خود کشی کی شرح میں اضافہ: پاکستانی نوجوانوں کے لیے کچھ مفید مشورے


میرے پیارے نوجوانو، اگر آپ کے پاس شپ میں چھپ کر یورپ جانے یا سمندر میں ڈوب مرنے کے لیے پچاس لاکھ نہیں ہے تو پھر آپ مجبور ہیں کہ آپ نے عزیز ہم وطنوں کے ملک میں ہی رہنا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں خود کشی کی شرع میں اضافہ ہوا ہے، تا ہم خود کشی کی دو سو کوششوں میں سے ایک کوشش کامیاب ہوتی ہے۔ آپ نے خود کشی کی کوشش بالکل نہیں کرنی۔

میں آپ کو بتاتا ہوں کہ پاکستان میں کامیابی سے کیسے رہا جاسکتا ہے۔ آپ نے صرف دو کام سیکھنے ہیں۔ یہاں پر سب ان میں سے صرف ایک سیکھا ہوا ہے، صرف انتہائی کامیابیوں نے دونوں سیکھے ہوئے ہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ آپ کو بہت جلدی ہے اس لیے میں تمہید بند کرتا ہوں اور آپ کو بتانا شروع کرتا ہوں۔

میرے پیارے نوجوانو، سیکھنے والا ایک کام یہ کہ دوسروں کو خوف زدہ کیسے کرنا ہے اور دوسرا یہ کہ ان کو سبز باغ کیسے دکھانا ہے۔ جب آپ نے یہ دو کام سیکھ لیے تو یقین مانیے کہ اسی دن آپ کی آمدن شروع ہو جائے گئی۔ آسان سی بات ہے، بہت سے لوگ سمجھ گے ہوں گے جو نہیں سمجھے ان کے لیے دو تین سطریں لکھ دیتا ہوں، وہ بھی سمجھ جائیں گے۔

انشورنس والا کیا کرتا ہے؟

آپ کے گھر یا دفتر میں آ کر بیٹھ جاتا ہے اور آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کے سر پر بال نما جو آپ کو نظر آتا ہے وہ اصل میں بال نہیں آپ کی موت ہے اور وہ کسی بھی لمحے آپ کے کھوپڑ کے اندر داخل ہو جائے گی اور اس سے اگلے لمحے آپ کسی سڑک پر مردہ پڑے ہوں گے ۔ اور پھر ”اللہ معاف فرمائے، آپ کے گھر میں پریشانیوں کے ڈیرے“ ۔

بات جاری رکھتے ہوئے۔

یہ جو چوکوں میں خوبصورت معصوم بچے گدا گری کر رہے ہیں؟ آپ کے خیال میں کیا یہ شوق سے کر رہے ہیں؟ آپ خود جا کر پتہ کر لیں ان میں سے بہت سوں کے والد گرامی قدر اسی طرح اچانک مر گئے تھے۔ یہ بچے بھی ایک وقت میں خوشحال تھے، ان میں ایسے بھی ہیں جو اپنی گاڑیوں پر سکول جاتے تھے۔ بس ان کے والد نے اپنے سے بعد کی پلانگ نہیں کی۔ اس کا نتیجہ یہ بچے آج گداگری کر رہے ہیں۔

سننے والے پر مارے خوف کے کپکپی طاری ہوجاتی ہے تو انشورنس کمپنی کا ایجنٹ سمجھ جاتا ہے کہ اب اس کو امید دلانے کا وقت آ گیا۔ پھر وہ شروع کرتا ہے۔

آپ پریشان ہو گے ہیں، پریشانی اس کا حل نہیں، اس کا حل ہے پالیسی خریدنا، میرے پاس ایسی شاندار پالیسی ہے۔ پھر وہ مردے گنتا ہے کہ کس کس کے مرنے پر اسی دن جنازہ اٹھنے سے پہلے، ہماری کمپنی نے لاکھوں کے چیک بیوہ کو ٹرے میں رکھ کر پیش کیے۔ اس کے بعد وقت آتا ہے اس سے پیسے لینے کا اور بدلے میں بیمہ ایجنٹ اسے ایک عدد کاغذ دے دیتا ہے، ساتھ بتاتا ہے باقی کے پیپر ڈاک میں آئیں گے۔

ڈاکٹر۔ ڈاکٹر مریض کو یقین دلاتا ہے کہ آپ کی بیماری کتنی جان لیوا ہے، آج تک اس بیماری کے مریض صرف وہی بچے ہیں جنہوں نے مجھے سے علاج کروایا ہے۔ مریض کو خوف دلانے کے بعد اسے ایک لسٹ ٹیسٹوں کی، ایک دوائیوں کی، اس تاکید کے ساتھ پکڑاتا ہے کہ بیماری کو میں نے بڑی مشکل سے پکڑا ہے، ایک ہفتے بعد ضرور آنا ورنہ بگڑ بھی سکتی ہے اور لاعلاج ہونے کا خطرہ اپنی جگہ قام ہے۔

وکیل۔ وکیل اپنے سائل کو بتاتا ہے کہ تمہارے کیس جیسے کتنے بندے پہلے پھانسی لگ چکے ہیں اور جو پھانسی سے بچے وہ بھی صرف میری وجہ سے۔ جب نوٹ کرتا ہے کہ اس کی ٹانگیں شروع ہو گئی ہیں تو پھر اپنی فیس بتاتا ہے۔ فیس وصولی کے بعد اسے تاکید کرتا ہے کہ کیس کی تاریخ نہیں بھولنی۔ ساتھ ہی پیسے جیب میں ڈالتے ہوئے اپنی کرسی کا رخ اپنے منشی کی طرف موڑ لیتا ہے۔

مولوی۔ مولوی اور انشورنس والے کا کام تقریباً ایک جیسا ہے، اگر کچھ فرق ہے تو بس اتنا کہ انشورنس والا روڈ ایکسیڈنٹ پر زور دیتا ہے اور مولوی کی کوشش ہوتی ہے کہ دوزخ کی آگ کے شعلے کی بلندی کو کسی نہ کسی طرح آسمان تک لے جاؤں، دوسرا فرق یہ کہ انشورنس والا رقم وصولنے کی رسید دیتا ہے جبکہ مولوی عام طور پر وہ بھی نہیں دیتا مطلب یہ کہ وہ کرموں بھرا پیسے بالکل ہی مفت میں لیتا ہے۔

سکولوں والے۔ سکولوں والے سڑکوں پر پھرنے والے آوارہ اور نشئی بچوں کا ڈراوا دے کر والدین کو بتاتے ہیں کہ صرف ہم ہی ہیں جو آپ کے بیٹے کا مستقبل محفوظ بنا سکتے ہیں۔ ساتھ بتاتے ہیں کہ ہمارے پڑھے ہوئے سیدھے ڈاکٹر، انجینئر یا فوج میں افسر جاتے ہیں۔ فوج میں افسر کا سن کر والدین کی بغلوں میں سے ہاسے (ہنسی) نکلنا شروع ہو جاتے ہیں، ایک دم بولتے ہیں، نہیں نہیں ڈاکٹر، انجینئر نہیں ہمارے بیٹے کو فوج والا سبق پڑھائیں۔

سکول والا جان بوجھ کر خاموش ہوجاتا ہے۔ اس کی خاموشی کے دورانیے میں والدین خوابوں ہی خوابوں میں، بیٹے کی بہت سی جیبیں والا خوبصورت یونیفارم دیکھتے ہیں، بیٹے کے سینے پر لگے پھول دیکھتے ہیں، بحریہ اور ڈی، ایچ، اے، میں پلاٹ دیکھتے ہیں، بڑے بڑے سیاست دانوں کا اپنے بیٹے کے سامنے سر جھکا دیکھتے ہیں، بڑے بڑے منصفوں کو سرنگوں ہونے کے لیے تیار دیکھتے ہیں۔

سکول والا سمجھتا ہے کہ انہوں نے بات کو سمجھ لیا ہے۔ پھر وہ کل ملا کے رقم مانگتا ہے۔

ہاں جی عزیز ہم وطن نوجوانوں ہاتھ کھڑا کرو اور بتاؤ کس کس کو سمجھ آ گئی ہے، شاباش جن کو سمجھ آ گی ہے ان کو اپنے مستقبل بارے بالکل فکر کی ضرورت نہیں، یہاں ہی دودھ نہاؤ گے اور پوتوں کھیلو گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments