سیلاب اور سرمایہ دار ریاست کی ریلیف پالیسی


کسی بھی آفت کی صورت میں سرمایہ دار ریاست کچھ منتخب مقامات پر ریسکیو کرتی ہے۔ سڑکیں، پل وغیرہ مرمت کرتی ہے اور پھر خاموش ہو جاتی ہے تاکہ پہلے مرحلے میں ریلیف کا کام عوام کر لیں۔ ایک آدھ ماہ میں جب عوام تھک جائیں تو لوکل این جی اوز شروع کر دیں اور باہر سے بھی امداد آ جائے کہ اگر شروع سے ہی ریاست ریلیف کا کام شروع کر دے تو عوام سے کثیر سرمایہ کیسے نچوڑا جا سکے گا؟

دو چار ماہ بعد باہر سے آنے والی امداد اور سرکاری اعلان شدہ فنڈ کو دو غیر مساوی حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پروجیکٹ کاسٹ اور پروجیکٹ آپریشنل مینیجمنٹ کاسٹ۔

یوں سمجھئیے کہ 100 گھر بنانے کا خرچہ پروجیکٹ کاسٹ کہلائے گا اور ان 100 گھروں کو بنانے کے دیگر جملہ مراحل کا خرچہ پروجیکٹ آپریشنل مینیجمنٹ کاسٹ کہلائے گا۔ جس میں کم از کم پندرہ بیس سے زائد بھاری تنخواہوں والے عہدے تخلیق کیے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ پروجیکٹ کاسٹ 40 فیصد اور پروجیکٹ آپریشنل مینیجمنٹ کاسٹ 60 فیصد ہوتی ہے مگر ابھی صبر کریں۔

پروجیکٹ کاسٹ 40 فیصد میں سے ٹھیکیداری کمیشن و سرخ فیتہ اخراجات منہا کر لیجیے یعنی 100 گھروں پر درحقیقت کل مختص شدہ بجٹ کا 25 فیصد لگتا ہے۔ یعنی اس مرحلے تک ہی پنجابی کے ایک 16 + محاورے کے مطابق ”بی بی نالوں بندے بھارے“ ہو جاتے ہیں

تھوڑا اور رک جائیں۔
ان گھروں کی تعمیر کے خرچ میں سے ٹھیکیدار نے بھی تو روزی روٹی کمانی ہے نا؟

اب اس پچیس فیصد رقم کا کم از کم 10 فیصد تو وہ بھی لے اڑے گا جو مختص شدہ 100 فیصد رقم کے حساب سے کم از کم تین چار اور پانچ چھ فیصد بھی ہو سکتا ہے۔

تو سمجھ لیجیے کہ غیرملکی این جی اوز، بین الاقوامی امداد اور ریاست کی طرف سے مہیا یا اعلان شدہ کل رقم کا بمشکل پندرہ سے بیس فیصد حصہ ہی متاثرین آفت یا سیلاب تک پہنچ پاتا ہے اور عوام کی طرف سے کی گئی امداد بھی ریاست اپنے کھاتے میں کیش کروا لیتی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہماری ریاست نے بین الاقوامی این جی اوز کو یہاں براہ راست ریلیف کا کام کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے جب تک وہ ریاستی سرپرستی میں کام نہ کریں اور یہیں ریاست اپنی گیم کر جاتی ہے۔ باقی 80 / 85 فیصد امدادی رقم یہ سرمایہ داری نظام کھا جاتا ہے۔

حالیہ متاثرین سیلاب اگر ریاستی امداد یا کسی قسم کے فوری ریلیف کے منتظر ہیں تو اپنی یہ غلط فہمی فی الفور رفع کر کے کسی اور حل کی تلاش کی طرف متوجہ ہوں کیونکہ یہ بات ریاست کی پالیسی میں موجود ہی نہیں ہے۔ دو چار مہینے بعد فنڈز کی ”مینجمنٹ“ ہو جانے کے بعد ہی کچھ ہو تو ہو۔ سردیوں کا آغاز ہوا چاہتا ہے عام لوگ زیادہ ترس کھا کر متاثرین کی زیادہ امداد کریں گے

گویا ”زیادہ ترس آئے گا تو زیادہ امداد آئے گا“

تو جناب معاشی طور پر پہلے سے ہی پریشان ریاست احمق تھوڑی ہے کہ عوام ہی کے ذریعے عوام کی امداد کا یہ سنہری موقع ہاتھ سے جانے دے۔

آخر میں اطلاعاً عرض ہے کہ وطن عزیز ایک سرمایہ دار استحصالی ریاست ہے اور آپ کو اختلاف رائے کا بھرپور حق حاصل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments