دانش گاہ کا قبرستان: لالو کھیت کا میدان


دسمبر 1966 ء کی بات ہے میں اسکول میں چھٹی جماعت کا طالبعلم تھا۔ 6 دسمبر کو مختلف جماعتوں کے 50 کے لگ بھگ بچے اسکول کی اجلی اور بے داغ یونیفارم زیب تن کیے پی ٹی گراؤنڈ میں کھڑے تھے تمام بچوں کے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پاکستانی پرچم بھی تھے میں بھی ان بچوں میں شامل تھا۔ ہمارا اسکول ناظم آباد میں واقع تھا، ہمیں بتایا گیا تھا کہ آج پاکستان کے صدر ایوب خان لیاقت آباد کے میدان میں تشریف لا رہے ہیں جہاں وہ ہمدرد لیبارٹریز کی طرف سے تعمیر ہونے والے انسٹی ٹیوٹ اینڈ طبی ریسرچ سینٹر کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔

ہم ننھے طالب علموں کے گروپ ان کی آمد پر ان کو خوش آمدید کہنا ہے، ساتھ ساتھ پاکستان زندہ باد اور ایوب خان زندہ باد کے نعرے بھی بلند کرنے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم سب کو اسکول وین میں سوار کرا دیا گیا، اسکول کی کچھ ٹیچرز اور ہیڈ مسٹریس بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ 15 منٹ کے اندر اندر ہم منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ وہاں خوب گہماگہمی تھی اور بڑا پنڈال سجا ہوا تھا۔ یہ مقام لیاقت آباد نمبر 10 سابقہ لالو کھیت کے سامنے اور آج کے الکرم اسکوائر کے ساتھ واقع ہے۔

حکیم محمد سعید صاحب اپنی سفید شیروانی اور پاجامے میں ملبوس استقبالیہ پر کھڑے ہوئے تھے۔ ہم سب بچوں کو ان کے عقب میں کھڑا کر دیا گیا، ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ موٹرسائیکلوں اور سائرنوں کی آوازیں سنائی دیں اور ایک لمبی سی سیاہ کار استقبالی مقام پر آ کر کھڑی ہو گئی گاڑی کا دروازہ کھلا اور اس میں سے صدر ایوب خان برآمد ہوئے، یہ وہ زمانہ تھا جب ایوب خان کی تصویریں روز ہی اخبارات کی زینت بنتی تھیں، اس لیے ہم سب بچوں نے ایک لمحے میں ان کو پہچان لیا اور فوراً ہی زندہ باد کے نعرے بلند کرنا شروع کر دیے۔

میں اس زمانے میں بھی بچوں کے رسالے ہمدرد نونہال کا مستقل قاری تھا، اس وجہ سے حکیم سعید صاحب سے بھی اور ان کی طبی اور سماجی شعبے میں خدمات سے کافی حد تک واقف تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بچوں کی مشاغل آج کل کے بچوں سے مختلف ہوا کرتے تھے۔ ہم بھی مختلف ممالک کے ڈاک ٹکٹ، سکے اور پکچر پوسٹ کارڈ جمع کیا کرتے تھے۔ اس سنگ بنیاد کے سلسلے میں دو باتیں ہمیں اچھی طرح یاد ہیں کہ اس موقع پر لیاقت آباد نمبر 10 سابقہ لالو کھیت سے ناظم آباد پیٹرول پمپ تک کی سڑک کا نام شاہراہ حکیم ابن سینا رکھ دیا گیا تھا اور پاکستان کے محکمہ ڈاک نے اس سنگ بنیاد کے مناسبت سے حکیم ابن سینا کی تصویر والا ڈاک کا ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔

استقبالی تقریب کا آغاز ہوا اور روایت کے مطابق تلاوت قرآن شریف کے بعد حکیم سعید صاحب نے سپاس نامہ پیش کیا، انہوں نے اپنی استقبالیہ تقریر میں کہا کہ ”انسٹی ٹیوٹ 5 کروڑ روپے کی لاگت سے قائم کیا جائے گا اور اس کی عمارتیں اٹھارہ ایکڑ رقبہ اراضی پر محیط ہوں گی ، انھوں نے کہا تعمیر کی تکمیل 5 سال میں ہوگی اور یہ ادارہ ملک کی طبی تاریخ میں ایک سنگ میل ہو گا یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا اور انوکھا ادارہ ہو گا، جس میں دیسی جڑی بوٹیوں، پودوں اور دو اوں پر تحقیق کا کام کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ایک اسپتال ہو گا جس میں سرجن، ڈاکٹر اور حکیم مل جل کر ایک ٹیم کی طرح کام کریں گے جو علاج اور دو اؤں کے فارمولے موثر پائے جائیں گے ان کا کیمیاوی اور طبی تجزیہ کیا جائے گا۔ ادارہ کے ساتھ ایک کالج ہو گا جس میں مختلف نظام ہائے ادویہ کی تعلیم دی جائے گی، ادارہ کے ساتھ ایک مرکزی لائبریری قائم کی جائے گی جس میں صحت کی تعلیم، صحت و صفائی، قدیم و جدید ادویہ اور طبی ریسرچ کے موضوعات پر تقریباً 5 لاکھ کتابیں ہوں گی، اس انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے ذریعے علاج کے ایک ایسے نظام کو ترقی دی جائے گی جو پاکستانی عوام کے لیے مفید اور ارزاں ہو۔

اس طرح مختلف ادویہ کی درآمد پر صرف ہونے والا کثیر زرمبادلہ بھی بچایا جا سکے گا۔ کیونکہ پاکستانی عوام کی اکثریت دیسی دواؤں پر بھروسا رکھتی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ صحت کی بابت تعلیم اور بیماریوں سے بچاؤ کے طریقوں کو فروغ دے گا، ساتھ ہی یہاں علاج کی سہولتیں فراہم ہوں گی، ادارے کے لیے جڑی بوٹیوں کا باغ لگانے کے لیے ایک ہزار ایکڑ زرعی اراضی کا بندو بست بھی کر لیا ہے، جو لانڈھی اور گھارو کے درمیان واقع ہے۔

حکیم صاحب کے منصوبے کے مطابق اس انسٹی ٹیوٹ کو 72۔ 1971 ء میں مکمل ہوجانا تھا لیکن یہ منصوبہ آج 51 سال گزرنے کے بعد بھی اس منصوبے کی پہلی اینٹ بھی نہ رکھی جا سکی۔ آخر ایسا کیا اور کیوں ہوا؟

وائے افسوس اس کے نہ تعمیر ہونے کی وجہ ہمارے قومی مزاج کا کھوکھلا پن اور سماج کے کرتا دھرتا طبقے کا غیر سنجیدہ اور ظالمانہ رویہ ہے۔ میں نے جس طرح پہلے ذکر کیا کہ اس انسٹی ٹیوٹ کے سنگ بنیاد کے وقت میں اسکول کا طالبعلم تھا اور غالباً چھٹی جماعت میں تھا۔ حسن اتفاق ہے کہ ہماری رہائش اس زمانے میں اس میدان سے متصل علاقے فیڈرل کیپٹل ایریا میں تھی جو ایک سرکاری ملازمین کی بستی ہے۔ ہمارے گھر کے پاس ہی ایک چھوٹی سی مارکیٹ تھی جس میں اور دکانوں کے علاوہ حجام کی دکان بھی تھی۔

دکان کے مالک جو خود بھی حجام تھے خلیفہ جی کہلاتے تھے۔ وہ بڑی فرصت کا زمانہ تھا، نہ ٹیلی ویژن تھا نہ موبائل، عام طور پر حجام کی دکانیں ہر قسم کی گپ شپ کا مرکز ہوا کرتی تھیں، جہاں سیاست سے لے کر فلموں تک ہر موضوع گفتگو ہوا کرتی تھی۔ انسٹی ٹیوٹ کے سنگ بنیاد کے تھوڑے عرصے بعد میں اپنے بال ترشوانے خلیفہ جی کی دکان پر گیا، اتوار کا دن تھا اس لیے دکان میں خاصا رش لگا ہوا تھا، چار پانچ افراد آپس میں محو گفتگو تھے، جس میں خلیفہ جی بھی شامل تھے، خلیفہ جی خاصے غصے میں نظر آرہے تھے اور اونچی آواز میں بات کر رہے تھے۔ گفتگو کچھ اس قسم کی تھی، ایک آدمی کہہ رہا تھا ”خلیفہ جی! تم حکیم محمد سعید کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے وہ بہت بڑے آدمی ہیں۔ جواب میں خلیفہ جی کہہ رہے تھے، میں دیکھ لوں گا حکیم صاحب کو ، میں ان کے خلاف عدالت میں مقدمہ درج کروانے والا ہوں۔“

حالانکہ میں اس وقت بہت کم عمر تھا لیکن چونکہ میں نے انسٹی ٹیوٹ کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کی تھی اور اپنے مشغلے کے پیش نظر حکیم ابن سینا کی تصویر والا گلابی رنگ کا ڈاک کا ٹکٹ خرید کر اپنی اسٹیمپ البم کی زینت بھی بنا لیا تھا اس لیے اس مکالمے میں دلچسپی نظر آئی۔ گھر آ کر میں نے اپنے والد سے اس کا ذکر کیا تو وہ مسکرائے اور انھوں نے بتایا کہ خلیفہ جی نے اس سے بیشتر شاید ڈپٹی کمشنر سے اس پلاٹ پر جو حکیم صاحب کو انسٹی ٹیوٹ کے لیے الاٹ کر دیا گیا تھا، ہیئر ڈریسر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کے لیے کوئی رسمی اجازت نامہ حاصل کر لیا تھا اور اب ان کا دعویٰ تھا کہ یہ زمین ہیئر ڈریسر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کے لیے مختص کی گئی تھی اس لیے اس کا قبضہ مجھے دلایا جائے۔ قصہ مختصر خلیفہ جی نے سندھ ہائی کورٹ میں پیٹیشن داخل کر دی اور عدالت میں روایتی سستی کے ساتھ یہ مقدمہ چلنے لگا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسٹی ٹیوٹ اینڈ طبی ریسرچ سینٹر کی تعمیر کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔

وقت گزرتا گیا مقدمے کی تاریخ پہ تاریخ پڑتی چلی گئی اور 1972 ء کا سال آ گیا۔ ایوب خان قصۂ پارینہ بن گئے اور جناب ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی حکومت قائم ہو گئی۔ ہماری رہائش ابھی تک فیڈرل کیپٹل ایریا میں ہی تھی۔ وہاں نئی عوامی حکومت نے سرکاری ملازمین کے لیے کچھ نئی رہائشی عمارتیں تعمیر کرنا شروع کر دیں۔ اس رہائشی عمارتوں کی تعمیر کی افتتاحی تقریب میں اس وقت کے وفاقی وزیر تعمیرات جناب رانا محمد حنیف صاحب تشریف لائے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خلیفہ جی نے وزیر تعمیرات سے اپنے مقدمے کو پیش کرنے کے لیے ملاقات کرنے کی کوشش کی جس کی ان کو اجازت نہ مل سکی، جب تقریب سے فارغ ہو کر وہ وزیر واپس جانے لگے تو خلیفہ جی ڈرامائی انداز میں اپنے مقدمے کی فائلیں بغل میں دبائے وزیر کی گاڑی کے سامنے لیٹ گئے۔ مجبورا وزیر محترم کو ان کی درخواست وصول کرنا پڑی اور انھوں نے سیاسی انداز میں خلیفہ جی کو تسلی بھی دی۔

اسی اثناء میں 9 جولائی 1972ئ کو سندھ میں ایک افسوس ناک واقع رونما ہوا، جب زبان کے معاملے پر ہونے والے فساد اور مشتعل مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ شومئی قسمت ان ہلاک ہونے والے افراد میں سے چھ افراد ہمدرد انسٹی ٹیوٹ کے لیے مختص پلاٹ سے گزر کر اپنے گھروں کو جا رہے تھے کہ پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن کر جاں بحق ہو گئے۔ ان کی یاد میں اسی مقام پر ان افراد کی تدفین کردی گئی اور یہاں مسجد شہداء کے نام سے ایک مسجد تعمیر کردی گئی۔

مسجد کی تعمیر کے بعد شہر کراچی میں برسوں سے سرگرم قبضہ مافیا نے باقی ماندہ پلاٹ پر بھی قبضہ کر لیا، وہاں ٹین کے بنے ہوئے صندوقوں کا بازار اور ایک مویشی منڈی قائم ہو گئی، جہاں بھیڑ بکریوں کی خرید و فروخت شروع ہو گئی۔ کچھ افراد نے رہائشی مکانات بھی تعمیر کر لیے جہاں ہیروئین، چرس اور جسم فروشی کا کاروبار شروع ہو گیا۔

کہا جاتا ہے کہ اس اندوہناک واقعہ کے بعد اور انسٹی ٹیوٹ کی مجوزہ زمین پر قبریں اور مسجد کی تعمیر کی آڑ میں پورے پلاٹ پر قبضہ مافیا کے قبضے کے بعد اور مسجد کی تعمیر اور پہلے سے قائم خلیفہ جی کے مقدمے کی وجہ سے حکیم صاحب نے اس مقام پر انسٹی ٹیوٹ کی تعمیر کا خیال ہی ترک کر دیا۔ کہتے ہیں کہ 1993 ء میں جب حکیم سعید نے سندھ کے گورنر کا عہدہ سنبھالا تو حکومتی افسران نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ کی یہ زمین واگزار کرائی جا سکتی ہے اور ناجائز قابضین کو بے دخل کیا جاسکتا ہے، لیکن حکیم سعید نے ایسا کوئی قدم اٹھانے سے گریز کیا۔

حکیم سعید انتھک محنت اور جدوجہد کرنے والے انسان تھے انھوں نے 1991 ء میں اپنے خوابوں کی تعبیر مدینۃ الحکمت کی شکل میں حاصل کر لی۔ آج مدینتہ الحکمت دراصل ایک یونی ورسٹی ہے جو ساڑھے تین سو ایکڑ کی وسیع اراضی پر قائم ہے، یہاں پہلی کلاس سے لے کر یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے تک کے انتظامات موجود ہیں اور 5 لاکھ کتابوں پر مشتمل ایک لائبریری بھی قائم ہو چکی ہے۔ لیکن یہ یونیورسٹی شہر سے کافی فاصلے پر واقع ہے، طالبعلموں اور تدریسی عملے کو یونیورسٹی آنے جانے میں خاصی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر یہ یونیورسٹی اپنے پرانے مقام پر صحیح وقت پر قائم ہوجاتی تو 1971ء سے لے کر 1991ء تک 20 سال کے طویل عرصے میں ہزاروں نوجوان تعلیم حاصل کر کے فارغ التحصیل ہو جاتے۔ دوسری بات یہ کہ یونیورسٹی شہر کے قلب میں واقع ہوتی جس کے بہت سے فوائد ہوتے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے حکیم سعید کے اس معاشرے پر دور رس نتائج دینے والے احسانات کا بدلہ اس طرح چکایا کہ 17 اکتوبر 1998 ء کی صبح نامعلوم افراد نے انہیں گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔

آج اس نکتے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک جہاں آزادی کے وقت ہم سے زیادہ غربت اور پسماندگی تھی اپنے آقا ملک برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی پانچویں بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے اور ہم اخلاقی اور سماجی طور پر تو پہلے ہی دیوالیہ پن کا شکار ہیں اور اب معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے خطرے سے بھی دو چار ہیں۔ اس کی کئی وجوہ ہیں لیکن ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے میدانوں کو دانش گاہوں کے قبرستان نہیں بننے دیا۔

لالو کھیت کا یہ بد نصیب میدان ہم سے سوال کرتا ہے ”کہ مجھے علم و دانش کا مرکز بنانے کے بجائے آپ سب نے خونی مافیاؤں کے سپرد کیوں کر دیا؟ اس سوال کا جواب ہم سب پر ایک بھاری قرض ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments