انسانی اعضا کی غیرقانونی پیوندکاری کا مکروہ دھندا


کہتے ہیں کہ عمر شریف جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنے بے ساختہ مزاح اور بھرپور مزاحیہ اداکاری کی وجہ سے یکتا مانے جاتے تھے ان کی موت کا سبب وہ دکھ تھا جو ان کو بیٹی کے گردوں کے علاج میں دھوکہ کی وجہ سے ملا تھا۔ گو کہ انہوں نے پیسہ پانی کی طرح بہایا تھا مگر عطائی ڈاکٹر کی نا اہلی کی وجہ سے بچی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی، یہ اتنا بڑا دکھ تھا کہ عمر شریف اندر سے ٹوٹ کر رہ گئے تھے اور اس کے بعد ان کی صحت مسلسل تنزلی کا شکار رہی جو ان کی موت پر جاکر ٹھہری۔

گزشتہ دنوں ایک تصویر نے دل مٹھی میں بھر لیا، وہ کچھ یوں تھی کہ ایک لاوارث مجذوب سر راہ بیہوش و بے سدھ پڑا تھا اور اس کی کمر کے پاس سے خون رس رہا تھا جو زمین پر جمع تھا، اس ہوش و حواس سے بیگانہ شخص کا المیہ یہ تھا کہ کسی نے اس کا گردہ نکال کر اسی حالت میں اسے راستے پر مرنے کے لئے چھوڑ دیا تھا۔ یہ بڑی بے حسی اور انتہا درجے کی سفاکیت تھی، ظاہر ہے جو اتنا گھناؤنا عمل کر سکتا ہے اس کے پاس اخلاق چہ معنی دارد والی بات ہوئی۔ مگر امر استعجاب یہ ہے کہ اگر اس مکروہ فعل کے مرتکب ہو بھی گئے ہیں تو اتنی حیا تو ہونی چاہیے کہ اسے کم از کم جانبر ہونے جتنی سہولت یا آسانی فراہم کر دی جاتی کہ اسے ایک انتہائی قیمتی عضو سے محروم و معذور کر دیا گیا ہے جو لاکھوں کا بکے گا۔ مگر اسے روڈ پر بے یار و مددگار پھینک دیا گیا۔

پاکستان میں زندہ انسانی اعضا بالخصوص گردوں کی خرید و فروخت کا غیر قانونی کاروبار اپنے عروج پر ہے۔ پنجاب میں گاؤں کے گاؤں ایسے ہیں جہاں شاذ و نادر ہی کوئی دو گردے والا ہو، عمومی لوگ اپنے گردے غربت سے تنگ آ کر بیچ کر کھا چکے ہیں، کسی کو قرض اتارنا تھا، تو کسی کو بیٹی کی شادی کرنا تھی وہاں ایجنٹ پھرتے ہیں جو لوگوں کو سبز باغ دکھا کر یا دھوکہ دے کر انہیں گردوں سے محروم کر دیتے ہیں، یہ ایجنٹ ان غیر قانونی ہسپتالوں کے لئے کام کرتے ہیں جو گردوں کی غیرقانونی پیوندکاری میں ملوث ہوتے ہیں۔

ان سب کا الگ الگ طریقہ واردات ہوتا ہے، کچھ انسانی اعضا کا عطیہ جمع کرنے والے کی شکل میں لوگوں کو پھنساتے ہیں، کچھ نوکری کا جھانسا دے کر کہیں لے جا کر قید کر دیتے ہیں اور زبردستی گردہ نکال لیتے ہیں، کچھ اغوا کر کے بیہوش کر کے غرض سائنسی دور ہے جتنا ممکن ہو سکتا ہے ہاتھ کی صفائی دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان مجرموں میں باقاعدہ کوالیفائڈ ڈاکٹرز بھی ہوتے ہیں اور عطائی ڈاکٹرز بھی، ایجنٹس بھی ہوتے ہیں اور ہسپتالوں کے مالکان بھی، جن کے ضمیر مردہ یا سو چکے ہوتے ہیں کہ وہ معصوم و مجبور لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہوتے ہیں یا کم از کم ان کی غربت و مجبوریوں سے فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ یہ غریب و مجبور لوگوں سے چند ہزار میں زندہ انسانی اعضا کا سودا کرتے ہیں اور تیس سے چالیس لاکھ میں آگے فروخت کر دیتے ہیں۔ اصل مالک کے ہاتھ صرف افسوس، بیماری، معذوری یا موت ہی آتی ہے۔

اس ضمن میں اب تک کوئی موثر تادیبی کارروائی عمل میں نہیں آئی ہے لوگ پکڑے جاتے ہیں اور چھوٹ جاتے ہیں نوکریوں سے نکالے جاتے ہیں دوبارہ ان ہی نوکریوں پر واپس آ جاتے ہیں لہذا بے خوفی سے یہ مکروہ دھندا جاری ہے۔ اس وقت پاکستان دنیا بھر میں انسانی اعضا کی غیر قانونی پیوندکاری اور منتقلی کے لئے بدنام ہے، یہاں دھوکہ سے ہتھیائے ہوئے اعضا بھی پیوندکاری کے لئے مل جاتے ہیں، اور اب شہرت کی حالت یہ ہے کہ بعض غیر ممالک سے بھی لوگ یہاں آ کر غیرقانونی پیوندکاری کروا رہے ہیں۔

حالانکہ یہ پورا معاملہ اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن کے زیر نگرانی آتا ہے جو اس مکروہ دھندے کی روک تھام کے لئے کارروائی بھی کرتے ہیں مگر مافیا اتنا مضبوط ہے کہ وہ کچھ بھی موثر انداز میں نہیں کر پا رہے لہذا یہ مذموم کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے اور لوگوں کو موت بیچ رہا ہے یا معذور بنا رہا ہے۔ اس دھندے کا سرغنہ کئی کئی بار پکڑا جاتا ہے مگر چھوٹ کر آ جاتا ہے اور وہیں سے کاروبار شروع کر دیتا ہے جہاں سے چھوڑ کر گیا تھا۔

صورتحال اب اتنی بگڑ گئی ہے کہ گروہ کے گروہ مختلف حیلوں بہانوں سے لوگوں کو میں پکڑ پکڑ کر ان کے زندہ اعضا نکال رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے پنڈی میں چھاپے کے دوران پولیس نے ایسے کئی درجن افراد کو بر آمد کیا جن کو ایک بلڈنگ میں نوکری کا جھانسا دے کر لاکر بند کر رکھا تھا اور ان کے گردے نکالے جا رہے تھے کہ پولیس نے بروقت کارروائی کی اور بہت سارے لوگوں کو اس سفاکیت کا نشانہ بننے سے بچا لیا۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں ہے پورے ملک میں اس طرح کے واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں، بالخصوص پنجاب بری طرح اس کی لپیٹ میں ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر اس مکروہ دھندے کا قلعہ قمع کرنے کے لئے موثر قانون سازی کی جائے اور متذکرہ دھندے میں ملوث افراد کو قانون کے شکنجے میں جکڑ کر قرار واقعی سزائیں دی جائیں جو اس قماش کے لوگوں کے لئے مثال بن جائیں۔ ورنہ روز ایک دکھ بھری کہانی جنم لیتی رہے گی اور لوگ اسے تب تک نظر انداز کر کے آگے بڑھتے رہیں گے جب تک خود اس کا شکار نہ ہو جائیں۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ کوئی عمر شریف جیسے مشہور و معروف انسان کے ساتھ بھی ایسا کر سکتا ہے مگر ہوا جو بذات خود ایک عظیم المیہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments