سیلاب زدگان: ابھی تو راستوں میں جی رہے ہیں


مسلسل حادثوں میں جی رہے ہیں
کہ ہر دم وسوسوں میں جی رہے ہیں
نہیں ٹوٹا ہے اب تک وہ تسلسل
دکھوں کے سلسلوں میں جی رہے ہیں
وہیں پہنچے جہاں سے ہم چلے تھے
سفر کے واہموں میں جی رہے ہیں
ابھی بے سود ہیں منزل کی باتیں
ابھی تو راستوں میں جی رہے ہیں

سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرین پر جو قیامت صغریٰ بپا ہوئی اس کی دل دہلا دینے والی جو داستانیں سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے سامنے آ رہی ہیں وہ ثابت کرتی ہیں اس مرتبہ جتنی بڑی تباہی ہوئی ہے، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ دل دہلا دینے والے مناظر نے درد دل رکھنے والے ہر فرد کو بے چین کر رکھا ہے۔ اس دوران ایسے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں جن سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ابھی اس قوم سے اللہ مایوس نہیں ہوا۔

تمام تر کمزوریوں کے باوجود یہ قوم اب بھی بحرانی صورتحال میں دوسروں کے دکھ درد بانٹنے کی بے پناہ صلاحیت کی حامل ہے۔ صرف جذبہ بیدار ہونے کی دیر ہوتی ہے۔ جذبہ بیدار ہوتے ہی پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر آفت زدہ بہن بھائیوں، جوانوں کے لیے اپنا تن، من اور دھن قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ یہ انتہائی حوصلہ افزا بات ہے چاہے زلزلہ کی قیامت ہو یا سیلاب کی آفت قوم کی بیداری کے روشن مناظر سب کے سامنے ہیں۔ اور نظر یہ آ رہا ہے کہ 2005 اور 210 کے زلزلے اور سیلاب والا جذبہ عود کر آیا ہے

ہر سکول ’کالج‘ ہر یونیورسٹی ’ہر شہر، ہر قصبے اور ہر چوک میں سیلاب زدگان کے لیے امدادی کیمپ لگے ہوئے ہیں۔ مذہبی جماعتیں بلا تفریق مسلک اپنا حق اپنی بساط سے زیادہ ادا کر رہی ہیں۔ جمع ہونے والی ضروری اشیاء اور رقوم حقداروں تک ایک نظم کے ساتھ پہنچا رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی کے فلاحی ادارے آغوش اور الخدمت فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کے رضاکار اس قیامت خیز صورتحال میں جس طرح لوگوں کی داد رسی اور خدمت کر رہے ہیں وہ دوسروں کے لیے قابل تقلید ہے۔

سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں کی بے توجہی ہر ایک کو کھٹکتی رہی حکومت اور سیاسی جماعتیں دیر سے حرکت میں آئیں۔ بہرحال دیر آید درست آید کے مصداق حکومت اس بڑے المیے کی طرف دنیا کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اب اقوام متحدہ اور دوسرے ممالک کی طرف سے امدادی جہاز پہنچ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کی فلاحی تنظیم نے اس قیامت کی ان گھڑیوں میں دونوں نے بڑی قابل تقلید مثالیں قائم کیں۔ چاروں طرف سے پانی میں گھرے ہوئے ’کیچڑ میں لتھڑے ہوئے، لوگوں کی زندگی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ایسے لوگوں کی خدمت کے نتیجے میں ملنے والی خوشی سے فیض یابی سے جو سکون ملتا ہے اس کا کوئی متبادل نہیں۔

اہل قلم، اہل علم اور مذہبی تنظیموں نے ثابت کیا کہ وہ معاشرے کا حساس ترین حصہ ہیں اور مصیبت زدہ لوگوں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ اس ملک و قوم کے محسن ہیں۔ جو صرف اللہ کی رضا کے

حقیقی جذبے کے ساتھ شب و روز مصروف عمل ہیں۔ انہیں نہ فوٹو شوٹ سے غرض ہے اور نہ ویڈیوز سے، وہ ریاکاری اور نمود و نمائش سے دور بھاگتے ہیں۔

اس وقت اگر ایک طرف میڈیا پر یہ خبریں گردش کر رہی ہیں اور ایسی ویڈیوز وائرل ہیں کہ لوگ امدادی گاڑیوں سے سامان لوٹ رہے ہیں تو دوسری جانب ایسے علاقے بھی موجود ہیں جہاں لوگ اللہ کی رضا پر راضی ہیں۔ ہمارے ملنے والے کچھ علماء و مشائخ اور ان کے متعلقین امدادی اشیاء اور نقد رقوم حقداروں میں تقسیم کر نے کے لئے ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف گئے اور تحصیل کلاچی میں کرک روڈ پر ہتھلہ، فیض آباد اور دوسرے متاثرہ قصبوں میں گئے۔

انہوں نے واپس آ کر بتایا کہ ہتھلہ کے جو صاحب دوردراز گاؤں میں لے کر گئے وہاں پوری کی پوری آبادیاں تباہ ہو چکی تھیں اور کھلے آسمان تلے مردوزن، بچے اور بوڑھے بے یار و مددگار پڑے تھے لیکن وہ کسی قسم کا گلہ شکوہ کرتے نظر نہیں آئے بلکہ امدادی اشیاء کی تقسیم کے دوران بھی کسی طرح کی بے صبری کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا اور نہ ہی کسی نے اپنے حصے سے زیادہ مانگا۔

ایک گاؤں میں امام مسجد کے ذریعے امداد دی گئی سب کو اپنے اپنے حصے دے دیے گئے تو امام صاحب سے کہا گیا کہ آپ نے اپنا حصہ نہیں لیا تو انہوں نے کہا کہ میرا بیٹا وہ سامنے ہے جو اپنا حصہ وصول کرچکا ہے اس لئے میں اور حق نہیں رکھتا۔ اسی طرح ایک شخص نے گاؤں میں سامان تقسیم کرایا اور چھ حصے باقی رہ گئے تو اس نے کہا کہ دو افراد امداد لینے آرہے ہیں چار افراد کا آنا یقینی نہیں اس لیے یہ بچے ہوئے حصے آپ ساتھ لے جائیں یہ امانت ہیں میں ان کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔

آخر میں ایک واقعے نے مزید حیرت میں مبتلا کر دیا کہ جو شخص صبح سے ہمارے ساتھ لوگوں میں امداد تقسیم کروا رہا تھا وہ واپسی پر اپنے گاؤں لایا تو وہ بھی سارا گاؤں ملبے کا ڈھیر تھا جب اس سے شکایت کی کہ آپ نے پہلے یہاں امداد کیوں تقسیم نہ کرائی تو اس نے کہا کہ ہمارا گاؤں بر لب سڑک ہے ادھر کوئی نہ کوئی نہ کوئی آ جائے گا۔ جن قصبوں میں لے گیا وہاں کسی کے آنے کی فوری امید نہیں تھی اس لیے میں آپ کو وہاں لے گیا۔

جب اس شخص سے کہا کہ آپ سارا دن ہمارے ساتھ رہے آپ تو اپنے لیے کچھ لے لیتے تو اس کے آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے اپنے تباہ شدہ اینٹ کے بھٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرے تھے میں امداد نہیں لوں گا جو اللہ مجھے پہلے رزق دے رہا تھا وہی دوبارہ بھی دے گا۔ عموماً ہمارے ہاں ایسی باتوں اور واقعات کو ہائی لائٹ کیا جاتا ہے جس سے ہمارے معاشرے کی منفی تصویر ابھرتی ہے۔ حالانکہ مثبت واقعات کو زیادہ ہائی لائٹ کیا جانا چاہیے تاکہ ہمارے معاشرے کی یک طرفہ منفی تصویر کشی کے رجحان کا خاتمہ ہو۔

یہ ملک ایسے ہی صابر و شاکر لوگوں کی نیکیوں کی وجہ سے قائم ہے۔ ان مثبت واقعات کو میڈیا پر زیادہ سے زیادہ ہائی لائٹ کرنا ضروری ہے تاکہ لوگ آفت زدہ علاقوں کا رخ کریں اور متاثرین کی دوبارہ آباد کاری کے لئے جو اگرچہ فوری طور پر ممکن نہیں اپنا حصہ ڈالیں اور ان کی زبوں حالی کا مداوا کریں۔ ایک اور بات یہ شیئر کی گئی کہ ان تباہ حال علاقوں کے مکینوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے علاقے کے قریب کوئی دریا نہیں اس کے باوجود پانی نے اس علاقے کو ملیامیٹ کر دیا۔ مساجد میں بھی پانی آیا لیکن وہ تباہی سے محفوظ رہیں۔ اسی طرح بیالیس ایکڑ کے رقبے پر سیلابی پانی نہیں آیا اور وہ بالکل محفوظ ہے۔ نہ تو یہ دوسرے علاقوں سے اونچا ہے اور نہ ہی کوئی رکاوٹ ہے بس یہ اللہ کی رحمت ہے۔ جس کی کوئی توجیہ ممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments