عہد رسالت میں عموماً خواتین برہنہ چہرہ رہتی تھیں (دوسرا حصہ)۔


افغانستان میں اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پہ جلوس نکالتی خواتین آپ نے دیکھی ہوں گی۔ اسی طرح دو دن قبل پاکستان کے ایک شہر میں بڑا سا جلوس نکالا گیا کہ فیملی پارک بند کیا جائے۔ ان سب عورت مخالف لوگوں کے دلائل کا مرکزی نکتہ خواتین کا پردہ اور ان کو گھروں میں رکھنا ہے۔

واضح ہو کہ اسلام میں دو طرح کے حجاب کی آیات ہیں۔ ایک وہ جو خالصتاً امہات المؤمنین کے لیے ہیں۔ اور یہی اصل میں حجاب ہے۔ دوسرے وہ ستر کے احکامات جو مسلمان خواتین کے لیے ہیں۔

(ایک تیسری قسم کے احکامات یا روایات ہیں وہ لونڈیوں کے لیے ہیں۔ ان پہ گناہ کی سزا بھی نصف ہے۔ اور انہیں لباس میں بھی تخفیف ہے۔ بلکہ بعض روایات کے مطابق کچھ مسلم معاشروں میں ان کو زبردستی کم لباسی پہ مجبور کیا جاتا تھا تا کہ وہ آزاد عورتوں سے الگ نظر آئیں۔ اگر اس موضوع پہ تحقیق کو پڑھا جائے تو یہ بہت سے نظریات اکھاڑ کے پھینک دیتی ہے۔ )

خیر مذکورہ احکامات کا جائزہ لیتے ہیں۔

لوگ رسول اللہ ﷺ کے گھر حاضر ہوتے تھے اور بیٹھے رہتے تھے۔ ان کو منع کیا گیا۔ 5 ہجری میں آیت حجاب کے بعد امہات المومنین حجاب میں رہنے لگی تھیں۔

حج میں بھی امہات المومنین کو خاص طور پہ ذرا سا فاصلے پہ رہنے کا کہا گیا۔ (حضرت عمر فاروق رض نے اپنے آخری حج میں امہات کو اجازت دے دی تھی۔ ذرا اس معاملے کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے ) یہ حکم عام خواتین کے لیے نہیں تھا۔ وہ مردوں سے مل کر حج کرتی رہیں۔

امہات المومنین کو اس کے بعد جہاد کے لیے بھی اجازت نہیں دی گئی۔ عام خواتین کو دی گئی۔

عام خواتین کا مردوں سے ضرورت کے میل جول کی بہت مثالیں ہیں۔ (اس موضوع پہ جو تحقیق ہوئی ہے اس کی تلخیص بھی جلد آپ کی خدمت میں پیش کی جائے گی)

ایک دلچسپ چیز۔

ہمارے لوگ پردے کے ضمن میں حضرت ام سلمہ رض والی وہ روایت بہت مزے لے کر سناتے ہیں جس میں حضرت ابن ام مکتوم، نابینا صحابی تشریف لائے تو آپ کو اندر جانے کا فرمایا۔ (حالانکہ یہ روایت ان کے غلام نے روایت کی ہے اور اہل نقل کے نزدیک درست نہیں ہے) مگر فاطمہ بنت قیس کو انہی ابن ام مکتوم کے گھر عدت گزارنے بھیج دیا۔ (اس واقعے کا ذکر کہیں نہیں ملے گا) اس سے بھی امہات اور عام خواتین کے فرق والی بات واضح ہوتی ہے

امام نووی، مہلب رح اور ابن بطال رح بھی حجاب کے عام خواتین پہ اس طرح فرض ہونے کے قائل نہیں۔

سورہ احزاب میں آیت نمبر 28 سے یہ مضمون شروع ہوتا ہے۔ اور 33 تک جاتا ہے۔ بار بار نبی ﷺ کی بیویو یا عورتو! کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

مثالیں دیکھیے۔
یا اَيُّـهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ ۔۔۔۔۔۔ 28

يَا نِسَآءَ النَّبِيِّ مَنْ يَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُّضَاعَفْ لَـهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ۚ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّـٰهِ يَسِيْـرًا (30)

اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کوئی کھلی ہوئی بدکاری کرے تو اسے دگنا عذاب دیا جائے گا، اور یہ اللہ پر آسان ہے۔

يَا نِسَآءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ۔۔32۔۔۔ اور 33 کے احکامات بھی ساتھ ہیں۔
اے نبی کی عورتو تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو۔
یہ آیات آپ قرآن مجید میں پڑھ سکتے ہیں۔
1۔ امہات المومینین کو نکاح ثانی سے منع فرمایا گیا۔
2۔ انہیں اپنے گھروں میں ٹکے رہنے کی ہدایات دی گئیں۔
3۔ انہیں دو گنا جزا کی بات بھی فرمائی گئی

(لیکن چوں کہ وہ لوگ آیات کا مفہوم سمجھتے تھے اس لیے امہات المومنین رض سفر بھی کرتی رہیں حتیٰ کہ جناب عائشہ صدیقہ رض نے جنگ جمل کی قیادت بھی کی۔ )

اسی طرح احزاب ہی کی آیت نمبر 53 میں نبی کریم ﷺ کے گھر کا مضمون ہے۔

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوتَ النَّبِيِّ۔۔۔۔۔۔۔لمبی آیت ہے۔ اس میں گھر کے آداب ہیں۔ امہات سے کمیونیکیشن کے آداب ہیں۔

کیا صاف نظر نہیں آتا کہ یہ سب مضمون ہی امہات المؤمنین کے لیے ہے۔ پھر ان کو عام خواتین پہ لاگو کرنے کا کیا جواز ہے؟

اب مومنات کے لیے احکامات دیکھیے۔ یہ دو جگہوں پر ہیں۔
پہلے سورہ احزاب کی آیت نمبر۔ 59

يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِْهِنَّ ۚ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا (59)

اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر بڑا کپڑا لے لیا کریں۔ (مختلف مفسرین نے ”جلباب“ کی تشریح مختلف انداز سے کی ہے۔ ریاست مدینہ میں مروج لباس بھی پڑھنے والا موضوع ہے ) ، یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں، اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔ ”

اتنی سی بات ہے کہ وہ پہچانی جائیں۔ غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ بعض جگہوں پر پہچان چھپانا ضروری ہوتا ہے۔ جیسے اگر کسی ملک میں مسلمان عورت کو لباس کی وجہ سے تنگ کیا جاتا ہو۔ تو اسے پہچان چھپانے کے لیے رائج معاشرتی۔ یا مختصر لباس پہننا پڑ سکتا ہے۔ جب کہ جہاں مختصر لباس میں پرابلم ہو وہاں زیادہ موثر لباس پہنا جا سکتا ہے۔ یہ خالصتاً ماحول اور فرد کا مسئلہ ہے۔

اب سورہ نور۔

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِـمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُـمْ ۚ ذٰلِكَ اَزْكـٰى لَـهُـمْ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ خَبِيْـرٌ بِمَا يَصْنَعُوْنَ (30)

ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں، یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے، بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔ (دیکھیے کہ مردوں کو پہلے حکم دیا کہ نظریں جھکا کر رہیں )

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْـهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ

اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے، اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں۔ ، ”

یہاں ‘ماظھر منھا’ پہ مختلف آرا موجود ہیں۔

مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ
ابن مسعود اور حسن بصری کے نزدیک اس سے مراد کپڑے ہیں یا چادر

ابن عباس، مجاہد، انس عطاء بن عمر اس سے چہرہ اور ہاتھ مراد لیتے ہیں۔ یعنی چہرے کا پردہ نہیں۔
حضرت عائشہ چہرہ چھپانے کی طرف مائل ہیں۔
مسور بن مخزمہ صرف آنکھیں کھولنے کی طرف مائل ہیں۔
مولانا مودودی چہرہ چھپانے کی طرف مائل ہیں۔

مولانا اسحاق چہرے کی بجائے آنکھیں اس طرح کور کرنے کی بات کرتے ہیں کہ وہ اٹھ نہ سکیں۔ چہرے کی اہمیت نہیں۔

ڈاکٹر طاہر القادری بھی جسم کے پردے کے قائل ہیں چہرے کے نہیں۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تعبیرات کرنے والے اپنی سمجھ کے مطابق موقع دیکھ کر تعبیرات کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے مختلف مسلم ممالک میں آپ کو مسلم خواتین کے رویے میں واضح فرق نظر آتا ہے۔

یہ آیات عام مسلم مرد و خواتین کے لیے ہیں۔
دوسری جانب ام سلیم اور کئی انصاری عورتوں کی جنگوں میں شمولیت کی روایات موجود ہیں۔

ام سلیط احد میں لڑتی رہیں۔
حنین میں ام سلیمہ خنجر لیے پھر رہی تھیں۔
ام عطیہ سات لڑائیوں میں شریک ہوئیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ خواتین کہیں تربیت بھی تو لیتی ہوں گی۔ اس تربیت کے دوران ان کے لباس کیا ہوتے ہوں گے۔

پردے کے تصور کا تعلق کلاس سے بھی رہا ہے۔ اشرافیہ اور مڈل کلاس خواتین بلا تخصیص مذہب پردوں اور زنان خانوں میں رہی ہیں۔ حتیٰ کہ شیلا ریڈی لکھتی ہیں کہ ہندوستان میں بیسویں صدی کے لگ بھگ ہندو کمیونٹی سے بھی پہلے پارسی لڑکیوں نے پردے سے باہر آنا شروع کیا۔ مگر غریب لوگوں کا یہ حال تھا کہ ایک راجہ نے تو مقروض خاندانوں کی لڑکیوں پہ قمیض پہننے پہ پابندی لگا رکھی تھی۔ مسلمان معاشروں میں غلام خواتین کو بھی ستر کے معاملے میں مختلف قوانین دیے گئے تھے۔ اور یہ بہت اہم بات ہے۔

آج بھی دیہات میں غریب خواتین گھر کے اندر بھی اور باہر بھی ہر طرح کے کام کرتی ہیں۔ پکسے کی دیوار بنانی ہو، یا بچہ اٹھا کر سر پہ چارے کا گٹھا یا پانی کا گھڑا رکھا ہو تو پردے کے عجیب و غریب تصور انتقال کر جاتے ہیں۔

اس سارے عمل کے دوران یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ تمام تفصیلات مردوں کے نقطہ نظر سے ہیں۔ خواتین کی تشریحات مختلف ہیں۔

عام مسلم خواتین جسم کو ڈھکنے کے لیے کوئی بھی لباس پہن لیں اور سارا جسم کور ہو جائے۔ تو وہ کافی ساتر لباس سمجھا جائے گا۔ لہذا اس کو ایشو بنا کر خواتین کی زندگی کو محدود کرنے کی ریت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

باقی پھر ہمارے جیسے عام مردوں کو تو عورت کا نام بھی فیسینیٹ کرتا ہے۔ ان سے عورتیں جتنی چھپائیں اتنا ہی زیادہ پاگل ہوں گے۔ آسیہ عالیہ عمرانہ رضوانہ جیسے نسوانی نام سن اور پڑھ کر دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔

مندرجہ بالا تحریر میں ہم نے صرف قرآنی احکامات پہ فوکس کیا۔ ہم تمام فقہاء کی آراء کا احترام کرتے ہیں اور احادیث مبارکہ تو ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔ دراصل آج کے زمانے میں جو نوجوان سماج کے ہتھے چڑھ جائیں وہ تو مذہبی زومبی بن جاتے ہیں مگر جو نوجوان کوئی کتاب پڑھ لے یا کسی ترقی پسند سے بات کر لے وہ سیدھا ملحد ہو جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جو اسلام اس نے پڑھ رکھا ہوتا ہے اس کا دفاع وہ نہیں کر سکتا۔ لہٰذا موجودہ زمانے میں اسلام کی اصل روح کی جانب توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اب کہانیاں نہیں چل سکتیں۔

حوالہ جات
1. The Message of Quran. Muhammad Asad
2۔ پردہ۔ سید ابوالاعلی مودودی
3۔ عورت عہد رسالت ص میں۔ ڈاکٹر ابو شقہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments