فیملی پلاننگ حرام ہے


<

p dir=”rtl”>

او جی کیا بتائیں آپ کو، امیر لوگوں کے پاس تفریح کے بہت سے ذرائع ہوتے ہیں لیکن غریب لوگوں کے پاس تفریح کا کوئی اور وسیلہ نہیں ہوتا اور سارا بوجھ بیوی پر ہی آن پڑتا ہے۔

تو کیا بچے پیدا کرنا تفریح ہے؟ نہیں سر جی لیکن بچے پیدا کرنا ہماری تفریح کا نتیجہ ہے۔

اچھا یہ بتاؤ جنرل ضیا الحق صاحب کے کتنے بچے تھے۔ چار۔ تو آپ کے خیال میں جنرل صاحب نے پوری شادی شدہ زندگی میں صرف چار مرتبہ تفریح کی ہے؟ مجمعے میں تھوڑی دیر کے لئے خاموشی چھا گئی۔ کچھ نوجوانوں نے ہنسی کنٹرول کر لی اور باقیوں نے پھسلنے دی۔

او بابو جی، جس روح نے آنا ہے اس نے تو آنا ہی ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا یہ دوائیاں یا باقی چیزیں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتیں۔ یہ قدرت کے کام ہیں۔

اچھا اگر ایسا ہے تو پھر ساری روحوں کو اپنے گھر ہی نہ لے آئیں ناں انہیں کہیں اور بھی جانے دیں۔

مزید یہ کہ یہاں اللہ کی قدرت اور بندے کے اختیار کی تشریح ٹھیک نہیں کی گئی۔ کیونکہ مجھے اور میری بیوی کو تو قدرت نے یہ اختیار اور طاقت دی ہے کہ ہمارے ہاں بچے کی پیدائش صرف اس وقت ہو جب ہم دونوں چاہیں۔ ہم نے تو قدرت کی عطا کردہ اس طاقت اور اختیار کا خوب استعمال کیا ہے۔ صرف اتنے بچے پیدا کیے ہیں جتنے ہم آسانی اور مزے سے پال سکتے تھے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ بچوں کی ذمہ داریوں سے جلدی آزاد ہو گئے، تھوڑے سے جو تھے۔ اس بے فکری میں بڑی آسودگی ہے۔

جناب میں تو چھوٹی فیملی کا قائل ہوں مگر میرا تو پہلا بچہ ہی چھ بیٹیوں کے بعد ہوا ہے۔ پھر میں نے سوچا کہ چھ بہنوں کا بوجھ اکیلے بھائی پر بہت زیادہ ہو گا اس لئے ایک اور بیٹے کی خواہش میں جاری رکھنا پڑا۔ آپ کی بات کا جواب تھوڑا لمبا ہے۔ اس کے لئے پورا نیا سیشن چاہیے ہو گا۔ یہ ایک گمبھیر معاشرتی مسئلہ ہے جس نے بیٹیوں کو اولاد اور رحمت کی بجائے بوجھ بنا دیا ہے۔ اصل میں انہیں بھائیوں کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہم انہیں نہ روکیں تو وہ خود بھی مردوں جتنی تگڑی انسان ہو سکتی ہیں۔ اپنے آپ کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ وہ ہمارا سہارا بھی بن سکتی ہیں۔ لیکن ہم مشرقیت اور مذہب کے نام پر اپنی بیٹیوں کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔

جناب اللہ نے بچے دیے ہیں وہ مزدوری کر کے لاتے ہیں اور ہمیں بھی کھانے کو کچھ مل جاتا ہے ورنہ ہم غریبوں کا کیا ہے۔ جتنے زیادہ بچے ہوتے ہیں اتنی ہی زیادہ آمدنی ہوتی ہے۔ میرے آٹھ سے تیرہ سال کی عمر کے درمیان چار بچے ہیں۔ چاروں مزدوری پر جاتے ہیں اور شام کو پچاس پچاس روپے لاتے ہیں۔ اس طرح دو سو روپے بن جاتے ہیں۔ آپ خود سوچو ناں اگر ایک ہوتا تو آمدنی صرف پچاس روپے ہوتی۔ اور پچاس روپوں سے تو ان کی ماں کی دوائی بھی نہ آتی۔

آپ نے اور بھی اہم نقطہ چھیڑ دیا ہے۔ آپ دیکھیں میرا حساب کتاب کا طریقہ آپ سے کتنا مختلف ہے۔ میرے جیسے لوگوں کے نزدیک آمدنی اور خرچ کا حساب کتاب کچھ یوں ہے۔ میرا ایک بچہ ہے اور میں اس کی تعلیم پر ماہانہ تین ہزار روپے خرچ کرتا ہوں اور اگر میرے چار بچے ہوتے تو مجھے ان کی تعلیم کا خرچہ اٹھانے کے لئے بارہ ہزار روپے چاہیے تھے، جو میرے پاس نہ تھے۔ اگر میرے بچے زیادہ ہوتے اور میں غربت کی وجہ سے انہیں تعلیم بھی نہ دلوا سکتا تو پھر انہوں نے بھی تو بڑے ہو کر غریب ہی ہونا تھا۔ کیونکہ تعلیم کے بغیر انہیں اچھا روزگار میسر نہ ہوتا اور اچھے روزگار کے بغیر ان کی معقول آمدنی نہ ہوتی۔ اس طرح غربت اگلی نسل میں منتقل ہو جاتی۔ لہذا غربت کی چکی سے نکلنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بچوں کی تعداد کم رکھی جائے۔ مزدوری کی بجائے انہیں معقول تعلیم دلوائی جائے تاکہ وہ اپنی باری آنے پر کوئی معقول کام کر سکیں اور غربت کی چکی سے جان چھڑا سکیں۔

رہا سوال بچوں کی ماں کی بیماری اور دواؤں کے اخراجات کا تو آپ کو بتاتا چلوں کہ اکثر خواتین کی بیماریوں کی وجہ ہی کثرت اولاد ہے۔ اگر ایک یا دو بچے ہوتے تو بہت امکان تھا کہ بیوی کی صحت ٹھیک ہوتی اور اسے دواؤں کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔

او جناب ہمیں کیوں آپ دوزخ کی آگ میں دھکیلنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مولوی صاحب اکثر اس بات کا ذکر کرتے ہیں اور بڑے واضح الفاظ میں ہمیں بتاتے ہیں کہ فیملی پلاننگ شرعاً حرام ہے۔ اور یہ مسلمانوں کے خلاف انگریزوں کی سازش ہے۔

اس سلسلے میں تین باتیں توجہ طلب ہیں۔ فیملی پلاننگ اگر سازش ہے تو یہ سازش انگریز خود اپنے خلاف بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کا فیملی سائز کافی چھوٹا ہوتا ہے، حالانکہ ان کے اپنے مالی حالات ہم سے کافی بہتر ہوتے ہیں۔

دوسرا یہ کہ آج کے دور میں بندوں کی تعداد سے زیادہ ان کے ہنر اور صلاحیت کی اہمیت ہے۔ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ساٹھ کروڑ ہے جب کہ یہودیوں کی تعداد کل ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ لیکن بزنس، ایجادات، تعلیمی افکار اور معیار زندگی میں ان کا مقام ہم سے کہیں بہتر ہے۔

تیسرا یہ کہ مولوی صاحب تو اس لئے فیملی پلاننگ کو حرام کہتے ہیں کیونکہ مدرسے صرف کثرت اولاد سے ہی تو بھرے پڑے ہیں۔ آپ خود سوچو اگر کسی شخص کے ایک یا دو بچے ہوں جن کی وہ اچھی طرح سے پرورش کر سکتا ہو۔ ان کی خوراک، رہائش، تعلیم، صحت اور کھیل کود کا اچھی طرح سے خیال رکھ سکتا ہو تو وہ انہیں مدرسے کیوں بھیجے گا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مدرسے میں بچے خیرات اور صدقات پر پلتے ہیں جس سے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مدرسوں میں فرقہ ورانہ اور جہادی تربیت کی وجہ سے بچوں کے بھٹک جانے کا خوف بھی رہتا ہے۔ مولوی صاحبان کو ڈر ہے کہ خاندان چھوٹا ہو گیا تو لوگ خود اپنے بچوں کی تربیت کے قابل ہو جائیں گے اور مدرسے خالی ہو جائیں گے۔ اس لئے وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فیملی پلاننگ حرام ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments