سرٹیفکیٹ کورسز یا بے روزگار کرنے والی ڈگریاں؟


یونیورسٹی میں پڑھنے والے کسی بھی شعبہ کے طلبہ سے پوچھا جائے کہ وہ یہ ڈگری کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اس ڈگری کو حاصل کرنے کے بعد کیا کریں گے تو شاید طلبہ کی ایک بڑی تعداد کے پاس واضح جواب نہ ہو۔ اور اگر ان طلبہ یہ پوچھا جائے کہ ان کی ڈگری سے متعلقہ شعبہ جات کون سے ہیں یا ان کی ڈگری کا عام زندگی میں استعمال کہاں ہے تو بھی بہت کم تعداد ان سوالوں کے جواب دے پائے گی۔ ہر کوئی ڈگری کو نوکری کے حصول تک محدود کرتا نظر آئے گا۔

ڈگری نوکری کے حصول تک ہی کیوں۔ کیا نصاب ترتیب دیتے ہوئے ایسا ہی سوچا گیا تھا۔ یا اس کے مقاصد کچھ اور تھے۔ کیا وہ مقاصد طلبہ تک پہنچانے گے۔ اور آخر میں یہ تجزیہ کیا گیا کہ کیا مطلوبہ اہداف حاصل ہوئے یا نہیں۔ تو شاید ان سب سوالوں کا جواب نہ میں ہو۔ لیکن ڈگری نوکری کا کنفرم ٹکٹ نہیں۔ آگے امتحان لینے والے ادارے موجود ہیں جن کے رزلٹس ہمارے تعلیمی اداروں کی کارکردگی بیان کرتے ہیں۔ پبلک سروس کمیشن میں ہزاروں طلبہ اپلائی کرتے ہیں۔

سینکڑوں پاس ہوتے ہیں اور انٹر ویو کے بعد یہ تعداد درجنوں میں رہ جاتی ہے۔ جب یونیورسٹیوں کو پتہ ہے کہ ڈگری کے بعد طلبہ کو ایک خاص معیار پر پرکھا جائے گا تو اسی معیار کو سامنے رکھ کے کیوں نہیں پڑھایا جاتا۔ طلبہ کے ان امتحانات میں فیل ہونے کی وجوہات، نصاب، امتحانی نظام، اور سمیسٹر سسٹم بیان کی جاتی ہیں۔

جن کو نوکری مل گئی وہ تو ٹھیک۔ لیکن نوکری ملی کتنے لوگوں کو۔ شاید 3 سے 4 فیصد کو۔ یہی وجہ ہے کہ بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں ہر سال مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر سال اعلی تعلیمی ادارے ڈگریاں تھما کر نوجوانوں کو معاشرے میں دھکیل دیتے ہیں۔ مختلف فورمز پر تعلیمی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھانے کاتے ہیں کہ ان اداروں کے پاس نہ تو کوئی جامع منصوبہ ہے اور نہ ہی وژن۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسا کیا کیا جائے کی کم از کم طلبہ معاشرے پر بوجھ نہ بنیں اور کسی طریقہ سے اپنا روزگار کا سلسلہ چلا سکیں۔ اس کا جواب بڑا واضح ہے کہ طلبہ کو ایسی تعلیم دی جائے جس کا عام زندگی میں استعمال ہو۔ ہرگز یہ ضروری نہیں ہے کہ ڈگری یافتہ بے روزگار پیدا کیے جائیں۔ اعلی تعلیمی اداروں کو چاہیے کی متعلقہ شعبوں میں سرٹیفکیٹ کورسز متعارف کروانے جائیں جو کم مدت کے ہوں اور طلبہ کو مہارت مہیا کریں اور عملی زندگی سے ہم آہنگ ہوں۔

ہمارے تعلیمی ادارے ڈگری تو دیتے ہیں لیکن زندگی گزارنے کی مہارتیں نہیں سکھاتے۔ اور طلبہ کی ذہنی تربیت ایسے کرتے ہیں کہ طلبہ اس ڈگری کی بنیاد پر ابتدا ہی بڑی جاب سے کرنا چاہتے۔ اس رویہ سے اس بات کا بھی پتہ چلتا کہ ہمارے طلبہ کو اپنی کمزوریوں کا بھی پتہ نہیں۔ جب وہ کچھ عرصہ بے روزگار رہتے ہیں مارکیٹ کا انہیں اندازہ ہوتا ہے تب کہیں جا کر وہ سوچنا شروع کرتے ہیں۔ تو کیوں نہ تعلیمی ادارے ایسے پروگرام بنائیں کی طلبہ کو فیلڈ وزٹ کروائیں تا کہ طلبہ کو اندازہ ہو کہ انہوں نے کس لائن پر کام کرنا ہے۔

ہمارا ریاضی کا طالب علم تھیورم ہو بہو نقل کر سکتا ہے لیکن زمین ماپنے کا طریقہ نہیں جانتا ہو گا۔

مثلاً اردو، انگلش یا عربی کے طلبہ کو ایک زبان سے دوسری زبان میں ٹرانسلیشن سکھائی جائے اور ساتھ ہی انہیں مارکیٹ سے آگہی دی جانے۔ مارکیٹ کے ہر شعبہ کے جدید تقاضوں سے متعلق معلومات دی جائیں

اسی طرح مینیجمنٹ کے پروگراموں میں بڑی بڑی تھیوریز پڑھانے کے ساتھ ساتھ نوٹنگ و ڈرافٹنگ کے محدود عرصے کے کورسز پڑھائے جائیں۔

ہر شعبہ میں کمپیوٹر کی تعلیم کو صرف تھیسس لکھنے تک محدود نہ کیا جائے بلکہ متعلقہ شعبے میں کمپیوٹر کے ذریعے جدت لانے کے طریقے سکھانے جائیں۔ ورنہ ڈگریاں دینا بے روزگار پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments