اس بات کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں


جس ملک میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری کا فیک ٹویٹ سرکولیٹ ہو اور اس پر ہزاروں ٹویٹ لگا کر ٹرینڈ بنا دیا جائے وہاں پر غریبوں ناداروں اور کمیوں کاصبیوں کو کسی اسپتال کو بدنام کرنا کیا حیثیت رکھتا ہے کچھ بھی تو نہیں، بس آپ ایک اسٹار اینکر ہوں جو چاہیں فرما دیں اور گر اس کا آپ کے پاس کوئی بھی ویلڈ سورس نا ہو تو آپ غصے میں آ جاتے ہی آنا بھی چاہیے کیونکہ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ جو کہتے ہیں وہ سچ ہوتا ہے بس مسئلہ صرف یہ ہے کہ آپ سمجھتے ہیں آپ جانتے کتنا ہیں یہ پتا تب چلتا ہے جب آپ جانکاری دینے والوں کی اصلیت جانتے ہوں لیکن وہ اصلیت آپ اس لئے نہیں جاننا چاہیں گے کیونکہ ابھی کچھ دن پہلے ہی آپ کی بڑی آؤ بھگت خاطر مدارت اور خدمت کی گئی ہوتی ہے۔

شکار کرنے والے غضب کا جال بچھاتے ہیں شکار سمجھتا ہے کہ میں آزاد ہوں اور سچ بول رہا ہوں حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ نا سچ جانتا ہے نا سمجھتا ہے نا بولتا ہے، وہ صرف غریبوں کی کسی ایسی ہی فیسیلٹی کو لتاڑ رہا ہوتا ہے جہاں پر روزانہ پانچ سو سے ہزار مریض آتے ہیں ایک سو کے لگ بھگ میجر آپریشن ہوتے ہیں دو سو سے ڈھائی سو ڈیلیوریز ہوتی ہیں اور یہ سب ایک ایسا اسپتال کرتا ہے جو 1974 میں کسی دوست ملک نے عطیے کے طور پر بنوایا تھا اب ذرا اپنا دل تھامیے اور دیکھئے کہ آپ کس طرح سے شکار ہوئیں اسی نام کا اسپتال اس ملک کے کم از کم چار اور شہروں میں ہے۔

چلئے آپ کو بتا دیتے ہیں ہیوسٹن ٹیکساس میں بھی ہے یہ ہی مخیر ملک ہیوسٹن ٹیکساس کی اسپتال کو اربوں ڈالر دیتے ہیں اسی ملک کے ایک دارالخلافہ میں اسی نام کے اسپتال کو لاکھوں ڈالر دیتا ہے، پھر اس سے چار سو کلومیٹر دور ایسی نام کے اسپتال کو اسٹیٹ آف دی آرٹ بنا کر رکھ دیتا ہے لیکن جب وہ کسی غریب پسماندہ علاقے کے اسپتال کو ٹھیک پچاس سال بعد بنوانے کی وہ بھی لمبی عرضی، دہائیوں کے بعد حامی بھرتا ہے تو آپ کو سچ کی عینک پہنانے والے وہ سچ بتاتے ہیں جو اندھیرے کمرے میں ہاتھی پہچاننے کا سچ بتا رہے ہوتے ہیں کوئی ہاتھی کو کان بناتا ہے کوئی سونڈ بناتا ہے اور آپ کو بتاتے چلے جاتے ہیں یہ چار پانچ اندھے اپنے حرص کے ہاتھوں اندھے ہیں اپنی لالچ اور بدکرداری کے ہاتھوں اندھے ہیں نا ان کو اردو آتی ہے نا انگریزی آتی ہے اور نا ہی سندھی آتی ہے وہ دس لاکھ روپے میں پریس کلب خریدتے ہیں اور وہ ہی عینک آپ کو پہناتے ہیں آپ سچ بولتے ہیں۔

آپ کا سچ یہ ہے کہ آپ نے اس اسپتال میں زندگی بھر کبھی قدم نہیں رکھا اور کس اخلاقیات کے طور پر رپورٹ کیا اور آپ نے جو عینک پہنی ہے اس کو صحافی اخلاقیات کا رنگ نہیں چڑھا ہوا، سنی سنائی باتوں پر سچ نہیں بولا جاتا سنی سنائی بات خبر نہیں ہوتی، بڑا اینکر ہونے سے بات جو آپ کہیں وہ مستند ٹھہرے یہ لازم نہیں اس ملک میں بیوپار ہوتا ہے شاہکار بیوپار ہوتا ہے آپ کو پتا ہے کون کون بکتا ہے شاید آپ کو یہ پتا نہیں کہ اس شہیدوں کے شہر میں آپ کے چار پانچ اندھے کیا کیا بیچتے ہیں گر پتا چل بھی جائے تو آپ وہ سچ نہیں بولیں گی، ہم اگر بول دیں ان کے پاس کتنی جگہوں کے کتنے ڈومیسائل ہیں تو آپ برا منائیں گی، کہ اس بات کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں، ہم اگر کہیں کہ یہ سب خود خبر بھی نہیں لکھ پاتے کوئی اور لکھتا ہے پھر بھی آپ کہیں گی کہ اس بات کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں، ہم اگر کہیں کہ یہ کرائے کے قاتل ہیں جو غریبوں کے اس شہر کے ان اداروں کو نشانہ بناتے ہیں جہاں پر امرا کبھی نہیں جاتے لیکن آپ پھر بھی کہیں گ کہ اس بات کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اگر کہیں کہ یہ صاحبان مرنے والوں کی موت کے اسباب نہیں لکھتے شہر میں دوائیوں کی کمی کیوں ہے اس کا حساب نہیں لکھتے۔ شہر سے پانی کیوں نہیں نکلتا یہ نہیں لکھتے ہیں، یہ خود کہاں کیسے کیسے ٹھیکے لیتے ہیں یہ نہیں لکھتے، اس کو دنیا کا ریٹیل کہتی ہے، لیکن آپ پھر بھی کہیں گی کہ اس بات کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں۔

سچ یہ ہے کہ آپ کا کسی بھی بات سے کوئی تعلق نہیں، آپ کا سچ سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے، آپ کا صحافت سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے، آپ کا لوگوں سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے، آپ کا تعلق صرف اس سے ہے کہ کون کتنی واہ واہ کرتا ہے کہ آپ کی پذیرائی کتنی ہوتی ہے، دنیا اسے نرگسیت کہتی ہے، آپ کہیں گی کہ اس بات کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے، خود ہی بتائیے گر آپ نے رنگ کا ٹھیکا مانگا ہو اور نا ملا ہو اور کسی نے آپ کے بھائی کو نوکری دے کر ایک اشارہ کیا ہو تو جس کو رنگ کا ٹھیکا ملا ہو اس کا کیا کریں گی اور وہ رنگ کی دکان بھی آپ کے خاندان کے کسی فرد کی ہو، آپ رنگ دار بھی ہوں، رنگ ساز بھی ہوں، رنگ بھرنے والے بھی ہوں، رنگ لگانے والے بھی ہوں، رنگ کرنے والے بھی ہوں، آپ تو رنگوں کے رنگ ہو، لیکن آپ کہیں گگ کہ اس بات کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بات بس اتنی ہے پچاس سال بعد غریبوں کی ایک فیسیلٹی کو عطیے سے بنایا جا رہا تھا آپ کو توپ بنا کر وہ گولا چلا دیا گیا جس سے وہ نا بچ سکی، اور اب یہ عالم ہے کہ اندھے سورج نا نکلنے کی شکایت کر رہے ہیں اور آپ کچھ نہیں دیکھ پا رہی ہیں۔ سچ جاننا سمجھنا، بیان کرنا، سولی پر چڑھا دیتا ہے آپ کو اس علاقے کے سفر میں ایک کانٹا بھی نا لگا آپ کس کا سچ بولنے گئیں تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments