیوں میں بٹتا چلا گیا۔ 2018 کے الیکشن کے بعد کی ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال ناگفتہ ترین ہی نہیں بلکہ بدترین سطح تک پہنچی ہوئی ہے۔

یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ آج ہم عالمی سطح پر نہ صرف اخلاقی بلکہ معاشی، سیاسی، معاشرتی، سفارتی محاذوں پر بری طرح شکست کھا چکے ہیں۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے صورتحال بتاتی ہے کہ ہم معاشی میدان میں مکمل طور پر دوسرے اسلامی، غیر اسلامی ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کے رحم و کرم پر ہیں ان کی ناقابل استعمال رقم محفوظ رکھ کر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ ملک کا ستر فیصد رقبہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے تو معیشت مکمل طور پر بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے ڈوبی ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments