ڈوبی ہوئی پرامید قوم


تجربوں سے گزری ہوئی یہ قوم اور ملک شاید صبر کے اس کنارے آ گئے ہیں جہاں پر حد پوری ہو جاتی ہے۔ بظاہر ہر بات پر احتجاج کرنے والی، چھوٹی چھوٹی بات پر لڑنے کے لیے اور بعض اوقات مرنے کے لیے تیار یہ قوم اپنی سسکتی ہوئی موت پر جو آہستہ آہستہ چور پانی یا دیمک کی طرح اس کے جسم میں پھیل رہی ہے، اس سے یا تو بے خبر ہے یا صبر کیے ہوئے ہے۔ اپنے حاکموں کے کیے ہوئے ظلم و ستم کو وہ رب کی رضا مان کر خاموش ہو جاتی ہے۔

پھر کوئی اک تمغہ جیتتا ہے، کسی کرکٹ میچ میں فتح ہوتی ہے تو چھوٹے بڑے خیبر سے کراچی تک، ’پاکستان زندہ آباد‘ کے نعرے لگاتے جھوم اٹھتے ہیں۔ میں نے کینسر کے مریض کو موت کے بیڈ پے، وینٹیلیٹر پر جانے سے پہلے کسی میچ جیتنے کی بے حد خوشی دیکھی ہے اور وہ بھی یہ کہتے ہوئے ”الحمدللہ! میں نے مرنے سے پہلے پاکستان کی یہ عالیشان جیت دیکھی“ اپنے سارے حقوق سے عاری، عزت اور انصاف کے ساتھ زندگی گزارنے کے حق سے محروم یہ قوم ایسی محبت کیسے کر سکتی ہے!

ایسی امید کیسے رکھ سکتی ہے! ؟ کمال تو یہ ہے کہ چند ہزار لوگ جو اس ملک کے مالک بنے ہوئے ہیں، ملک کو چلا رہے ہیں، ان سے کوئی گلا نہیں کرتی! یہ جو چند ہزار لوگ ہیں وہ میچ جیتنے کی خوشی میں ان کروڑوں لوگوں کے ساتھ شامل بھی ہوتے ہیں، ان میں سے چند لوگ ان کو مبارک باد بھی دیتے ہیں۔ اور ہار کی صورت میں شاید قوم کے غم میں شریک بھی ہوتے ہیں۔ وہ حاکم ٹولہ ایسی بے لوث قوم کو باقی دکھوں اور تکالیف میں اکیلا کیسے چھوڑ سکتا ہے!

معاشی طور پر تہس نہس ہونے کے بعد یہ قوم اب سیلاب میں کہیں کی نہیں رہی۔ جب اپنے حصے کا بلیدان، سیکڑوں انسانوں کی جانوں، ہزاروں ڈوبتے ہوئے شہروں اور گاؤں کی صورت میں دے رہی تھی تب بھی ’شہباز گل، شہباز گل‘ کھیلا جا رہا تھا۔ اس کی موچھیں ہونے اور نہ ہونے پر دلائل کے انبار لگ رہے تھے۔ پھر اچانک پتا چلا کہ قوم کہ قربانی ہزاروں نفوس، لاکھوں مویشیوں اور کئی لاکھ ایکڑ اراضی پر پہنچ چکی ہے، تب جا کے سب کو قوم اور قومی المیہ یاد آیا۔

شاید یہ بھی میرا وہم ہے کہ سب کو یاد آیا ہے!  اس وقت اپنے پیاروں کی لاشوں کو، صندوقوں میں چھپائے، طوفان نوح میں، اس قوم کی باسی گھسیٹتے پھر رہے ہیں کہ کچھ عرصے کے لیے ہی کوئی سوکھی ہوئی خشک زمین کا ٹکڑا مل جائے جہاں پر اپنے پیاروں کو دفن کر لیں۔ بس وہ بپھرے ہوئے پانیوں سے اتنی مہلت مانگ رہے ہیں۔ پھر بھلے کوئی پانی کا ریلا ان کو بہا کر موت کے سپرد کر دے، اور اچھی بات تو یہ ہے کہ مرنے کے ساتھ ان کے دکھ تو مر جاتے ہیں!

اس طرح کے حالات، ایسی آفتیں، اس قوم پر پہلی دفعہ نہیں آئیں۔ چند سالوں کے فرق سے موت اور تباہی کا رقص اس قوم کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ 2005 کے اندوہ ناک زلزلے میں، جب ہماری ریاست کی بے خبری میں کشمیر اور کے پی کے کے 70 ہزار انسان ابدی نیند سو چکے تھے، اور حاکم وقت جنرل مشرف اسلام آباد میں زمین دوز ”مارگلہ ٹاورز“ کے ملبے پر کھڑے ہو کر نوید سنا رہے تھے، بھاشن دے رہے تے ”دیکھیں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ہم سب کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔“

بس اس طرح ہم آنے والی ہر آفت میں نئے سبق اکٹھے کرتے ہیں لیکن سیکھتے کچھ بھی نہیں! 2010 کے سیلاب سے سیکھتے تو 2022 میں خیرپور ناتھن شاہ پھر اس طرح نہ ڈوبتا۔ اور اگر 2011 سے سیکھتے تو ایل بی او ڈی سے منسلک اضلاع و علاقے اب اس طرح سے پانی برد نہ ہوتے! لیکن ہم سیکھتے نہیں، کس کے لیے سیکھیں؟ جو قوم ہر زلزلے، قحط اور سیلاب کے بعد پھر زندگی کو رواں دواں کرنے کی جستجو میں لگ جاتی ہے، کسی ایک میچ جیتنے کے بعد اپنے سب دکھ، بھوک و افلاس، بیروزگاری کو بھلا دیتی ہے۔

اس قوم کے لیے کیونکر سیکھیں؟! اس قوم کے نوجوان بچے اور بچیاں، با صبر مائیں اور بہنیں، اور بوڑھے امید کو مرنے نہیں دیتے۔ پھر یہی قوم ریاست، اداروں اور میڈیا کی طویل مدت بے حسی کے بعد ریاست کو حسن سکون سے جگانے کی کوششیں کرتی ہے۔ میڈیا کو جھنجھوڑتی ہے بلکہ عام لوگوں کو للکار کر اور پکار کر کہتی ہے ”جینا ہے، ہر پاکستانی کو جینا ہے!“

کیا ریاست، حکومت اور ادارے اس لٹی پٹی لیکن پرامید قوم کو اس دفعہ بھی مایوس کریں گے؟ یا شاید یہ گھڑی ہے جس میں سبق سیکھنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments