جرمن فلسفی نطشے کہتا تھا کہ خدا مر چکا ہے


جرمن فلاسفر نطشے تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے کہ خدا مر چکا ہے۔ نطشے ایک ملحد تھا اور اس کا یہ دعوٰی تھا کہ خدا انسانوں کا ایک تخلیق کردہ افسانہ ہے۔

نطشے کے مطابق خدا کا تصور لوگوں کو تکلیفوں اور مصائب سے نمٹنے کے لئے دیا گیا تھا۔ قدیم یہودی اور مسیحی خوفناک حالات میں رہتے تھے اور وہ اپنے آقاؤں اور بادشاہوں کے سامنے غلامی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ان لوگوں کے لئے یہ بالکل مناسب تھا کہ وہ ان دکھوں اور آلام کی وجہ تلاش کریں اور جو ان پر ظلم کر رہے تھے، ان کی سزا کا انتظام کریں۔

خدا کا تصور ان کی اس خلا کو پر کرتا ہے۔ ان کی تاریک زندگی میں روشنی کی ایک کرن لاتا ہے۔ جب وہ کسی مشکل میں پھنس جاتا ہے، کسی طوفان کی زد میں آ جاتا ہے، جب کاروبار میں خسارہ ہو جاتا ہے یا جب وہ کسی موذی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے تو خدا کا تصور اور وجود اس کو حوصلہ اور امید فراہم کرتے ہیں۔

نطشے کے لئے خدا ایک نفسیاتی بناوٹی چیز ہے جو تکلیف کو کم کرنے اور مصیبت کے وقت آپ کو ایک اچھی صحبت فراہم کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔

نطشے کے مطابق خدا پر یقین کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا کے ساتھ چلنا، بیساکھی کے ساتھ چلنا ہے۔ اگر ہم خود مصائب کا سامنا کرتے ہیں تو ہم مضبوط ہوتے ہیں اور اس مشکل کو حل کرنے کے لئے ہماری صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے نا کہ ہر چیز خدا پر ڈال دی جائے۔

نطشے کے مطابق اگر خدا کا وجود ہوتا تو کیا ہم سب خدا کے بچوں کی طرح برابر نہیں ہوتے؟ نطشے کہتا ہے کہ انسان کو اپنے ہدف کا خود تعین کرنا چاہیے اور اس کو خود اخلاقی اقدار کی پاسداری کرنی چاہیے اور ذاتی قابلیت کی طرف مائل ہونا چاہیے۔ نطشے سادہ لفظوں میں ہماری توجہ خود انحصاری کی طرف دلا رہا ہے۔

دوسری طرف جس طرح نطشے کے لئے خدا کی موت ضروری تھی، ڈنمارک کا فلسفی کیرکیگارڈ کے لئے خدا کا وجود ضروری تھا۔ کیرکیگارڈ کوپن ہیگن کے ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوا تھا لیکن پھر بھی خدا پر یقین رکھتا تھا۔

کیرکیگارڈ کا کہنا تھا کہ عقل اور سائنس آپ کو بہت کچھ بتا سکتے ہیں لیکن وہ کسی چیز کے معنی یا قدر نہیں دے سکتے۔

وہ کہتا ہے ہر انسان کو چاہیے کہ وہ خود فیصلہ کرے اس کی زندگی کا کیا مقصد ہے۔ اس کے نزدیک زندگی کے معنی اور قدر جاننے کے لئے خدا سے رجوع ضروری ہے۔

وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہر انسان کو شعور اور انتخاب کی صلاحیت دی گئی ہے۔ کیرکیگارڈ کا مشہور قول ہے کہ گزرے ہوئے وقت سے زندگی کو صرف سمجھا سکتا ہے لیکن اسے گزارنے کے لئے ہمیشہ آگے ہی دیکھنا چاہیے۔

کیرکیگارڈ کے لئے خدا کے ساتھ رشتہ ہر انسان کا ذاتی فعل ہے۔ وہ کہتا تھا کہ دلائل دے کر خدا کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ صرف ایمان کی طاقت ہی سے خدا کو سمجھا سکتا ہے اور یہ طاقت انسان کی معراج ہے۔

ہمارا معاشرہ شاید کیرکیگارڈ کی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جب مذہب معاشرے میں ضم ہو جاتا ہے تو سماج کی موت ہو جاتی ہے۔ اس کے نزدیک مذہب ایک ذاتی فعل تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ہمارے معاشرے میں انفرادی روحانی زندگی کو فرقہ وارانہ، سیاسی اور مذہبی سرابوں سے دبایا جا رہا ہے۔ کیا ہمارے معاشرے میں آج ایسا نہیں ہو رہا؟

دونوں فلسفیوں میں یہ بات مشترک تھی کہ وہ زندگی کو مشکل اور غیر معقول سمجھتے تھے۔ نطشے نے خدا کو افسانوی قرار دیتے ہوئے لوگوں کو اپنی انفرادیت اور ذاتی صلاحیت کو بہتر بنانے پر اکسایا تو کیرکیگارڈ نے لوگوں کو اس زندگی سے لڑنے کے لئے مقصد اور معنی تلاش کرنے کا کہا جس کا لازمی جزو خدا ہے۔

خدا کے وجود یا عدم وجود پر بحث ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔ لیکن اپنے ارد گرد نا انصافیوں، ظلم، عدم مساوات اور بچوں کی لاشوں کو دیکھ کر خدا کے وجود پر سوال تو اٹھتا ہے لیکن پھر جون ایلیا یاد آ جاتے ہیں، کہتے ہیں،

ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر
سوچتا ہوں تری حمایت میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments