مظلومیت کی تین علامتیں : آئین، عدلیہ اور وزیراعظم


گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر وفاقی حکومت صحافی مدثر نارو سمیت 6 لاپتہ افراد کو تو پیش نہیں کر سکی لیکن وزیر اعظم شہباز شریف خود وضاحت دینے کے لئے عدالت میں حاضر ہو گئے۔ اس سماعت میں لاپتہ افراد کی بجائے وزیر اعظم کی پیشی واضح کرتی ہے کہ پارلیمنٹ کا ’اعتماد‘ رکھنے والی حکومت اس قدر بے بس ہے کہ وہ وزیر اعظم کو تو عدالت میں بھیج سکتی ہے لیکن لاپتہ افراد کا سراغ لگانے یا انہیں سامنے لانے کا اختیار نہیں رکھتی۔

اس کے باوجود گزشتہ روز کی سماعت کے دوران بار بار آئین کی بالادستی اور منتخب حکومت کے اختیار و دسترس کی گونج سنائی دیتی رہی۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم کو عدالت میں پیش ہونے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ اس کیس پر غور کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے گزشتہ سماعت کے موقع پر حکم دیا تھا کہ ان افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے، یا پھر وزیر اعظم خود یہاں آ کر اس معاملہ کی وضاحت کریں۔ شہباز شریف کے لئے آسان راستہ یہی تھا کہ وہ خود ہی عدالت میں آ کر ایسے وعدے کریں جن کے ایفا ہونے پر انہیں خود بھی بھروسا نہیں ہے۔ لاپتہ افراد کا معاملہ اس حد تک سنگین و پیچیدہ ہو چکا ہے کہ ملک کا وزیر اعظم بھی اس کے حل کا کو کوئی وعدہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔

لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے متعدد بار عدالتوں میں پٹیشنز دائر ہوتی رہی ہیں اور اس مسئلہ پر اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی گرمجوش اور بلند آہنگ ’آبزرویشنز‘ بھی سننے میں آتی رہی ہیں لیکن اس کے باوجود نہ تو کوئی حکومت اس صورت حال کو تبدیل کر سکی ہے اور نہ ہی فی الوقت اس کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے۔ جمعہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چھے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے دائر ہونے والی درخواست میں وہی پرانا موقف دہرایا گیا ہے کہ ریاست ان لوگوں کو سامنے لائے، ان کے اہل خانہ کو لاپتہ افراد کی خیریت کے بارے میں بتایا جائے اور یقین دلایا جائے کہ وہ زندہ ہیں۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کی مہم چلانے والی تنظیم کا ایک ہی موقف رہا ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی قصور کیا ہے اور کسی ملکی قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو اس کے خلاف متعلقہ قوانین کے تحت مقدمہ قائم کیا جائے اور عدالتی کارروائی کے ذریعے انصاف کروا لیا جائے۔ تاہم پاکستانی شہریوں کو سادہ کپڑوں میں کسی شناخت اور قانونی اختیار کے بغیر اٹھا کر لے جانے والے عناصر، شاید ملکی قانون، عدالتوں اور نظام پر اتنا یقین بھی نہیں رکھتے جس کا مظاہرہ مسنگ پرسنز کے اہل خانہ اور لواحقین کی طرف سے دیکھنے میں آتا ہے۔

یوں تو ملک میں ہزاروں افراد کو غائب کیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ کی تشدد شدہ لاشیں مل جاتی ہیں اور بعض کے بارے میں طویل عرصہ تک کوئی خبر نہیں ملتی اور ان کے اعزہ امید و نا امیدی کی کیفیت میں احتجاج کرنے، عدالتوں سے رجوع کرنے اور سیاسی لیڈروں سے درخواستیں کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ ملک میں آئین کی بے بسی اور عدلیہ اور وزیر اعظم کی مجبوری کا اندازہ اس صورت حال سے ہی کیا جاسکتا ہے کہ عدالتی کارروائی میں اگرچہ وزیر اعظم شہباز شریف نے بنفس نفیس پیش ہو کر قانون اور عدالتی کارروائی پر یقین کا اظہار کیا لیکن وہ لاپتہ افراد کو بازیاب کروانے کا کوئی دو ٹوک وعدہ نہیں کرسکے۔ اس سے پہلے کوئٹہ میں شہریوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے لاپتہ افراد کی بازیابی کے مطالبہ کا جواب دیتے ہوئے شہباز شریف کہہ چکے ہیں کہ وہ ’متعلقہ اداروں کے ساتھ اس معاملہ کو اٹھائیں گے‘ ۔ تاہم کئی ماہ گزرنے کے باوجود یہ وعدہ پورا ہونے کی نوبت نہیں آئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں گزشتہ روز پٹیشنز میں درج لاپتہ افراد کی بجائے جب وزیر اعظم خود پیش ہو گئے تاکہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہ ہو تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ان سے سوال کیا کہ ’ملک کی سیاسی قیادت کو یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ حیرت ہے جب کوئی لاپتہ شخص سامنے بھی آتا ہے تو تفتیش نہیں کی جاتی کہ اسے کس نے اٹھایا تھا۔ یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ ایجنسیاں شہریوں کو اٹھاتی ہیں۔ اس تاثر سے ہماری قومی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔ ملکی سلامتی وزیر اعظم کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ عدالت آپ پر یقین رکھتی ہے۔ ہمیں اس کا حل بتائیے‘ ۔ ظاہر ہے شہباز شریف کے پاس اگر دو دہائی پرانے اس سوال کا جواب ہوتا تو خود عدالت میں پیش ہونے کی بجائے اپنے ماتحت اداروں کو حکم دیتے کہ جن افراد کے بارے میں جسٹس اطہر من اللہ مقدمہ سن رہے ہیں، انہیں عدالت میں پیش کیا جائے یا رہا کر دیا جائے تاکہ عدالت مطمئن ہو جائے۔ اس کی بجائے وزیر اعظم کی اسلام آباد ہائی کورٹ آمد سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وفاقی حکومت کا سربراہ بھی لاپتہ کیے گئے چند افراد کو سامنے لانے یا ان کی بازیابی کے بارے میں کوئی ٹھوس وعدہ کرنے پر قادر نہیں ہے۔

شہباز شریف نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ تمام لاپتہ افراد کا سراغ لگا لیا جائے گا لیکن میں اپنی پوری کوشش کروں گا۔ میں کوئی عذر خواہی نہیں کرنا چاہتا‘ ۔ ملک کے چیف ایگزیکٹو کی یہ بے بسی واضح کرتی ہے کہ آئینی و قانونی وضاحتوں کے باوجود حکومت بے بس اور مجبور ہے۔ اس کا سربراہ عدالت میں حاضر ہو کر ’عذر خواہی‘ تو کر سکتا ہے لیکن ایک اہم قومی مسئلہ حل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ وزیر اعظم نے عدالت کو بتایا کہ وہ کوئی ’عذر خواہی نہیں کرنا چاہتے‘ ۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ جواب بجائے خود سب سے بڑی عذر خواہی ہے۔ شہباز شریف درحقیقت یہ کہہ رہے تھے کہ وہ ذاتی طور پر ضرور یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس اس کا اختیار نہیں ہے۔ تاہم وہ اس قدر ’مجبور‘ ہیں کہ اس کا برملا اعتراف بھی نہیں کر سکتے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے دوران سماعت متعدد ریمارکس دیتے ہوئے آئین کی بالادستی اور عدالتی اختیار کی بات کی۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ آئین کے تحت حکم جاری کریں گے لیکن اس دوران ان کی طرف سے یہ اعتراف بھی سامنے آیا کہ ’عدالت نہ تو تحقیقاتی ایجنسی ہے اور نہ ہی اس کے پاس انتظامیہ کو حکم دینے کے سوا کوئی آپشن ہے‘ ۔ یہی وجہ ہے کہ معزز عدالت کو حکومت کی اس بات سے اتفاق کرنا پڑا کہ مسئلہ کو حل کرنے کے لئے وفاقی کابینہ نے جو کمیٹی بنائی ہے، اسے نتیجہ دکھانے کے لئے مزید دو ماہ دیے جائیں۔

لاپتہ افراد کا معاملہ عمومی طور سے ملک میں اختیارات کی تقسیم، قوانین و عدالتی نظام پر اعتبار اور بعض ایجنسیوں کے نامعلوم لوگوں کی منہ زوری کی داستان ہے جس کا کوئی انجام دکھائی نہیں دیتا۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں بعض لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے دائر پٹیشن پر ہونے والی سماعت کے دوران یہی صورت حال مزید واضح ہوئی ہے۔ ملک کا وزیر اعظم اور ایک آئینی عدالت کا چیف جسٹس بھی اظہار افسوس کرنے اور وضاحتوں پر یقین کر کے آگے بڑھنے کے سوا کچھ کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ کون لوگ ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور قومی سلامتی کی کس توجیہ و تعریف کی بنیاد پر یہ غیر قانونی کارروائیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ لیکن نہ ان اداروں کو جوابدہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ ایجنسیاں خود یہ خوف محسوس کرتی ہیں کہ ان کا یہ غیر قانونی طریقہ کار اب صرف سوشل میڈیا یا ٹاک شوز میں ہی زیر بحث نہیں آتا بلکہ عدالتی کمروں اور وفاقی کابینہ کے اجلاسوں تک میں اس پر غور کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ عناصر بوجوہ خود کو اس تمام سرگرمی سے لاتعلق، بے خبر یا بالا تصور کرتے ہوئے نہ صرف اٹھائے گئے افراد کو رہا کرنے پر آمادہ نہیں ہیں بلکہ یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے گزشتہ روز کی کارروائی کے دوران یہ سوال بھی اٹھایا کہ ’یہ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔ اگر وزیر اعظم یہ مسئلہ حل نہیں کر سکتا تو اس کا مطلب ہے کہ ریاست کے اندر ریاست کی صورت حال موجود ہے۔ عدالت یہ یقین کرنے پر تیار نہیں ہے۔ تاہم اگر چیف ایگزیکٹو لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کی ذمہ داری پوری کرنے پر تیار نہیں تو اسے اس عہدہ پر فائز رہنے کا کوئی حق نہیں ہے‘ ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی یہ آبزرویشن دلچسپ ہے۔ اول تو بطور چیف ایگزیکٹو شہباز شریف کی بے بسی اس بات سے ہی عیاں تھی کہ حکومت چند افراد کو عدالت کے حکم پر پیش نہیں کر سکی لیکن وزیر اعظم حاضر ہو گیا۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نے کوئی واضح وعدہ نہیں کیا۔ انہوں نے تو اپنی لاچاری کا اعتراف کرتے ہوئے یہی اقرار کیا ہے کہ ’ہاں یہ ذمہ داری تو میری ہے اور میں کوئی عذر خواہی نہیں کروں گا‘ ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے واضح کر دیا کہ وہ ’کوشش کر سکتے ہیں، وعدہ نہیں کر سکتے‘ ۔

آخر اس ملک میں کون اتنا طاقت ور ہے کہ نہ اس کے اختیار کو عدالت چیلنج کر سکتی ہے، نہ وزیر اعظم اسے ناجائز طریقے سے شہریوں کو ہراساں کرنے سے باز رکھنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اور نہ ہی ملک کا آئین ان عناصر کو خوفزدہ کرتا ہے۔ ملک میں جمہوریت لانے اور انصاف عام کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ لیکن جب تک ملکی آئین مظلوم رہے گا اور پارلیمنٹ اور منتخب حکومت بے اختیاری کا راگ الاپتی رہیں گی، اس وقت تک انصاف کیسے عام کیا جاسکتا ہے۔ جس ملک کے ہزاروں شہری کسی جواز کے بغیر نامعلوم لوگوں نے اٹھا رکھے ہوں اور پورا نظام کسی نہ کسی عذر پران کے اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام کی ’حفاظت‘ پر مجبور ہو، وہاں حقیقی آزادی سے لے کر قانونی و آئینی حکمرانی کے نعرے سوائے ڈھونگ اور جھوٹ کے کیا حیثیت رکھتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments