صحت مند سندھ کا خواب: سیلاب میں 1200سے زائد ہسپتال اور بنیادی مراکز ڈوب گئے


برائے کرم پہلے والی تحریر کو منسوخ سمجھا جائے، کیونکہ ہسپتالوں اور صحت مراکز کی تعداد 400 نہیں 1200 سے زائد ہے۔

خوشیاں صحت مند زندگی کی علامت ہوتی ہیں، لیکن سیلاب نے میرے صوبہ سندھ سے تمام تر خوشیاں چھین لی ہیں، کوئی آنکھ ایسی نہیں ہے جو سیلابی ریلوں کے ساتھ ساتھ اشکبار نہ ہوتی ہوں، حالیہ تباہ کاریوں سے کوئی متاثر ایسا نہیں ہو گا جو حکومتی نا اہلی پر ماتم نہ کر رہا ہو، لوگ اس وقت راشن نہ ملنے کا ماتم کر رہے ہیں، پینے کے صاف پانی کے لیے ماتم کر رہے ہیں، علاج و معالجے کی سہولیات کی عدم فراہمی پر ماتم کر رہے ہیں، ہاں سندھ کا بچہ بچہ اس وقت روئے زمیں پر حکمرانوں کے بھیس میں چھپے یزیدوں کے خلاف ماتم کر رہا ہے، لیکن حکمرانوں کو سیلاب زدہ عوام کی چیخیں سنائی نہیں دے رہیں، شاید صوبے کی مقبول اور حکمران جماعت نے اس بات کو زد چھرے سے بھانپ لیا ہے کہ سندھ کی عوام مشکل کے وقت میں سراپا احتجاج بن جاتی ہے اور جھوٹے وعدوں پر خاموش ہو جاتی ہے، لیکن وقت محسن بھی ہے تو بے رحم بھی، جس کا سندھ کے حکمرانوں کو ادراک ہونا چاہیے۔

سیلاب نے جہاں سندھ کے تمام شعبہ جات کو تہس نہس کر دیا ہے وہیں پر صحت کی سہولیات کو بھی تباہ و برباد کر دیا ہے، سیلاب کی تباہ کاریوں سے شعبہ صحت کی سہولیات بھی ڈوب چکی ہیں اور مختلف اضلاع سے موصول ہونے والے اعداد شمار بتاتے ہیں کہ صوبے سندھ میں 1200 سے زائد ڈسٹرکٹ ہسپتالیں، تعلقہ ہسپتالیں، ٹرشری ہسپتالیں، بیسک ہیلتھ یونٹس، رورلر ہیلتھ سینٹرز اور ماں و بچے کی صحت کے حوالے سے ہیلتھ کے متعلق پی پی ایچ آئی کے سینٹرز سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، بارشوں اور سیلاب کے ریلوں نے شعبہ صحت کے نظام کو ہی بہا لے گیا ہے، جبکہ دیہات کے علاقوں میں بسنے والے افراد سیلاب سے قبل ہی علاج و معالجے کے لیے پریشان تھی اور دور دراز ایریاز میں بسنے والے افراد صحت کے مراکز تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں ایسے میں جب سیلاب نے صوبے بھر میں صحت کے نظام کو ہی رونڈ لا ہے تو پھر سوال یہ ابھرتا ہے کہ اب وہ عوام کسی طرح طبی سہولیات سے آراستہ ہو سکیں گے، جو کہ حکومت سندھ کے سامنے ایک بڑا چیلنج بن کر ابھر رہا ہے۔

سیلاب کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اضلاع میں ضلع نوشہرو فیروز اول نمبر پر ہے، جہاں کی 90 فیصد ہسپتالیں اور صحت مراکز زیر آب پیں، اور دوسرا نمبر ضلع خیرپور میرس کا ہے، جہاں کی 85 فیصد ہسپتالیں ’رورل ہیلتھ سینٹر اور بنیادی صحت مراکز کی عمارتیں سیلاب کے پانی سے بھری ہوئی ہیں۔ صوبہ سندھ کی مذکورہ ہسپتالوں اور صحت مراکز میں کئی کئی فٹ پانی جمع ہونے سے صحت کی سہولیات مکمل طور پر بند ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے مریض پریشان حال علاج معالجے کے لیے دربدر ہوچکے ہیں۔

دوسری جانب سیلابی پانی سے بھری سرکاری عمارتوں میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں اور متعدد عمارتیں عدم مرمت کی وجہ سے خستہ حالی کا شکار ہیں اور وہ کسی بھی وقت زمین بوس ہونے کا خدشہ ہے۔ شعبہ صحت سے وابستہ ایک ریٹائرڈ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہسپتالوں اور صحت مراکز میں قومی اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون اور مالی امداد سے مختلف امراض کی آگہی و علاج کے لیے

1درجن سے زائد پروگرامز بھی مکمل پر التوا کا شکار ہوچکے ہیں، جبکہ ٹی بی، ملیریا، ماں اور بچے کی صحت، ایمرجنسی، سرجری، ای این ٹی، نفسیاتی مسائل، پولیو، کرونا سمیت دیگر امراض کے متعلق سیلاب سے قبل پروگرامز بدستور جاری تھے، جو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بند پڑے ہیں۔ محکمہ صحت کے آزاد ذرائع کے مطابق سیلاب کی وجہ سے صوبے کے 15 سے زائد اضلاع کی تمام تر چھوٹی و بڑے ہسپتالیں ’رورل ہیلتھ سینٹر اور بنیادی صحت مراکز ڈوب چکے ہیں، جس میں سب زیادہ متاثر ہونے والا ضلع نوشہرو فیروز ہے، جہاں کی 124 ہسپتالوں اور صحت مراکز میں سے محض 9 فعال و 114 غیر فعال ہیں، جن کہ دوسرا متاثر ہونے والا ضلع خیرپور میرس ہے جہاں پر ہسپتالوں اور صحت مراکز کی تعداد 100 ہے، جس میں سے 80 مکمل طور پر ڈوب چکے ہیں۔

محکمہ صحت کے مطابق ضلع ٹھٹھہ کی 47 ہسپتالوں اور صحت مراکز میں سے 2 زیرآب ہیں اور 45 فعال ہیں، اسی طرح ٹنڈو محمد خان کی 71 میں سے 66 ہسپتالیں اور صحت مراکز فعال ہیں اور 5 صحت کی سہولیات ڈوب چکی ہیں۔ سیلاب سے صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی صحت کی سہولیات کے اداروں کی عمارت ڈوب چکی ہیں، ضلع گھوٹکی کے 128 میں سے 25 ہسپتالیں اور صحت مراکز زیر آب ہیں، کشمور ایٹ کندھ کوٹ کی 95 میں سے 65 صحت کی سہولیات کے ادارے سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔

ضلع سکھر بھی سیلاب کی وجہ سے متاثر ہوا ہے جہاں پر 44 میں 13 ہسپتالیں اور مراکز پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں‘ ٹنڈوالہ یار میں 3 ’ضلع سجاول میں 2 ہسپتالیں اور صحت مراکز سیلاب کی زد میں ہیں۔ محکمہ صحت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سیلاب میں ڈوب جانے والی ہسپتالوں اور بنیادی صحت مراکز میں کروڑوں روپے مالیت کی مشینری اور ادویات بھی پانی کی نظر ہو چکی ہیں، جس سے قومی خزانے کو خطیر رقم کا نقصان پہنچا ہے۔ عمومی طور سندھ کے شہروں اور دیہاتوں میں طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے لوگوں کو دربدر ہونا پڑتا تھا اب جبکہ سیلاب نے صوبے بھر کو ڈبو دیا ہے ایسے میں سندھ حکومت کے لیے صحت کے نظام کی بحالی ایک چیلنج بن گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments