سیلاب کے بعد تباہی: پھر ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟


سیلاب اور اس کے بعد اس کی تباہ کاریاں اپنے عروج پر ہیں نہ پیٹ بھر کر کھانے کو مل رہا ہے، نہ دوائیاں نہ پینے کا پانی اور نہ ہی چھت۔ ایک غصہ بھی ہے اور سب سے بڑھ کر بے بسی و مایوسی بھی ہے جبکہ دوسری طرف اندرون ملک سے اور عالمی امداد بھی میسر ہے لیکن سوال عام ہے کہ ٹرک کہاں جا رہے ہیں؟ کہیں تو نظر ائیں۔ آسماں سے گرائی جانے والی امداد بھی پانی کی نذر ہو رہی ہے، ابھی تک نہیں معلوم ان پیکٹوں میں کچھ ہوتا بھی ہے؟

لوگوں کے امداد سے متعلق بڑے بڑے دعوے سامنے آرہے ہیں۔ ملک کے شمالی اور بالائی علاقوں میں تو آبادکاری اور امداد کا آسان سا طریقہ ہے کہ سابقہ روایتوں کے مطابق متاثرین کے ساتھ ساتھ نقصانات اور ناکافی امداد کا رونا روتے ہوئے تباہ کاریوں سے منہ موڑ لیں اور متاثرین کو ملک کے جنوبی علاقوں کی طرف جانے کا اشارہ کرتے رہیں، خاص کر کراچی کی طرف۔ پاکستان کی تاریخ ہے کہ جب بھی بالائی حصوں میں قدرتی یا انسان کی بنائی ہوئی آفات آئی ہیں آبادیوں کو سندھ کا رخ دکھایا گیا چاہے وہ ڈیمز بنانے سے متاثر ہونے والی آبادیاں، زلزلوں و سیلابوں سے متاثرہ لوگ یا افغان مہاجر یا بنگلہ دیش میں ہمارے ہاتھوں سے قتل عام کے نتیجے میں آزادی کے بعد غیر بنگالیوں کی پاکستان آمد ہو۔ ان سب کو کراچی سمیت سندھ میں پھینک دیا جاتا ہے۔

اب بھی یہی کچھ ہونے جا رہا ہے۔ سندھ میں سب سے زیادہ جانی و مالی تباہی ہوئی ہے لوگوں کے چہروں پر موت رقصاں ہے اوپر سے امداد کہاں جا رہی ہے کسی کو علم نہیں۔ ایسے موقع پر اگر کوئی سوچتا ہے کہ سندھ میں تنگ آمد بجنگ کا امکان نہیں تو ایسی بھول کو کیا کہا جاسکتا ہے؟ امدادی رضاکاروں، میڈیا نمائندوں بلکہ سندھی میڈیا کے مطابق ایک خطرناک صورت حال جنم لے رہی ہے جو لوٹ مار، گوداموں پر قبضے، وڈیروں کے محلات و اوطاقوں پر حملوں اور اسپتالوں سے دوائیاں ہی لوٹنے کے ہی نہیں بلکہ ان کے بیڈز وغیرہ بھی اٹھا کر لے جانے کے واقعات ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اسی طرح اگر ملک کے بلائی حصوں کے متاثرین کراچی کی طرف رخ کرتے ہیں تو مسلح لسانی فسادات ہونے کے خطرات کو بھی روکنا مشکل ہو گا۔

ایسی صورت حال جہاں حاکموں، وزیروں، فوجیوں، وڈیروں، ساہوکاروں، اور ٹھیکیداروں کے لئے تو خطرناک ہو سکتی ہے وہاں مشوش حلقوں، سیاسی کارکنوں، این جی اوز میں کام کرنے والوں اور پوری سول سوسائٹی کے لئے بھی پریشان کن ہو گا جب سیلاب زدگان اٹھ کر اناج کے گوداموں اور بڑے بڑے ذخیروں کو لوٹیں گے، وڈیروں، حاکموں کے محلات اور اوطاقوں پر حملے کر کے تجوریاں توڑیں گے، راستوں سے فراٹے بھرتی کاریں و گاڑیاں جب چھینی جائیں گی، ہوٹلوں اور ریسٹورنٹ سے کھانے و پینے کی تمام اشیا اس طرح چٹ کردی جائیں گی جیسے چیونٹیاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ ہر شہر کے باہر قائم عیاشیوں کے مراکز فارم ہاؤسز کو پہلے مرحلے میں اپنے قبضے میں لے کر اسے اپنی رہائش گاہیں بنائیں گے۔

تو پھر سوچئے ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟

ہمارا نظریہ، ہماری سوچ، ہماری تعلیم ہمیں کس کا ساتھ دینے کے لئے کہہ رہی ہوگی یا ہمیں اپنے مفادات کے خول میں واپس جانے کا مشورہ دیا جائے گا؟

اس موقعہ پر تو کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہوگی جو حالات کو عوامی امنگوں کے مطابق عملی شکل دے سکے۔ اب جئے بھٹو، قوم پرستی، نظریہ پاکستان، اسلام، مسلمان مسلمان بھائی بھائی جیسے نعرے بھوک، بیماری و پیاس کے سامنے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ بے لباس مرد و عورتوں کے ذہن میں صرف اور صرف بھوک مٹانے اور چھت کا حصول ہو گا، ہر پختہ عمارت ان کی زد میں ہوگی۔ اس موقع پر ہم متاثرین کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا ظالموں کے ساتھ؟

کیا ہم لوگوں کو سمجھائیں گے کہ دیکھو بھائی ہاری! یہ جو تم لوٹ مار کر رہے ہو یا قبضہ کر رہے ہو یہ انارکی ہے۔ اس سے ریاست تباہ ہو جائے گی، اس سے تمام ریاستی اداروں کو نقصان پہنچے، دیکھو سائیں! ان کو بھی نقصان ہو گا جو راتوں کو ہمارے لئے جاگتے ہیں، یہ ملک ہم نے بڑی قربانیوں سے لیا ہے۔

اگر یہ باتیں سن کر سیلاب زدگان ہماری پٹائی شروع کر دیں تو پھر کہاں کھڑے ہوں گے؟ پٹائی کرنے والوں کے ساتھ یا حاکموں و لٹیروں کے ساتھ جو امدادی سامان کو بھی نہیں چھوڑتے۔

جب اسپتالوں پر حملے ہو رہے ہوں دوائیاں لوٹی جا رہی ہوں، مال دار عورتوں کی الماریوں سے زرق برق کے کپڑے جب سیلاب سے متاثرہ خواتین پہن کر بھاگ رہی ہوں تو پھر ہم کہاں کھڑے ہوں یا یہ کہیں گے کہ بری بات۔ بری بات۔ ایسا نہیں کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments