جنگ ستمبر کے نظر انداز کیے گئے پہلو


درسی کتب بتاتی ہیں کہ 6 ستمبر 1965 کو بھارت نے بغیر اعلان جنگ بین الاقوامی سرحد عبور کی تاکہ لاہور پر قبضہ کیا جائے جس کی وجہ بھارت کے ”توسیع پسندانہ عزائم“ قرار دیے جاتے ہیں۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ پاکستانی فوج نے جنوب میں رن آف کچھ کے سرحدی علاقے میں چند کلومیٹر طویل کچا راستہ بناتے ہوئے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کا بھارتی علاقہ بھی اس میں شامل کر لیا جس سے دونوں ممالک میں ایک نئے تنازعہ نے جنم لیا۔

بھارت کی طرف سے اس سلسلہ میں احتجاج کیا گیا جس پر پاکستان کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے رن آف کچھ کی سرحد پر شدید کشیدگی پیداء ہو گئی جس میں چوکیوں پر حملے اور جوابی کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان محدود کارروائیوں میں پاکستانی فوج کا پلہ بھاری رہا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان نے تقریباً 3500 کلومیٹر کے علاقے پر دعوی کر دیا جس کا تصفیہ برطانیہ نے کیا جو پاکستان کی توقعات کے برعکس اور تاریخی حقائق کی روشنی میں کیا گیا۔

پاکستان نے اسے اپنی ہزیمت سمجھا اور اگست 1965 میں بھارتی زیر تسلط کشمیر میں مسلمانوں کی مقدس درگاہ حضرت بل کی کی بھارتی فوجیوں کی کی طرف سے بے حرمتی کو بنیاد بنا کر صدر ایوب خان نے آپریشن جبرالٹر شروع کیا جس کے تحت فوج اور رضاکاروں کو بڑی تعداد میں بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں بطور ”مجاہدین“ داخل کیا۔ یہ آپریشن شروع میں کامیاب رہا اور مسلح کارروائیوں میں نہ صرف بھارتی فوج کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا بلکہ انہیں کئی علاقوں میں شکست اور پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔

چونکہ یہ بظاہر ایک مقامی مسلح عوامی کارروائی تھی اس لیے اسے جھڑپ شروع ہونے کے بعد اس پیمانے پر کمک اور مدد نہیں دی جا سکی جس پیمانے پر اس کی ضرورت تھی جس کی ایک وجہ اس بارے میں مربوط اور ٹھوس منصوبہ بندی اور متبادل حکمت عملی کا فقدان تھا۔ یہ آپریشن صرف اسی وجہ سے آگے چل کر ناکامی کا شکار ہوا جس کے نتیجہ میں بھارت نے پاکستان کو ”نکیل ڈالنے“ اور ”سبق سکھانے“ کے لیے 6 ستمبر 1965 کو مکمل جنگ میں دھکیل دیا۔

پاکستان کے لیے اس پیمانے پر جنگ مسلط ہونا ایک غیر متوقع اقدام تھا جس کے لیے کوئی تیاری نہ تھی اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ آگے بڑھ کر مقابلہ کرنے کے بجائے قدرتی رکاوٹوں کی پناہ لیتے ہوئے دفاعی حکمت عملی اختیار کی جائے جو صرف تین وجوہات کے باعث بہت حد تک کامیاب رہی؛ پہلی وجہ ایک سال قبل تشکیل پانے والی بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ”را“ ریسرچ اینڈ انالیسس ونگ کی اس سلسلہ میں پیشہ ورانہ تیاری نہ ہونے کی وجہ سے مکمل ناکامی تھی تو دوسری طرف پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی ”آئی ایس آئی“ انٹر سروسز انٹیلی جنس کی پیشہ ورانہ تربیت اور 17 سالہ تجربہ کی وجہ سے خاطر خواہ فوری تیاری تھی۔

دوسری وجہ پاکستان کا دفاعی حکمت عملی کے تحت توپ خانہ یعنی آرٹلری اور ٹینک دستے یعنی آرمرڈ کا بھرپور استعمال تھا۔ تیسری وجہ پاکستانی فضائیہ کا بھرپور پیشہ ورانہ استعمال تھا جس میں ایک طرف جنگ کے دوسرے ہی دن پاکستانی فضائیہ کا بھارتی فضائیہ کے کے اڈوں پر زمین پہ کھڑے طیاروں کی بڑے پیمانے پر تباہی اور فضائی جنگ میں بھاری نقصان پہنچانا جس سے بھارتی فضائیہ کا خطرہ ٹل گیا اور پاکستانی فضائیہ نے بھرپور زمینی کارروائی کیں جس سے بھارتی فوج کی حملہ کی استعداد کو شدید نقصان پہنچا۔

17 روز بعد دونوں طرف سے کامیابی اور فتح کے دعوؤں کے ساتھ جنگ ختم ہوئی جس میں پاکستان کا تقریباً 1850 مربع کلومیٹر کا علاقہ جس میں کوئی قابل ذکر قصبہ نہ تھا بھارتی تسلط میں چلا گیا جبکہ بھارت کا تقریباً 560 مربع کلومیٹر کا علاقہ جس میں بھارتی پنجاب کا کھیم کرن اور راجھستان کا مونا باؤ کے سرحدی قصبے جو ریلوے لائن پر ہونے کی وجہ سے نسبتاً اہمیت کے حامل تھے پاکستان کے زیر تسلط آ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments