عہد رسالتؐ میں عموماً خواتین برہنہ چہرہ رہتی تھیں


مسلم خواتین کے حجاب اور خاص طور نقاب کے حوالے سے مسلم معاشروں میں کچھ خاص انصاف نہیں ہوا۔ بغیر کسی مضبوط دلیل کے، محض قیاس اور مٹھائی بمقابلہ مکھیاں، گوشت بمقابلہ چیل اور بکری بمقابلہ بھیڑیا جیسی بے ہودہ مثالیں دے کر مسلم خواتین کی زندگیاں اجیرن بنا دی گئی ہیں۔ مسلم خواتین کے لیے حجاب کا ایشو جدید دنیا میں نیا رخ اختیار کر چکا ہے۔ کچھ خواتین کو لگتا ہے کہ چہرے کا نقاب بھی ان پہ فرض ہے۔ جب کہ کچھ یہ سمجھتی ہیں کہ سکارف فرض ہے نقاب نہیں۔

جب کہ محض دوپٹہ لینے والی بہت سی خواتین احساس گناہ کا شکار رہتی ہیں۔ جدید دنیا میں ’پہچان‘ بھی ایک ایشو بن چکا ہے۔ چہرہ پہچان کی علامت ہوتا ہے اور دنیا کے بہت سے ممالک میں یہ علامت چھپانے پہ پابندی لگائی گئی ہے یا پابندی لگانے کی طرف رجحان پایا گیا ہے۔ وہ بھی سچے ہیں۔ کرونا کے دوران ماسک کے رواج کے دوران دیکھا گیا ہے کہ مردوں کا چہرہ نظر نہ آنے کی وجہ سے بھی مخاطبین کو مسائل کا سامنا رہا اس وقت چوں کہ خواتین کی بڑی تعداد نقاب کرنے کو لازم سمجھتی ہے اس لیے انہیں بین الاقوامی سطح پر بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ خواتین اپنے مسائل کے ساتھ تو نمٹ ہی رہی ہیں مگر یہ سوالیہ نشان ان لوگوں پہ ہے جنہوں نے ایسی فضا اور بیانیہ بنا دیا کہ جیسے نقاب اور اسلام لازم و ملزوم ہیں جب کہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں۔

حجاب کے معاملات تین مختلف کیٹیگریز میں ہیں۔ پہلا درجہ امہات المؤمنین کے لیے ہے دوسرا عام خواتین کے لیے اور تیسرا باندیوں کے لیے۔ مگر اس موضوع پر اگلے مضمون میں عرض کیا جائے گا۔ فی الحال چہرے کی برہنگی کی بات کرتے ہیں۔

قرآن مجید میں خدا تعالیٰ نے مرد و زن کو غض بصر یعنی نگاہ نیچے رکھنے کا حکم دیا۔ مرد برہنہ رو ہوتے ہیں اس لیے خواتین کی نگاہ نیچے رکھنے کا حکم سمجھ میں آتا ہے۔ مگر اگر خواتین بھاری برقعوں میں ہوں تو مردوں کو نگاہ نیچی رکھنے کا حکم دینے کی کوئی منطق نہیں بنتی۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ چہرہ چھپانے کا سرے سے کوئی حکم نہیں ہے۔ البتہ کئی جگہوں پہ باقاعدہ چہرہ کھولنے کی بات ضرور کی گئی ہے۔

غض بصر والی آیت کی تشریح میں علامہ شوکانی لکھتے ہیں کہ ابن مردویہ نے علی بن ابو طالب رض سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ دور رسالت میں مدینہ کی ایک گلی سے ایک شخص گزر رہا تھا اس کی نظر ایک خاتون پر پڑی خاتون نے بھی اسے دیکھا دونوں ایک دوسرے کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھنے لگے وہ شخص دیوار کے کنارے عورت کو دیکھتا ہوا بڑھ رہا تھا کہ سامنے کی دیوار سے ٹکرا گیا اور ناک پھٹ گئی۔ (واقعہ لمبا ہے ) اس سے کیا لگتا ہے کہ خاتون دو آنکھوں والے برقعے میں ہو گی؟ بالکل نہیں۔

فتح الباری میں ہے کہ ابن ابی حاتم حضرت ابن عباس سے خیانت نظر کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ گزرنے والی خوبصورت عورت پر مرد نظر ڈالے اور جس گھر میں وہ گھر میں داخل ہوں جب لوگ محسوس کر لیں تو نگاہ نیچے کر لے۔

اب چہرے کی برہنگی کے بغیر خوبصورتی کا تصور کیسے بنتا ہے۔ ؟

اسی تناظر میں سورہ احزاب ( 52 ) میں رسول اللہ ﷺ مزید شادی نہ کرنے کا حکم ہے اور ساتھ کہا گیا کہ ”اگر اپ کو ان کا حسن اچھا بھی لگے“ (تو نکاح نہیں کریں )

اس سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ خواتین برہنہ رو رہتی تھیں تبھی ان کے حسن کے اچھا لگنے کی بات کی گئی۔

مسلم شریف کی ایک روایت کے مطابق حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم کو فرماتے ہوئے سنا جب تم میں سے کسی کو کوئی عورت اچھی لگے اور اس کا خیال دل میں آ جائے تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کے پاس چلا آئے۔

یہاں بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ خواتین نہ تو گھروں میں بند ہوتی تھیں اور نہ بھاری بھرکم برقعوں میں ملبوس ہوتی تھیں۔

اگلی دلیل یہ ہے نکاح کی نیت ہو تو خاتون کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ملا بھی جا سکتا ہے۔ اور اس پہ تو سخت سے سخت علماء بھی اتفاق کرتے ہیں۔ اہم بات یہاں یہ ہے کہ نکاح پہ آمادہ چار پانچ مردوں سے انٹریکشن کے بعد نقاب کا کیا تصور رہ جاتا ہے۔

اگلا نکتہ یہ ہے عورت کا نماز میں نقاب ڈالنا مکروہ ہے۔ امام نووی۔
یاد رہے کہ خواتین مساجد میں نماز پڑھنے جایا کرتی تھیں۔
اور ان کے لیے الگ ہال نہیں ہوتے تھے۔

علماء کا اس بات پہ بھی اتفاق ہے کہ احرام میں بھی چہرہ کھلا رکھنا ضروری ہے۔ اور حرم میں مرد تو ساتھ ہی ہوتے ہیں۔

شرح المنہاج میں ہے کہ (عورت یا اس کے ولی کی اجازت نہ بھی ہو تو) عورت کو نکاح کے پیغام سے قبل دیکھ لینا مسنون ہے کیونکہ اس کی اجازت حضور ﷺ نے دی ہوئی ہے۔ امام اوزاعی کی روایت ہے کہ عورت کا ناواقف ہونا ہی بہتر ہے تاکہ اس کی آرائش سے مرد کو دھوکا نہ ہو۔

یعنی میک اپ دھوکہ نہ دے

حضرت عائشہ رض فرماتی ہیں کہ فجر کے بعد خواتین گھروں کو جاتیں تو تاریکی کی وجہ سے کوئی ان کو پہچان نہیں پاتا۔ بخاری و مسلم۔

حضرت عائشہ صدیقہ رض نے نقاب کا ذکر نہیں کیا بلکہ تاریکی کی وجہ سے پہچان نہ ہونے کا ذکر کیا۔
یہ حکم قبل از فرضیت حجاب کا بالکل نہیں ہو سکتا۔ اگر ہوتا تو جناب عائشہ ذکر کرتیں۔

حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ حضرت اسماء بنت ابوبکر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں وہ باریک کپڑا پہنے ہوئے تھیں رسول اللہ نے رخ پھیر لیا اور فرمایا اے اسماء! عورت جب بالغ ہو جائے تو ان حصوں (چہرہ اور ہتھیلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ) کے علاوہ اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آنا جائز نہیں ہے۔ ابو داؤد۔

علامہ بابرتی کی کتاب عنایہ میں ہے کہ ان حصوں کے کھلا ہونے کی ضرورت اس لیے ہے کہ عورت کو گواہی و مقدمہ میں اپنے چہرے کو کھولنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لیے یہ کھلے ہی رہیں۔

امام مالک کی کتاب موطا میں ہے کہ عورت اپنے شوہر اور دوسرے غیر محرم کھانے پینے والوں کے ساتھ کھا سکتی ہے۔ بشرطیکہ متعارف طریقے کے مطابق ہو۔

اسی طرح فقہ شافعی اور جنبلی کی مشہور رائے بھی چہرہ کھلونے کی طرف ہے۔

مگر یہاں پہ امام احمد کا ایک قول ہے کہ عورت کا ناخن بھی ستر ہے۔ اس رائے کو اس طرح سے پیش کیا گیا کہ یہی رائے پہلی رائے قرار پائی۔ اس طرح ابو بکر بن عبد الرحمن بن حارث اور ابو الولید باجی کا بھی یہی کہنا ہے کہ عورت مکمل قابل ستر ہے۔

یہ شاذ قول ہے۔
خواتین کے لیے تو کسی حد تک زینت کا باقاعدہ حکم بھی ہے۔

حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ایک عورت رسول اللہ کے پاس بیعت کے لیے آئیں وہ مہندی نہیں لگائے ہوئے تھی آپ نے بیعت نہیں کی جب تک کہ اس نے مہندی نہ لگا لی ابوداود

حضرت عائشہ فرماتی ہیں خولہ بنت حکیم میرے پاس آئیں وہ عثمان بن مظعون کی زوجیت میں تھی اس کی بدحالی کو دیکھا تو مجھ سے فرمایا اے عائشہ خولہ کیسی بد حال ہو رہی ہے۔

حضرت سہل بن سعد سے مروی ہے کہ ایک عورت رسول اللہ کے پاس آئی اور عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنی ذات کو آپ کے لیے ہدیہ کر رہی ہو آپ نے اس پر اوپر سے نیچے تک نگاہ ڈالی۔ اور سر جھکا لیا۔ جب عورت نے دیکھا کہ آپ نے کچھ نہیں فرمایا تو بیٹھ گئی ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ اگر آپ کو اس کی ضرورت نہ ہو تو مجھ سے اس کی شادی کر دیجیے۔ بخاری و مسلم

مندرجہ بالا تین واقعات میں آپ کو کیا لگتا ہے کہ تینوں خواتین نقاب ڈالے ہوئے تھیں؟ ؟

تو عرض یہ ہے کہ شاذ قول کی بنا پہ اور ضعیف سند کی کسی ایک حدیث کی بنا پہ ایک ایسا بیانیہ تشکیل دے دیا گیا ہے کہ اب اس پہ بات کرنا بھی بنیادی اسلامی ارکان کی مخالفت سمجھا جاتا ہے۔ خواتین جو بھی پہنیں، نقاب بھی بے شک لیں مگر اس کو مذہبی فریضہ بنا کر پیش کرنا زیادتی ہے۔ یاد رہے کہ اس طرح کی اور بھی بے شمار روایات مل جائیں گی جن میں عورتوں کا آزادانہ کھیتوں میں کام کرنا، گلہ بانی کرنا اور رسول اللہ ﷺ سے سوالات پوچھنا مذکور ہے۔ اور حالات و واقعات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ عام خواتین برہنہ رو ہی رہتی تھیں۔

نوٹ۔ ابتدائیہ اور اختتامیہ کے پیراگراف کے علاوہ یہ مضمون عبدالحلیم ابو شقہ کی کتاب ’عورت عہد رسالت میں‘ ( ’مترجم محمد فہیم اختر ندوی ) کے دو ابواب کی تلخیص کر کے لکھا گیا ہے۔

عہد رسالت میں عموماً خواتین برہنہ چہرہ رہتی تھیں (دوسرا حصہ)۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments