‏شارجہ تو آخر شارجہ ہے : میانداد سے نسیم شاہ تک


آج پاکستان نے ٹاس جیتا اور پہلے گیند بازی کا فیصلہ کیا۔

پاور پلے میں یہی لگا کہ افغانستان اٹیک کرنے کی جو سوچ لے کر میدان میں اترا ہے وہ ہی کامیاب ہے مگر پھر یک دم حالات بدل گئے، جذبات بدل گئے، واقعات بدل گئے۔

اس لیے کہ پاکستان کے گیند بازوں نے مذاق مذاق میں افغانی بچوں سے جو لاڈ شروع کیا تھا وہ اب حد سے بڑھ رہا تھا، استاد حارث رؤف نے ”خطرے ناک“ ہوتے ہوئے گرباز کی وکٹیں امارات کے صحرا میں بکھیر کر کرکٹ کا پہلا گر سکھایا، اور پھر بعد ازاں حسنین نے زازئی کے ساتھ یہی سلوک کر کے اپنے ”حضرت“ ہونے کا ثبوت پیش کیا۔

کریم جنت اور اور نجیب اللہ نے وکٹ تو روک لی مگر اس کے ساتھ ساتھ رنز بننے کی رفتار میں بھی خاطر خواہ کمی آئی، اسی دوران شراکت داری بھی جب پھیلنے لگی تو پاکستان نے نواز کو متعارف کروایا اور یوں ”جنت کی کریم“ نواز اور فخر کی مڈبھیڑ کا شکار ہو کر باہر چلی گئی، ابراہیم زدران نے بھی 35 رنز کی قدرے سست باری کھیلی اور پھر حارث کے راکٹ کا نشانہ بن گئے۔

آخری اوور میں راشد خان نے چھکا چوکا لگایا اور گرتے پڑتے افغانستان کی ٹیم نے 129 کا مجموعہ حاصل کر ہی لیا۔

حسنین قدرے مہنگے رہے، باقی سب نے نہایت عمدہ گیند بازی کی۔

شاہینوں کی باری شروع ہوئی تو کپتان بابر اعظم نے سنہری انڈا حاصل کیا اور پہلی ہی گیند پر فضل کا نشانہ بن گئے، اپنے کیریئر کے سب سے برے دور سے گزر رہے ہیں یہ صاحب!

کوئی بات نہیں چیمپئن! آپ کا بلا پھر سے رنز اگلے گا، لیکن خدا را آئندہ کوہلی سے ہاتھ ملانے سے گریز کیجئیے گا۔

خیر! عالمی نمبر ایک رضوان کو فخر کا ساتھ میسر آیا تو یہ کوئی قابل فخر بات نہ تھی، اس لیے کہ پاکستان کی سپن گیند بازوں کے سامنے ٹانگیں کانپ رہیں تھیں، رضوان 20 فخر 5 اور افتخار 30 رنز بنا کر رخصت ہوئے تو میچ بچانے کی ذمہ داری ایک بار پھر سے میانوالی کے آل راؤنڈر اور نواز کے کاندھوں پر تھی۔ یہ شراکت داری وطن عزیز کے لیے نہایت ضروری ہے، کاش کہ ہم سمجھ سکیں۔

شاداب نے مجیب الرحمٰن کے اوور میں چھکا مار کر اپنے ہاتھ کھولے، دوسری جانب نواز نے آتے ہی اپنا کام وہیں سے شروع کیا جہاں بھارت کے خلاف چھوڑا تھا، پہلی ہی گیند پر چوکا مار کے اپنا کھاتا کھولا۔

اور پھر جب دنیا کے بہترین لیگ سپنر کا سامنا، دنیا کے ایک اور بہترین لیگ سپنر سے ہوا تو یہ مقابلہ دیکھنے لائق تھا، شاداب نے گیند کو ہوائی راستے سے عوام کے درمیان بھیجا تو راشد نے اگلی ہی گیند پر انتقام ڈن کر دیا، شاداب 25 گیندوں پر 36 رنز بنا کر رخصت ہوئے تو میچ دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا تھا۔

شاداب کے بعد آصف علی آئے تو راشد کی پہلی ہی گیند ہوا میں تیرتی ہوئی چھکے کے لیے جا چکی تھی، گویا کہ وہ کہہ رہے ہوں!

پریشر؟ یہ کیا ہوتا ہے؟
پہلی گیند پر راشد خان کو کرارا چھکا!

فاروقی اپنے دوسرے سپیل کے لیے آئے نواز کو جانا پڑا، تیسرے ایمپائر کا فیصلہ بھی نواز کے خلاف آیا، اور پھر آیا میچ کا ناقابل یقین لمحہ جب خوشدل اپنی ہی وکٹوں میں کھیل گئے، بولڈ! فضل حق کا ناقابل یقین اوور۔ چار رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کیں اور میچ پاکستان کی گرفت سے مکمل طور پر نکال لیا۔

اگلے اوور میں حارث رؤف بھی پہلی گیند پر بولڈ ہوئے تو آصف علی وکٹوں کی دوسری جانب کھڑے افسوس سے دیکھ رہے تھے، عمر گل کے شاگرد اپنے استاد کا سکھایا ہوا سبق اچھی طرح سے میدان میں پڑھ رہے تھے اور پاکستان آٹھ وکٹیں کھو چکا تھا، اب بھی 20 رنز کی دوری پر فتح تھی، نسیم شاہ نے وائیڈ کا سامنا کرنے کے بعد سنگل لے کر آصف علی کے حوالے میچ کیا اور پھر سوچیں کہ کیا ہوا ہو گا؟

جی ہاں آصف علی ایک اور چھکا! توقعات کے مطابق چھکا! کلین اسٹرائیک۔ اب 8 گیندوں پر فتح صرف 12 رنز دور تھی کہ اٹھتی ہوئی گیند بلے کا اوپری کنارہ لے کر فیلڈر کے ہاتھوں میں۔

نسیم و حسنین وکٹ پر موجود تھے، چھ گیندوں پر گیارہ رنز درکار تھے، آخری اوور فاروقی نے کرنا تھا جس نے 19 رنز دے کر تین اہم ترین وکٹیں حاصل کی تھیں، پاکستان کا انتہائی برا فنش، آخری پانچ اوورز میں صرف 37 رنز بنائے ہیں اور چھ وکٹیں دی ہیں۔

فاروقی نے بھاگنا شروع کیا، ایمپائر کے پاس سے گیند کی اور یہ فل ٹاس پر شاہ جی کا سٹریٹ چھکا۔

میچ ابھی ختم نہیں ہوا تھا، پانچ پر پانچ درکار تھے، میدان میں اعصاب کی جنگ چل رہی تھی اور نسیم شاہ نے دوسری گیند پر بھی بلا گھمایا اور گیند سیدھا عوام کے بیچ۔

جذبات انتہائی عروج پر تھے، پاکستان کا زبردست جشن اور افغانستان جیتی ہوئی بازی ہارنے کے بعد انتہائی مایوس تھے۔

نسیم شاہ نے میدان کا چکر لگانا شروع کر دیا، اور تمام پاکستانی کھلاڑی میدان میں آ چکے تھے۔ خون جوش مار رہا تھا اور ناقابل یقین انداز میں پاکستان میچ جیت چکا تھا۔

نسیم شاہ نے آج شاہد آفریدی کی یاد دلا دی۔ دو گیندوں پر دو چھکے اور پاکستان کی ایک وکٹ سے فتح۔
بس اس بار حریف بھارت نہیں، افغانستان تھا۔
اگر مگر کے بغیر پاکستان اور سری لنکا ایشیا کپ کے فائنل میں پہنچ چکے تھے۔
بہت سے لکھاریوں اور کروڑوں بھارتی شائقین کے دل ٹوٹ گئے اور شاہین فائنل میں پہنچ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments